مولانا فضل الرحمان کا دھرنا اور ہوا میں معلق لبرل ازم کے وکیل


گزشتہ دنوں ایک خبر یا افواہ یا لطیفہ گوئی کی گئی، کہ مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم بننے کے لیے انگریزی زبان سیکھ رہے ہیں. یہ شگفتہ بیانی سہی لیکن عامی کے لیے اس میں مسکرانے کو کچھ نہیں تھا، عوام کو معلوم ہے، وزیر اعظم بننے کی اہلیتوں میں سے ایک، انگریزی زبان میں بات کرنا بھی ہے. یوں تو ہم دُنیا کے اُن رہ نماوں کے قصیدے پڑھتے نہیں چُوکتے جو اقوام متحدہ میں اپنی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں، لیکن اپنے نمایندے کو انگریزی ہی میں خطاب کرتا دیکھ کے خُوش ہوتے ہیں. غلام اُسی کو آقا مانتے ہیں، جو رعب دبدبے والا ہو. یہ رعب دبدبہ انگریزی اطوار میں دکھائی دیتا ہے. ایک مدت سے ہم پر وہ طبقہ حکمران ہے، جو انگریزی زبان، انگریزی بود و باش اپنائے ہوئے ہے، کیوں کہ ان سے پہلے ہمارا آقا جو انگریز رہا ہے. ہماری شہری زندگی انگریز کی نقالی کی مثال ہے.

سو آج جسے ترقی یافتہ کہلانا ہو، اس کے لیے انگریزی پہناوے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور آداب سیکھنا لازم ہے.

میں نے اکثر و بیش تر دانش کی بات، معمولی تعلیم یافتہ یا ان پڑھ کے مُنہ سے سنی ہے، جو جیون کی کٹھالی سے نکل کر کندن بنا ہو. دھرتی سے چُڑے شخص سے بہ تر، کون ہے جو فطرت کو سمجھ سکا ہے۔

فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں جو لوگ دکھائی دے رہے ہیں، وہ شہری پس منظر سے نہیں دکھائی دیتے۔ یہ کیسی بھی دانش کی بات کریں، چوں کہ اپنی گفت گو میں کنفیوشیس، شوپنہار، رسل، مارکس، سقراط، فرائڈ، شیکسپیئر، ڈیوڈ لِین، ریمبراں، پکاسو، ٹالسٹائی، ٹراسکی، ٹام کروز، بریڈ پِٹ، نیتشے، مادام کیوری، آئن اسٹائن، اور دیگر مغربی و مشرقی پینٹر، اداکار، شاعر، مصلح، سائنٹسٹ، مفکر، ہذا القیاس کا نام نہیں لے پاتے، اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان کا حوالہ نہیں دے سکتے، تو ہم “شہری” انھیں جاہل سمجھتے ہیں۔

سچ ہے کہ تعلیم نکھارتی ہے، لیکن جو علم کسی طبقے کو حقیر اور کسی کو اشرافیہ بنا کے دکھائے، وہ تعلیم نری جہالت کی تعلیم ہے. ہمارے یہاں دیکھا یہ گیا ہے، کہ جہالت پڑھے لکھے طبقے میں کہیں زیادہ ہے۔ بس انھوں نے عالمی مشاہیر، مفکرین، اداکار، پینٹر، مصنفین، ہذا القیاس کے نام رٹ رٹ کے اپنی جہالت پر پردہ ڈالا ہوا ہے. یہ اپنی دھرتی کے ان باسیوں سے کٹے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا بیانیہ جو لفظوں میں بہت خُوب ہے، اس کے عملی طور پر رائج ہونے کا امکان نہیں دکھائی دیتا.

وہ مُلا کہ جسے ہم کٹھ مُلا کَہ کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں، وہ اس لیے کام یاب ہے، کہ وہ اکثریتی طبقے کا حصہ بن کے انھیں اپنے حساب سے سدھاتا ہے. یہی میدان میں ہے اور جسے ہم انگریزی آداب اپنانے کی وجہ سے لبرل کہتے ہیں، وہ خلا میں بیٹھا، کاغذ پر ڈرائنگ بنا بنا کے اس ہاوسنگ اسکیم کے پلاٹ بیچنا چاہ رہا ہے، جس کے لیے اراضی ہی نہیں لی گئی.

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran