آرامکو: دنیا کی سب سے بڑی اور منافع بخش تیل کی کمپنی بازار حصص میں کیوں؟


ریاض سٹاک ایکسچینج

دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی آرامکو نے اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے اپنی آئی پی او لانے کی تصدیق کی ہے۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی ابتدائی عوامی پیش کش ہوسکتی ہے۔

سعودی عرب کی تیل کی کمپنی نے اتوار کے روز کہا کہ اس نے ریاض سٹاک ایکسچینج میں درج ہونے کا منصوبہ بنایا ہے۔

یہ کمپنی سعودی عرب کے شاہی خاندان کی ملکیت ہے اور وہ سرمایہ کاروں کی رجسٹریشن اور ان کی دلچسپیوں کے مطابق آئی پی او کی ابتدائی یا لانچ قیمت کا فیصلہ کرے گی۔

کاروباری ذرائع کا خیال ہے کہ کمپنی کے موجودہ حصص میں سے ایک یا دو فیصد حصص کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی کمپنی آرامکو کا اپنے شیئر فروخت کرنے کا فیصلہ

سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات میں تباہی کے مناظر

آرامکو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی مالیت 1.3 ٹریلین (927 بلین ڈالر) امریکی ڈالر ہے۔

کمپنی نے کہا کہ فی الحال اس کا غیر ملکی سٹاک مارکیٹ میں داخل ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

آرامکو بورڈ کے چیئرمین یاسر الرمیان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ‘ہم آپ کو آنے والے وقت میں بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں داخل ہونے کے بارے میں بتائیں گے۔’

آرامکو

سب سے زیادہ کمائی اور سب سے زیادہ منافع

سعودی آرامکو کی تاریخ سنہ 1933 میں اس وقت شروع ہوئی جب سعودی عرب اور سٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلیفورنیا (شیورون) کے مابین معاہدہ ہوا تھا۔

یہ معاہدہ تیل کے کنوؤں کی کھوج اور کھدائی کے لیے ایک نئی کمپنی کی تشکیل سے متعلق تھا۔ اس کے بعد سنہ 1973 سے 1980 کے درمیان سعودی عرب نے ساری کمپنی خرید لی۔

انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق سعودی عرب میں وینزویلا کے بعد تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اس کے ساتھ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

تیل کے معاملے میں سعودی عرب کو دوسرے ممالک پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہاں تیل نکالنا بھی نسبتاً سستا ہے۔

انرجی مینجمنٹ کمپنی شینڈر الیکٹرک میں مارکیٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ہنٹر کا کہنا ہے کہ آرامکو یقینی طور پر دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔

شینڈر نے کہا: ‘یہ تیل اور گیس کی دیگر تمام کمپنیوں سے بڑی ہے۔’

اگردنیا کی چند بڑی کمپنیوں سے اس کا موازنہ کریں تو سنہ 2018 میں ایپل کی آمدنی 59.5 ارب ڈالر تھی۔ اس کے ساتھ ، تیل کی دیگر کمپنیاں رائل ڈچ شیل اور ایکسن موبل اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی ہے جس کی روزانہ 10 ملین بیرل پیداوار ہوتی ہے اور اس سے 356،000 ملین امریکی ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

آرامکو کے صدر یاسر الرمیان

آرامکو کے صدر یاسر الرمیان

خطرات اور چیلنج

آئی جی گروپ میں چیف مارکیٹ تجزیہ کار کرس بیوچیمپ کا کہنا ہے کہ ‘آرمکو میں سرمایہ کاری کے اپنے خطرات ہیں۔ اس کمپنی کے لیے اسٹریٹِجک اور سیاسی خطرات بھی ہیں۔’

یہ خطرات رواں رواں سال ستمبر میں بھی سامنے آئے تھے جب آرامکو کے پلانٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ سعودی عرب میں کمپنی کے دو پلانٹوں پر ڈرون سے حملہ ہوا تھا جس سے ان میں آگ لگ گئی اور بہت نقصان ہوا۔

تاہم ، کمپنی کے چیف ایگزیکٹو امین ناصر نے کمپنی کے منصوبوں کو ‘تاریخی’ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرمکو ابھی بھی دنیا کی سب سے معتبر تیل کمپنی ہے۔

آئی پی او کی لانچ کے موقع پر آرامکو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حالیہ حملوں سے اس کے کاروبار، مالی حالت اور آپریشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مشرق وسطی کے امور کے ماہر قمر آغا نے بی بی سی کو بتایا: ‘امریکی اور یوروپی سرمایہ کار اقتصادی سست روی اور مارکیٹ میں پیسے کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یمن میں جاری جنگ میں سعودی عرب کے کردار پر بھی سرمایہ کار شبے میں ہیں۔’

سعودی کے زیرقیادت اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف تقریباً چار سال سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ حوثی باغیوں نے ستمبر میں سعودی تیل پلانٹوں پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

قمر آغا کے مطابق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے پاس تیل کے ذخائر کتنے بچے ہیں کیونکہ اس مین دن بدن کمی آ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ سعودی عرب کی مقامی مارکیٹ میں بھی تیل کی خاطر خواہ کھپت ہے۔

آرامکو

بی بی سی بزنس کی نمائندہ کیٹی پریسکوٹ کا تجزیہ

ایک وقت تھا جب آرامکو کو ایک پراسرار کمپنی سمجھا جاتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس نے خود کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے۔ جہاں آج کمپنی پہنچی ہے اس کے لیے اس نے خود کو احتیاط کے ساتھ تیار کیا ہے۔

اس کی تیاری میں کمپنی کو کئی سال لگے۔ فوربس میگزین کے مطابق ‘سنہ 2016 میں آرامکو کے پاس بین الاقوامی معیار کے مطابق حساب کتاب کی کتابیں بھی نہیں تھیں۔ نہ ہی اس میں اداراتی چارٹ اور ڈھانچے کے باضابطہ ریکارڈ تھے۔’

ستمبر میں ہونے والے ڈرون حملے کے بعد ہی آرامکو نے اپنے معاشی اعداد و شمار کی اشاعت شروع کردی ہے۔ کمپنی اب صحافیوں کے ساتھ بھی باقاعدگی سے سوال و جواب کے پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں آرامکو صحافیوں کو ڈرون حملے کے مقام پر بھی لے گئی تھی۔

کمپنی نے خواتین کو کچھ اعلیٰ عہدوں پر مقرر کیا ہے۔ اتوار کو کمپنی نے جو اعلان کیا اس میں بعض بین الاقوامی خدشات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

کمپنی نے کہا ہے کہ اس کا مقصد طویل عرصے تک خام تیل ری سائیکل کرنا ہے۔ ماحولیات کے بارے میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے آرامکو نے کہا ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ماحول کو ہونے والے نقصان کو کم کرے گی۔

کمپنی نے کہا ہے کہ مقامی لوگ حتی کہ طلاق یافتہ خواتین بھی ان کے حصص خرید سکیں گی اور انھیں ہر 10 حصص کے لیے بونس دیا جائے گا۔

آرامکو

آرامکو: حصص فروخت کرنے کا منصوبہ متنازع کیوں ہے؟

سعودی عرب آرامکو کے حصص فروخت کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ تیل پر معیشت کا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ‘وژن 2030’ کے ذریعے ملکی معیشت کو مختلف شعبوں میں لے جانا چاہتے ہیں۔

ڈیوڈ ہنٹر کے مطابق سعودی عرب اپنے وسیع صحرا کے استعمال سے شمسی توانائی کی پیداوار میں بھی آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

ہنٹر کا کہنا ہے کہ ‘موجودہ وقت میں آرامکو کے لیے صورتحال سیاسی طور پر پیچیدہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گذشتہ سال سعودی عرب کے صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے۔ انسانی حقوق میں سعودی عرب کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ لہذا، اس کے متعلق بھی شکوک شبہات پائے جاتے ہیں۔’

ایک اور مشکل محمد بن سلمان کے منصوبے میں یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں فوسل ایندھن کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے۔

ڈیوڈ ہنٹر کا کہنا ہے کہ آرامکو کے لیے مزید مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ فوسل ایندھن کی طرف سرمایہ کاروں کی رغبت کم ہو رہی ہے اور وہ نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔’

قمر آغا کا خیال ہے کہ آرامکو کے بہت سے مثبت پہلو ہیں لیکن یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کہ کتنے سرمایہ کاروں کو وہ راغب کرسکیں گے۔

آغا کا کہنا ہے کہ اگر کمپنی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر خود اس کمپنی پر اور سعودی عرب پر پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp