اب دھرنا ختم ہونا چاہیے


اسلام آباد میں اس وقت جہاں بارش اور سردی نے موسمی درجہ حرارت کم کیا ہے لیکن وہاں لاکھوں نہیں تو ہزاروں مظاہرین نے ملک بھر کا سیاسی درجہ حرارت گرم رکھا ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دھرنے میں اکثریتی تعداد مذہبی لوگوں کی ہے لیکن جو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور علامہ خادم رضوی نے گزشتہ دھرنوں میں مذہبی لوگوں کی ایک شناخت بنائی تھی کہ مذہبی لوگ جنونی اور سرپھرے ہوتے ہیں، اس شناخت کو مولانا فضل الرحمن نے یکسر بدل دیا ہے۔

داد ہے ان کی سیاسی بصیرت کی کہ انہوں نے جس قدر امن کا مظاہرہ ابھی تک کیا ہے جس کی امید نہیں تھی۔

ناقدین کو زیادہ نہیں بس یہی کہنے کا موقع ملا ہے کہ ’دھرنے میں آئے نمونوں کو تو پتہ ہی نہیں وہ آئے کس لیے ہیں؟ ‘ حالانکہ یہ سوال سابقہ دھرنوں پر بھی کیے جا سکتے ہیں دھرنے تو چھوڑیں سابقہ دھرنا متاثرین کی حکومت کو آئے سوا سال ہوچکا ہے ان نمونوں کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے ووٹ کس لیے دیے تھے؟

یاد ہے جب طاہرالقادری صاحب پیپلزپارٹی کے دور میں چڑھ دوڑے اور نصف شب منصب خلافت سنبھال لیا تو زرداری صاحب کی بصیرت تھی کہ انہوں نے ان نمونوں کو ایک پلانٹڈ گیم سمجھا۔ پھر مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں دو کزنوں کی کھیپ بھیج دیں، جنہوں نے مہینوں بھر دھرنے دیے، ناچ گانے بھی کیے، نعتیں نغمے، اسلامی انقلاب تک نافذ کیا پھر اچانک انقلابی تحریکوں نے ڈائریکٹرز کے مطابق اپنے اپنے مختلف وقت پر دھرنے ختم کردیے، حتٰی کہ مسلم لیگ کے سربراہان جب مشکل صورتحال میں بھی پھنس چکے تھے تب بھی ایک مذہبی رہنما علامہ رضوی کو ختم نبوت کے معاملے پر لا کھڑا کردیا۔

لیکن اب خادم رضوی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ جب سے جیل سے واپس آئے ہیں ان کا سافٹ وئیر تبدیل کیا گیا ہے مگر بطور سیاسی طالبعلم یہ سمجھتا ہوں کہ رضوی صاحب کو سمجھ آگئی ہے اب وہ کھل کر بول نہیں سکتے مگر جتنا بولتے ہیں ایک مذہبی و سیاسی رہنما کے طور پر معقول بولتے ہیں۔ خیر یہ باتیں ماضی میں چلی گئیں۔ ہمارا موضوع یہ تھا کہ مولانا کو اب دھرنا سمیٹ لینا چاہیے۔ جہاں تک کامیابی و ناکامی کا معاملہ ہے تو مولانا کا مارچ کامیاب ہو چکا ہے۔

سب سیاسی فہم و فکر والے احباب یہ بھی جانتے ہیں کہ دھرنوں سے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہونا چاہیے۔ البتہ اگر استعفے دلوانا مقصود ہے ہی تو کم از کم شیخ رشید جیسے نا اہل کا استعفیٰ ضرور دلوا سکتے ہیں۔

دھرنا کامیاب کس صورت ہوا وہ سب واضح ہے کہ مولانا نے سول بالادستی کی بات بھی کردی ہے، ان اداروں کو بھی بارہا مخاطب کیا ہے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ اپنا کام کریں اور سیاستدانوں کو آزادی سے کام کرنے دیں۔ میڈیا کہ آزادی سے لے کر لاپتہ افراد کے حوالے سے بھی آواز بلند کی ہے۔ سوائے دائیں بازو کے چند صحافیوں کے باقی سب مولانا کے مارچ کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جتنا چاہیں اسے مذہبی کارڈ کا استعمال کہیں لیکن اس مارچ میں کم از کم مذہبی کارڈ بالکل بھی استعمال نہیں ہوا ہاں مذہبی لوگ جو ان کی اپنی پارٹی کے ہیں وہ ضرور آئے ہیں۔ ناکامی تو حکومت کی رہی ہے جو مارچ سے قبل راستے بند کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی جماعتوں کو دھمکاتی اور ورغلاتی رہی لیکن مولانا کے خلاف اکسانے کے باوجود بھی جمیعت علمائے اسلام کے کارکنان جوش و جذبے سے اسلام آباد تک پرامن طریقے سے پہنچ گئے۔ دھرنا مظاہرین میں اکثریت سندھ بلوچستان اور خیبر کے لوگوں کی ہے پنجاب نے اپنی روایات کی پاسداری کی ہے اور حسب روایت سلام کر کے ایک بارڈر سے دوسرے بارڈر پر رخصت کیا ہے۔

مارچ کے بینرز پر یا مارچ سے قبل تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق تھیں لیکن پہلے یہی کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ رسمی شرکت کرے گی اس کی وجوہات سادہ سی ہیں کہ نواز شریف خاندان اپنے گرداب میں ہے اور شہبازشریف صاحب اپنے گرداب میں۔

پیپلزپارٹی کی باقی ماندہ قیادت کسی چھوٹی اور مذہبی پارٹی کے بیک پر کھڑی ہو کر اپنا وجود مشکوک نہیں کرنا چاہتی لیکن جو پیپلزپارٹی کا حال ہے، مستقبل میں بھی کسی جماعت سے اتحاد کے بغیر سندھ بھی فتح کرنا مشکل رہے گا۔

اس مارچ میں عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی و دیگر قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کی استقامت و ساتھ مولانا پر احسان رہے گا اس کے علاوہ بایاں بازو کے لکھاریوں نے اس مارچ کا سوشل میڈیا پر جس قدر ساتھ دیا وہ حیران کن اس لیے نہیں کہ مذہبی جماعت کا مارچ تھا، یہ مارچ سول بالادستی کا مارچ تھا جس کا ہر اس باشعور طبقے نے ساتھ دیا ہے جو جمہوریت کہ اصل شکل دیکھنا چاہتا ہے۔

مارچ کی کامیابی میرے نزدیک اس دن ہی ہوگئی تھی جس دن غیر جانبدار ادارے کے ایک ترجمان کو ٹی وی پر آنا پڑا، اس کے بعد عمران خان اور ان کی کمپنی کے لوگوں کو چُپ کرا کے چوہدری برادران کو مذاکرات کے لیے بھیجا گیا سمجھیں مارچ کا پیغام اس دروازے تک پہنچ گیا۔ اب یہی ہے کہ کم از کم میڈیا کی آزادی لے کر مولانا مارچ ختم کردیں تو یہ یقیناً ان کے سیاسی مستقبل کے لیے فائدہ مند ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).