خواب بننے والی لڑکی کی کہانی


یہ کہانی ہے اک ایسی لڑکی کی جو خواب بنتی تھی۔

وہ روز آسمان کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتی تھی۔ نہ جانے اسے کیا یقین تھا کہ وہ ایک دن کسی ستارے کی مانند چمکتی دمکتی اس شان کے ساتھ پوری دنیا گھومے گی کہ کوئی بھی اسے روکنے والا نہ ہو گا۔

اسے بچپن سے ہی لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتی ’مضمون خود لکھتی‘ تقریروں میں خود بھی حصہ لیتی اور اپنے کلاس فیلوز کو بھی تقاریر لکھ کر دیتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے اسکول میں وہ بہترین لکھاری کے نام سے مشپور ہو گئی اور اس کی اپنی ایک پہچان بن گئی۔ وقت گزرتا رہا اور اس کا نامور رائیٹر بننے کا خواب پختہ ہوتا گیا۔

لیکن گھریلو حالات کی وجہ سے اس کا خواب بکھرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی شادی ہو گئی اب تو خواب پورے ہونے کی جو آخری کرن تھی وہ بھی ختم ہو گئی آہستہ آہستہ اس کی امیدیں دم توڑ گیئں۔ گھریلو مصروفیات اس کے نامور رائیٹر بننے کے خواب میں آڑے آتے رہے۔ دن بہ دن ذمہ داریاں بڑھتی گئیں اور خواب کہیں مٹی کی گرد میں دھندلا گئے۔ اس کے خواب ایک حسرت بن کر رہ گئے اور ہر لمحہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتے رہتے۔ گھر والوں کی نظر میں مذاق نہیں بننا چاہتی تھی کیونکہ کوئی اس کو اور اس کے خوابوں کو سمجھنے والا نہیں تھا۔ کبھی ہمت کر کے قلم کاغذ لے کر بہٹھ جاتی اسی وقت بچے آکر اپنی ڈرائینگ بنانا شروع کر دیتے اور وہ پھر سے کسی کام میں مصروف ہو جاتی۔

جیسے جیسے رات ڈھلتی وہ تاروں سے بھرے آسمان کو دیکھتی تو سارے پرانے ارمان ’خواب تروتازہ ہو جاتے دل میں خواہشیں مچلنے لگتی۔ وہ خوابوں کی دنیا میں کھو جاتی۔ کبھی کسی پروگرام میں انٹرویو دیتی خود کو سلیبریٹی محسوس کرتی۔ خود کو آسمان کے ڈھیروں ستاروں میں ایک چمکتا ہوا ستارہ محسوس کرتی۔ اپنے خوابوں کی وادیوں میں اڑتے اڑتے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں سر رکھ کر سو جاتی۔

آخر اس نے ٹھان لیا کہ وہ اپنے خواب ضرور پورے کرے گی۔ اس نے لکھنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ سفر کا آغاز کیا۔ گھر والے ہنسنے لگے کہ گھر کے کاموں میں دل لگاؤ یہ لکھنا لکھانا ’شاعری کرنا چھوڑو۔ بات بات پر طعنے اس کا مقدر بن گئے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور کچھ ہی عرصے بعد اس کا پہلا کالم اخبار میں شائع ہو گیا۔ اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔

اس کی شاعری کو لوگوں نے بہت پسند کیا اس کی ہمت بندھی۔ آہستہ آہستہ اس کا شمار اچھے لکھاریوں میں ہونے لگا اور دوسری طرف مشاعروں میں اس کو دعوتیں ملنے لگیں اور اس کو بولنے کا موقع ملا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ آخر ایک دن مشہور ٹی وی چینل سے اس کو کال آئی کہ وہ اس کا انٹرویو ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں اس کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ ایسا تو اس نے صرف خوابوں میں دیکھا تھا۔ اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا پھر ایک چینل سے دوسرے چینل میں اپنے انٹرویو ریکارڈ کرواتی اور کبھی کسی مشاعرے میں چیف گیسٹ کے طور پر مدعو ہوتی۔

آج بھی وہ اپنا ایک انٹرویو ریکارڈ کروا رہی تھی اور اس سوال پر کہ آپ نے یہ سفر کیسے شروع کیا اس کی آنکیں نم ہو گئیں بولتے بولتے خیالوں میں کھو گئی اور بے اختیار رب کا شکر ادا کیا جس عظیم ذات نے اس کو اس کی سوچ سے بھی زیادہ نواز دیا۔

وہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والی نازک سی ’معصوم سی لڑکی آج آسمان کا ایک چمکتا ستارہ بن گئی تھی۔

یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ تھا یا وہ لگن تھی ’کچھ کر دکھانے کی‘ اپنا آپ منوانے کی۔ اکیلے لڑتے لڑتے وہ تھک تو گئی تھی لیکن اپنی منزل پر پہنچ کر بہت خوش تھی اور شکر گزار بھی کیونکہ اللہ نے اس کی محنت کا پھل بہت خوبصورت دیا تھا۔ سچ ہے کہ محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اور خواب ہمیشہ بڑے دیکھنے چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).