پاکستانی شہریوں کے نام ایک پاکستانی شہری کا خط


میرے ہم منصب پاکستانی شہریو، امید ہے سلامت ہو گے

یہ مکتوب قلمبند کرنے کا سبب گھما پھرا کر کی گئی باتوں سے اوب جانے والی طبیعت ہے۔ اس لیے بغیر بات گھمائے پھرائے، سیدھا بنا تمہید کے مطلب کی بات کروں گا۔

دوستو، سیدھے سیدھے سوالات پوچھنے چاہئیں۔ سوالات کنفیوژن دور کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ سوالات ان کو سیدھے رستے پر رہنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جن سے پوچھے جاتے ہیں۔ جو جواب دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

ریاست ماں نہیں ہوتی کہ اس کے سامنے اف تک نہیں کرنی۔ ریاست مقدس نہیں ہوتی، عہد و پیمان مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی پاسداری مقدس ہوتی ہے۔ یہ عہد و پیمان ہی کسی مخصوص خطے کو ایک ریاست کی پہچان عطا کرتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ریاست محض دریاؤں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندر پر مشتمل زمین کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جو مختلف ناموں کے ساتھ اس سیارے کے ہر گوشے یا قوس پر موجود ہے۔

انسان نے صدیوں پر محیط مختلف تجربات کے بعد اس بندوبست کو بہتر جانا تو مہذب دنیا نے اسے اپنا لیا۔ اس بندوبست کے نتیجے میں ایک متعین جغرافیائی حدود کے اندر رہنے والوں نے باہم حقوق و فرائض کے تعین کے لیے جو عہد و پیمان کیے وہ ہی علم سیاسیات اور قانون کی لغت میں دستور کہلائے۔ ان معاہدوں کے تحت حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے۔ ادارے تخلیق ہوتے ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ذمہ داریوں کی احسن ادائیگی پر شاباش کے مستحق ٹھہرتے ہیں، غفلت پر تنبیہہ ہوتی ہے۔

یہ سب بالکل منطقی، جائز اور معقول اور سمجھنے میں سہل ہے۔ اس مفروضے سے مرعوب مت ہوں کہ یہ کوئی ایسا مضمون یا موضوع ہے جو ہم جیسے عامیوں کے لیے آؤٹ آف باؤنڈ ہے۔ یہ کوئی ایسی ناقابل فہم سائنس نہیں جس کو چند مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے یا اس پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ہمارا اس پر بات کرنا بالکل ایسے ہے جیسے کسی معاہدے کے فریقوں میں باہم بات بالکل فطری اور جائز ہے۔ جس معاہدے کی میں بات کر رہا ہوں اس میں میں ہر وہ بچہ فریق ہے جو پیدا ہوتا ہے تو یہاں پیدائش کے نتیجے میں اسے پاکستانی کی شناخت ملتی ہے۔

یہ دو طرفہ تعلق ہے۔ معاہدے کی پاسداری معاہدے کے فریقوں کی ذمہ داری ہے۔ باہمی بقا کے لیے معاہدوں پر عمل ضروری ہوتا ہے، یہی تہذیب اور اخلاق کا تقاضا ہے۔ یہی منطق کا تقاضا ہے۔ یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے۔

دستور اور اس کے تحت ریاست اور شہری کا تعلق ایک جدید معاہدہ ہے۔ کوئی دینی عقیدہ نہیں جو غیب پر ایمان کا تقاضا کرے یا سوالات کا جواب کسی کی ردائے تقدس پر حملہ سمجھا جائے۔

لہذا ریاست سے سوال پوچھیں۔ سیدھے سیدھے سوال پوچھیں۔ پوچھیں کہ میرے ٹیکس کے بدلے میں میری حفاظت کیسے ممکن بنائی جاتی ہے؟ میرے بچوں کی صحت اور تعلیم کا کیا بندوبست ہے؟ صارف کے طور پر میرے حقوق کو کیسے محفوظ بناتے ہو؟ میرے حقوق پامال ہونے کی صورت میں انصاف کیسے ملے گا؟ قیمت کیا ہو گی؟ کیا یکساں ہو گا یا طاقتور کے لیے کچھ اور ہو گا؟ اس کے لیے کچھ اور ہو گا تو ایسا کرنے والے سے کون اور کیسے انصاف کرے گا؟ جب ان جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی ہو گی جن کے ساتھ میں معاہدے میں شامل ہوں تو وہ فوج کس کے حکم پر بروئے کار آئے گی جس کو اس کی حفاظت کے لیے تیار کیا گیا ہے؟ پوچھیں کہ یہاں حکومت کا اختیار میرا ہے تو ریاست کیسے ممکن بنائے گی کہ میرا اختیار مجھے ہی ملے؟

پتہ نہیں یہاں کب، کیوں اور کیسے اشاروں کنایوں میں بات کا رواج پڑا۔ شاید معاہدوں کے ہوتے ہوئے بھی کچھ فریق اتنے طاقتور تھے کہ دیگر فریقوں نے خود سے ہی سنسر شپ سیکھ لی۔ ہمارے تہذیبی تقاضوں کی رو سے اشاروں کنایوں میں تو تادیب اچھی لگتی ہے۔ یا مرض عاشقی کے مبتلا اشاروں کنایوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ سادہ سوال ہیں۔ ان کا پوچھنا حب الوطنی ہے۔ ان کا پوچھنا اخلاص ہے۔ کیا ہے وہ پنجابی محاورہ شرع میں شرم کیسی؟

تو بھائی باہم معاہدے کی بابت بات کرنے میں شرم کیسی؟ یہی تو ذمہ دار اور بیدار شہری کا رویہ ہونا چاہیے۔ نام نہاد دانشوروں کی مہمل باتوں اور بقول نصرت جاوید صاحب راولپنڈی کے بقراط عصر جیسوں کی گفتگو سے کبھی گمراہ مت ہوں۔ ان کے دل کے چور انہیں گھما پھرا کر بات کرنے کی طرف راغب کرتے ہوں گے۔ آپ نے گالی دینی ہے نہ عشق معشوقی کرنی ہے، ایگریمنٹ کی بات کرنی ہے۔ اطمینان سے بات کریں، معقول بات سے سب کے لیے خیر پیدا ہو گی۔

سوالات کنفیوژن دور کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ سوال ان کو سیدھے رستے پر رہنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جن سے پوچھے جاتے ہیں یا جو جواب دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ سیدھے سیدھے سوال پوچھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).