مولانا سرخرو ہوئے، عمران خان کا امتحان باقی ہے


عمران خان اور ان کی حکومت ابھی تک آزادی مارچ کی صورت میں سامنے آنے والے احتجاج کا جواب دینے یا اس سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح اور دوٹوک پالیسی سامنے لانے میں ناکام ہے۔ مولانا فضل الرحمان، حکومت کی کارکردگی، اہلیت اور جواز کے بارے میں عوام کی آواز بننے میں سرخرو ہو چکے ہیں لیکن عمران خان اور ان کی حکومت ابھی تک امتحانی پرچے کا جواب دینے کے مرحلے میں ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنے سیاسی حریف کی یہ مشکل آسان کرنے کے لئے واضح کیا ہے کہ حکومت اگر کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی تجاویز سامنے لائے پھر اپوزیشن ان پر غور کرکے اپنا لائحہ عمل تیار کرے گی۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے چند راؤنڈ ضرورکیے ہیں لیکن ان مختصر ملاقاتوں کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ گزشتہ دو روز کے دوران ہونے والی دونوں ملاقاتیں رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کی رہائش گاہ پر ہوئیں۔

 دونوں مواقع پر حکومت اور اپوزیشن کے نمائیندے بہت دیر تک ساتھ نہیں رہے۔ اب تک عام لوگوں کو یہی بتایا گیا ہے کہ کوئی راستہ تلاش کرلیا جائے گا۔ اپوزیشن وزیر اعظم کے استعفیٰ پر اصرار کررہی ہے جبکہ حکومت اس مطالبہ کو ماننے سے انکار کرتی ہے۔ تاہم گزشتہ رات مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے نئے انتخابات پر صراحت کے ساتھ زور دیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی بات اتنی شدت سے نہیں کی۔ حکومت ان دونوں مطالبات کے بیچ اپنا کوئی منصوبہ سامنے لاسکتی ہے تاکہ موجودہ تعطل دور ہوسکے۔

اس دوران اسلام آباد میں بارش ہونے اور مزید بارشوں کی پیشین گوئی کی وجہ سے ایچ نائن کے گراؤنڈ میں جمع ہونے والے کثیر اجتماع کے لئے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے یہ ٹوئٹ خیر سگالی کا بروقت اظہار ہے کہ انہوں نے سی ڈی اے کے چئیرمین کو موقع پر جاکر صورت حال کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ مظاہرین کی سہولت کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کا انسانی رویہ سیاسی سختی کو کم کرنے کا باعث بنے گا اور ماضی میں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن لیڈروں کے بارے میں جو افسوسناک اور تلخ بیان دیے جاتے رہے ہیں، ان کی کسی حد تک تلافی کا سبب بھی بنے گا۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کو واضح ہدایت دیں کہ وہ سخت کلامی سے باز رہیں۔

سخت موسم کی وجہ سے آزادی مارچ کے مظاہرین کو مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے لیکن یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے قائدین کی اجازت کے بغیر احتجاج ادھورا چھوڑ کر گھروں کو واپس چلے جائیں گے۔ حکومت کو بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر یہ اندازہ کیا جارہا ہے کہ موسمی حالات کھلی فضا میں بیٹھے مظاہرین کو منتشر کرنے پر مجبور کردیں گے اور حکومت کی انتظامی اور سیاسی مشکل آسان ہوجائے گی تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔

 اس کے برعکس حکومت کو مصالحت کے عمل کو تیز کرنے کے لئے پیش رفت کرنی چاہیے۔ اسے ایسا قابل قبول سیاسی فارمولا سامنے لانا چاہیے، جس میں کم از کم یہ تسلیم کیاجائے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن کا احتجاج ٹھوس سیاسی حقائق پر استوار ہے اور ان کی اصلاح کے لئے کوشش ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف اور عمران خان نے خود ہی اپنے لئے موجودہ سیاسی مشکل پیدا کی ہے۔ اب یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ انہیں اس میں سے خود ہی باہر نکلنا ہوگا۔ حکومت کو بچانے کے لئے باہر سے کوئی مدد نہیں آئے گی۔

بیرونی امداد کا راستہ مولانا فضل الرحمان کے اس دو ٹوک مؤقف نے بھی مسدود کیا ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں (حکومت بمقابلہ اپوزیشن) کو یہ معاملہ آپس میں طے کرنا ہے۔ ادارے اس معاملہ میں فریق بننے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی کثیر تعداد میں ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اسلام آباد لانے اور ایچ نائن میں جمع کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے کارکنوں اور منتظمین نے اعلیٰ نوعیت کی انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

 اسی طرح مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں نے سخت اور مشکل مطالبات پیش کرتے ہوئے بھی سیاسی اشتعال انگیزی سے گریز کیا ہے۔ آزادی مارچ میں شامل لوگوں کی تعداد ماضی میں ہونے والے احتجاجی اجتماعات سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھکیے ہوئے معاہدہ پر حرف بہ حرف عمل کیا ہے۔

جمعہ کو اس احتجاج کے پہلے اہم خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو مطالبات ماننے کے لئے دو روز کی مہلت دی تھی۔ عام خیال تھا کہ اس مہلت کے بعد مولانا حکومت پر دباؤ میں اضافہ کرنے کے لئے ڈی گراؤنڈ کا رخ کریں گے۔ 2014 میں عمران خان نے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو یقین دہانی کروانے کے باوجود عین وقت پر ڈی گراؤنڈ تک جانے کا اعلان کردیا تھا۔ مولانا کے لئے بھی یہ اقدام کرنا مشکل نہیں تھا۔

 ان کے ساتھ 2014 کے مقابلے میں کئی گنا ہجوم ہے۔ میڈیا میں یہ خبریں سامنے بھی آتی رہی تھیں کہ مولانا ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ڈی گراؤنڈ کی طرف کوچ کا اعلان کریں گے۔ خاص طور سے ان کے اس بیان سے یہ شبہ یقین میں تبدیل ہونے لگا تھا کہ اگر وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوتے تو عوام کو وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر انہیں گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم مولانا نے مزید لفظی یا عملی اشتعال انگیزی سے گریز کرکے اس احتجاج کو اپنی سیاسی طاقت کا کامیاب مظاہرہ بنادیا ہے۔ اب حکومت ان سے بہر صورت سیاسی معاہدہ کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ حکومت کی حالت اس کھلاڑی کی سی ہے جسے تین طرف سے گھیرا جا چکا ہو اور سامنے حریف کھڑا ہو جس سے راستہ لینا ہی اس کی واحد مجبوری بن چکی ہو۔

آزادی مارچ کے شرکا نے اسلام آباد کے شہریوں کے لئے کسی قسم کی کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔ کوئی انتظامی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔ کسی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ شہری احتجاج میں شریک لوگوں کی وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ ہی انصار الاسلام کے کارکنوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ بلکہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ شہریوں کی زندگی معمول پر رکھنے اور موصلت کی سہولت کے لئے میٹرو بس سروس بحال کردے، آزادی مارچ کے کارکن خود اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ نظم و سلیقہ مولانا فضل الرحمان کی بڑی کامیابی ہے۔ اسلام آباد کے شہری اس وقت جن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، ان کی وجہ انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں ہیں یا کچھ سڑکیں بلاک کردی گئی ہیں اور متبادل راستوں پر ٹریفک میں اضافہ ہؤا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی دوسری بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ وہ ایک واضح سیاسی مؤقف منوانے کے لئے بہت بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے احتجاج کو سیاسی مقاصد تک ہی محدود رکھا ہے حالانکہ حکومت کی طرف سے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور یہ دعوےکیے گئے تھے کہ مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ الزام بھی لگائے گئے تھے کہ مولانا دینی مدرسوں کے طالب علموں کو جمع کریں گے۔ یہ دونوں الزام غلط ثابت ہوئے ہیں۔ سیاسی نظم اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے البتہ اپنے مؤقف میں زیادہ لچک کا مظاہرہ نہیں کیا ہے لیکن انہوں نے بات کرنے یا مفاہمت سے بھی انکار نہیں کیا۔

مولانا فضل الرحمان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کے باوجود ابھی تک سب اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ان کی حکمت عملی سے اختلاف ضرور کیا ہے اور دھرنے میں شمولیت سے بھی انکار کیا ہے لیکن اس کے باوجود مولانا نے ان سے کنارہ کشی کی بجائے انہیں بدستور ’انگیج‘ رکھنے کی حکمت عملی اختیا رکی ہے۔ یہ بھی مولانا کی سیاسی بصیرت اور چابکدستی کا مظاہرہ ہے۔

 اس حوالے سے یہ امر واقع بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اگرچہ آزادی مارچ کے 6 روز پورے ہوچکے ہیں لیکن مولانا نے اس احتجاج کو دھرنے کا نام نہیں دیا۔ احتجاج شروع کرنے سے پہلے بھی انہوں نے دھرنے کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا تھا۔ انہوں نے اس احتجاج کی مدت کا تعین بھی نہیں کیا۔ اس طرح انہوں نے نہایت مہارت سے یہ راز اپنے دل میں چھپا رکھا ہے کہ وہ اس احتجاج کو مستقبل میں کیا شکل دینا چاہتے ہیں۔

مولانا اپنی انتظامی اور سیاسی حکمت عملی میں سرخرو ہوئے ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں کہ اس احتجاج کے بعد مولانا فضل الرحمان کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا یا وہ اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جؤا کھیل رہے ہیں، اب دم توڑ چکی ہیں۔ وہ وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے یا نئے انتخاب کا وعدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوں تو بھی انہوں نے ملک کی سیاسی گھٹن کو توڑ کر ایک اہم سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ مستقبل کی سیاست میں مولانا فضل الرحمان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لحاظ سے مولانا اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہیں اور سرخرو بھی ہوئے ہیں۔

اس کے برعکس عمران خان ابھی تک بے یقینی کا شکار ہیں۔ شاید وہ ذہنی طور پر خود کو ٹھوس سیاسی مراعات دینے کے لئے آمادہ کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ حکومت مولانا فضل الرحمان کے مطالبوں کے جواب میں اگر ان اصولی شکایات کا ازالہ کرنے کا حوصلہ کرسکے جن کی وجہ سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی بات کی گئی ہے تو سیاسی تعطل دور ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ لیکن اس کے لئے عمران خان کو واقعی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس امتحان کے سارے سوالوں کے جواب انہیں خود ہی دینا پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali