دو ٹکے کی عورت یا ذہنی مسائل کا شکار مرد


”دو ٹکے کی عورت“ والے سین کو جتنی دفعہ دیکھا تھا ذہن میں پہلا خیال یہ آیا تھا کہ شاید یہ سین غلط کونٹیکسٹ میں شئیر ہورہا ہے اور یہاں ہمایوں سعید جس کے کردار کا نام شاید دانش ہے عدنان صدیقی کو اس کی کسی بات کا جواب دے رہا ہے اور شاید یہ اصطلاح عدنان صدیقی کے کردار نے ادا کی ہو۔ رائے دینے سے پہلے سوچا کہ مکمل سین دیکھنا کہیں بہتر ہے تاکہ اندازہ ہو کہ مسئلہ تھا کیا اور بنا کیا دیا۔ لیکن بدقسمتی سے شاید یہ میرے چند غلط ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھا کیوں اس وقت مجھے جتنی شدید ناگواریت، غصہ اور مایوسی کا احساس ہے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ بہت ضبط کے ساتھ وہ مکمل سین دیکھا جب دونو‍ں میاں بیوی اس مرد کا انتظار کر رہے ہیں جو بیوی کو لینے آئے گا اور وہ آگیا پھر شوہر کی تمام بات چیت اور دو ٹکے کی عورت کے ڈائیلاگ تک کے سین۔

دانش نامی کردار کسی صورت محبت کرنے والے شوہر کا کردار نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں ایسے لوگ جذباتی تشدد کی انتہا کردیتے ہیں جن کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ صرف وہی باوفا اور مخلص ہیں اور دوسرا فریق جھوٹا اور دھوکے باز ہے۔ جو دوسرے بندے کو جائز ضروریات کے تقاضے پہ ہی ہر ممکن شرمندہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ انسان کسی انتہائی قدم کا فیصلہ کرلے۔ اس ڈرامے کا صرف ایک سین پہلے دیکھا تھا جس میں ہمایوں سعید کا کردار بیوی کو اس بات پہ طعنے دے رہا تھا کیوں کہ اس نے کسی پارٹی میں مرد کے ساتھ ڈانس کیا جس پہ وہ کہتا ہے کہ ”جب میں فلاں عورت کی کمر میں ہاتھ ڈال کے ڈانس کر رہا تھا تو میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں تھا بلکہ وہ تو میرے لیے بہنوں جیسی ہے لیکن میں یہ کیسے برداشت کرسکتا ہوں کہ کوئی مرد میری بیوی کی کمر میں ہاتھ ڈال کے ڈانس کرے کسی مرد کی غیرت یہ برداشت نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔ “

اس کے بعد میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں یہ ڈرامہ مزید دیکھوں۔ لیکن دوسرا سین دیکھنا پڑا اور وجہ اوپر بیان بھی کی۔

دو ٹکے کی عورت والے مکمل سین کا سب سے کم فرسٹریٹنگ حصہ اصل میں یہی ڈائیلاگ تھا ورنہ اس سے پہلے کے تمام ڈائیلاگ دانش نامی کردار کی نفسیاتی طور پہ غیر متوازن شخصیت کے عکاس ہیں۔

”تم کمرے میں نا جاؤ تمہارے اس کمرے میں جانے کا حق چھین لیا ہے“

”تمہارے ہاتھ کی چائے نہیں پئیوں گا مگر تمہیں میرے ہاتھ کی چائے پینی پڑے گی۔ “

”عورت کی محبت قد بڑھا دیتی ہے بے وفائی نے چوہا بنا دیا۔ “

اور اس جیسے کئی ڈائیلاگ

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا انسانی حقوق اور جذباتی تشدد کے متعلق شعور اتنا کم ہے کہ انہیں وہ ڈائیلاگ جو کہ بنیادی طور پی جذباتی تشدد کی اعلیٰ مثال ہیں وہ بہترین لگ رہے ہیں۔ پورے سین میں ہمایوں سعید کا کردار حاوی رہا جیسے بقیہ دونوں کردار نہ زبان رکھتے ہیں نہ دماغ۔ ورنہ جتنے کھوکھلے اور صرف بے عزت کرنے والے اور الفاظ کی بازی گری سے لبریز ڈائیلاگ ہمایوں سعید کی طرف سے ادا کیے گئے اس کے جواب میں کہیں مضبوط دلائل دیے جاسکتے تھے۔

اس پوری کہانی کو اب ذرا الگ تناظر میں دیکھیے ایک لڑکی جس نے ایک مرد کی بے بنیاد مگر خوبصورت باتوں کو محبت سمجھ لیا اور شادی کرلی لیکن شادی کے بعد اندازہ ہوا کہ وہی باتیں جو شادی سے پہلے بہت دلفریب لگتی تھیں وہ کتنی کھوکھلی ہیں اور اس کا شوہر اسے جذباتی طور پہ تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اس نے بالآخر اپنے جذبات کی قدر کرنے والے شخص کی جانب قدم بڑھا دیے۔

دانش نامی کردار ہرگز مظلوم نہیں بلکہ ایسے کردار کے حامل لوگ دوسروں کے لیے انتہائی ذہنی اذیت کا باعث ہوتے ہیں اور ایک ایسا شخص جو اس کا رویہ جھیل نہ رہا ہو بلکہ ایک باہر والے کی نظر سے دیکھ رہا ہو اسے ایسے افراد مظلوم لگتے ہیں۔ اور دوسرا فریق جو کہ اصل میں مظلوم ہے اور مدد کا حق دار ہے ظالم قرار پاتا ہے۔ اس مکمل ڈرامے میں عورت کے بنیادی حقوق کو بہت بری طرح مینیوپولیٹ کرکے اسے بے راہ روی دکھایا گیا ہے۔ اور اپنے حقوق کو مجبوراً قربان کردینے والی خواتین اور وہ مرد جو دانش جیسے کردار کی حامل خواتین کے ساتھ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں وہ اپنی زندگی کی گھٹن کا اس ڈرامے سے کتھارسس کر رہے ہیں۔

ذرا بھی انسانی جذبات کو سمجھنے اور اسے اہمیت دینے والا انسان اس ڈرامے کی تحسین نہیں کر سکتا۔ مجھے حیرت ہوگی اگر اس ڈرامے کی کاسٹ میں شامل اداکار کبھی کسی پلیٹ فارم پہ خواتین اور انسانی حقوق پہ کچھ بھی بولنے کا منہ رکھ سکیں بالخصوص جناب ہمایوں سعید صاحب۔ رہ گئی بات اس ڈرامے کے مصنف کی تو انہوں نے اپنی رائے سے پہلے ہی کافی ”تعریف“ سمیٹ لی ہے۔ شدید افسوس کہ ہماری قوم میں پڑھے لکھے طبقے کا نمائندہ ایسے افراد کو سمجھا جارہا ہے اور یہ سوچ قابلِ ستائش گردانی جارہی ہے۔ اس ڈرامے کو ذوق و شوق سے دیکھنے والے والدین اولاد کو بنیادی حقوق کی کیا تعلیم دیں گے؟ یہ شدید لمحہ فکریہ ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima