تین بڑی خوبیوں کا فقدان


آپ سمر قند کے سپوت امیر تیمور ہی کولے لیجیے جس نے زندگی کا زیادہ ترحصّہ گھوڑے کی پیٹھ پر گزارا۔ اپنی زندگی میں بیالیس ملک فتح کیے۔ اس میں بے شمار خامیاں تھیں۔ شہر سبز سے نکل کر تقریباً پوری دنیا گھوما لیکن کسی کو نہیں بخشا۔ انسانی کھوپڑیوں پر جب وار کرتا تو ان سے ابلتے ہوئے خون کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک مسحُورکن مسکراہٹ پھیل جاتی۔ دونوں ہاتھوں سے لڑتا ایک ہاتھ میں کلہاڑا اور دوسرے ہاتھ میں تلواراور سامنے انسانی لاشوں کے انبار یہی اس کی زندگی تھی۔ ہم امیر تیمور کی شخصیت میں ہزار خامیاں ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن اس کی شخصیت کی خوبیاں جب سامنے آجاتی ہیں تو تاریخ کی طرح ہم بھی اس کو ڈیفائن کرنے سے عاجز بن جاتے ہیں۔

قرآن پاک کے حافظ تھے اور الٹا قرآنی آیات کی تلاوت کرتے تھے۔ جس علاقے کو فتح کرلیتے وہاں علماء کی بیٹھک لگاتے اور ان سے فقہ کے مسائل پر گفتگر کرتے اور ہمیشہ ان کا پلڑا بھاری رہتا۔ غداروں کومعافی کبھی نہیں دیتے بلکہ ان کی کھال ادھیڑ کر گرم تیل میں زندہ جلا دیتے۔ اصفہان، دمشق اور بغداد میں ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا غالباً اسی وجہ سے تیموری دور کو اسلامی تاریخ کا ایک بدنما دھبہ کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تین خوبیاں ایسی تھیں جن کی وجہ سے وہ تاریخ میں امر ہوا۔

پہلی خوبی یہ تھی کہ اس نے کبھی بھی اپنے سپاہیوں میں اور خود میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ جس جگہ لشکر پڑاؤ ڈالتا عام سپاہی اور اس کے خیمے اور کھانے پینے میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ اس محبت کی وجہ سے اس کی پوری فوج اس کے ایک اشارے پرشہروں کو تاراج کردیتی اس کا موقف تھا میں اپنی فوج کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے ہمیشہ باصلاحیت لوگوں کی قدر کی۔ صناعوں، شاعروں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو جس ملک میں بھی گرفتار کیا جاتا تیمور کے حکم کے مطابق ان سے محبت کا سلوک روا رکھ کران کو سمرقند بھیجا جاتا جہاں وہ کام پر لگ جاتے جس کی وجہ سے سمرقند علم کا مرکز بن گیا اور ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔

تیسری اور سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ اس کو سمرقند سے انتہائی محبت رہی اور یہی وجہ تھی کہ سمرقند کو جو ترقی اس کی وجہ سے ملی آج تک زبان ذد عام ہے۔

اب اگر ہم تھوڑا سا جائزہ اپنے ملک کا لیں تو ہم عین انسانی فطرت کے مطابق گومگو کا شکار ہوجائیں گے اور جس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اور سیاستدانوں میں انہی تین خوبیوں کی شدید کمی ہے۔

پہلی بات جو شدید مایوسی کی ہے وہ یہ ہے کہ آج تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ سیاست میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں کارکن اور نظریہ جو دونوں ہمارے ملک میں تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ نظریے پر ہر لمحہ آسانی سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے اور کارکن جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لڑائیاں ہمیشہ ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی جاتی ہیں۔ آپ صرف دھرنوں ہی کی تاریخ ملاحظہ کیجیئے۔ ان احتجاجی تحریکوں میں کارکن ہزار ایسی سختیوں کا سامنا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔

عمران خان نے 2014 میں 126 دن کا دھرنا دیا۔ کارکنوں نے اس پورے عرصے میں اپنے لیڈر کو ایک لمحے کے لئے اکیلا نہیں چھوڑا۔ بارشیں بھی خوب برسی اور موسمی سختیوں کا بھی انتہائی دلیری سے کارکنوں نے سامنا کیا لیکن کوئی ایک مثال جس سے ثابت ہو کہ خان صاحب نے انہی کارکنوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے ایک ہفتہ ہی گزارا ہو۔ پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ جب خان صاحب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے تو انہی لوگوں کو جن کو عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے سخت مشکلیں پیش آئی۔

قادری صاحب بھی ایک بار سردیوں میں نکل آئے اور پوری دنیا کے سامنے کارکن باہر جاڑے کے موسم میں سردیوں سے ٹھٹھرتے رہے اور قادری صاحب کنٹینر کے اندر پسینہ خشک کرتے رہے۔ عقلمندی اگر یوں ہی صرف حادثوں سے آتی رہی تو ایک ایک کرکے ہم سب یوں ہی جان کی بازی ہار جائیں گے۔ اب مولانا صاحب بھی قسمت آزمائی پر اتر آئے ہیں اور بارشوں کے موسم میں جب آگ کے آلاؤ کے گرد ہی لمبی راتیں گزاری جاسکتی ہیں کارکن سڑکوں پر اپنے امیر کی خاطر اس ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ مولانا صاحب ہر شام آتے ہیں اور تقریر کرکے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ کیا یوں ہی ہم اپنی کایا پلٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جنگ خندق میں پیٹ کے ساتھ پتھر کیا صرف صحابہ نے باندھے تھے۔ اس بڑی خلیج کا ختم ہونا اب ضروری ہے۔

دوسری طرف ہمارے صحافی، فنکار، ادیب، شاعر، ڈاکٹر، وکیل، اساتذہ اور عالم سب سڑکوں پر آنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت میں ان لوگوں کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی گئی۔ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے ان کا واپس آنا اب ایک خواب ہی ہے۔ اساتذہ سے اگر آپ پوچھ لیں تو ان کا بھی یہی موقف ہے کہ ہمیں درس و تدریس سے دور کیا جارہا ہے۔

تیسری مصیبت یہ ہے کہ جس طرح امیر تیمور کو سمرقند سے بے تحاشا محبت تھی اسی طرح پاکستان کو ہم وہ محبت نہیں دے رہے بلکہ الٹا پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جس کا ثبوت یہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک ہم یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمارے عمل سے ملک کو کیا فائدہ یا کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہم چاہے کچھ بھی کرلیں حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ خود سے تبدیلی کے حقیقی آغاز ہی سے سفر شروع ہو گا۔

سیاست کی پوری بساط کارکن، باصلاحیت افراد اورملک کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو کارکن کی عزت سیکھنی ہوگی، باصلاحیت افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا اور پاکستان کو ترجیحات میں اول رکھنا ہوگا۔ ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے کہ تاریخ پر دھبہ بن کر رہنا ہے یا اس میں امر ہونا ہے اور اس فیصلے میں دیر کی کوئی گنجائش نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).