حصول انصاف میں قانونی پیچیدگیاں ( 2 )


گزشتہ کالم میں مجموعہ تعزیرات پاکستان، مجموعہ ضابطہ فوجداری اور مجموعہ قانون دیوانی کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اور اس بات کو زیر بحث لایا گیا کہ ان قوانین کا سن نفاذ کیا ہے۔ دوسرے حصے میں حصول انصاف میں جو قانونی پیچیدگیاں ہیں جن کی وجہ سے اکثر مجرم بری ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کبھی کبھار بے گناہ لوگ بھی رگڑے میں آجاتے ہیں۔ ان پیچیدگیوں سے پہلے ماڈل کورٹس پر مختصر نظر ڈالی جائے تاکہ ماڈل کورٹس سے انصاف کی کیا توقعات ہوسکتی ہیں انہیں بھی سمجھنے کی کوشش کی جا سکے۔

قانونی پیچیدگیاں اپنی جگہ مگر پاکستان کا نظام انصاف انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اس سست روی کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں مقدمات کئی سالوں سے زیر سماعت ہیں۔ ان مقدمات میں زیادہ تر تعداد دیوانی مقدمات کی ہے۔ جہاں تک مسئلہ فوجداری مقدمات کا ہے ان میں بھی اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ مقتول کا خاندان عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے بیزار ہوجاتا ہے۔ اسی سست روی کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھاتے ہی اس بات پر زور دیا کہ میں بھی ڈیم بناوں گا۔

مگر یہ ڈیم پانی کا ڈیم نہیں ہوگا بلکہ ان مقدمات کی بڑھتی تعداد کو روکنے کے لئے بنایا جائے گا جو کئی عرصہ سے زیرسماعت ہیں۔ اسی بیان کی عملی شکل ماڈل کورٹس کی صورت میں نظر آئی۔ پاکستانی قوم کا المیہ کہیں یا کچھ نہ کرسکنے کا سبب مگر حقیقت یہی ہے پاکستانی قوم اوروں کی نقل بہت جلد اتارتی ہے۔ ہر میدان، ہر شعبہ ہائے زندگی میں پاکستانی نقل اتارنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ماڈل کورٹس کو ترقی یافتہ مغربی ممالک کے نظام انصاف کی نقل نہ بھی کہا جائے تو ان کے طرز کا نظام ضرور کہا جائے گا۔

ماڈل کورٹس کا خاصہ یہ تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت ہوگی۔ اور چار دن کے اندر اندر مقدمہ نمٹایا جائے گا۔ پھر اس مدت میں توسیع کی گئی۔ یقینا چیف جسٹس کھوسہ صاحب کی یہ بہت عمدہ کاوش تھی۔ اس طرح وہ مقدمات کی بڑھتی تعداد بھی روکنا چاہتے تھے اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا چاہتے تھے۔ حقیقت میں انصاف تو اسے کہا جاتا ہے جو سستا بھی ہو اور فوری بھی۔ انصاف میں تاخیر انصاف کے نہ ملنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی تاخیر کے پیش نظر چیف جسٹس صاحب فوری انصاف دلانا چاہتے تھے۔ مگر چیف جسٹس صاحب ماڈل کورٹس متعارف کرانے سے پہلے ان بنیادی وجوہ کو کیوں زیربحث نہیں لائے۔ یا پھر زیربحث لائے بھی تو ان کا توڑ کیوں نہیں نکالا یہ سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال یہ تو چیف جسٹس صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔

آئیے ذرا ان بنیادی وجوہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ماڈل کورٹس کو سمجھا جاسکے اور ترقی یافتہ ممالک کے نظام انصاف کے ساتھ ان ماڈل کورٹس کا موازنہ کیا جاسکے۔ ان بنیادی وجوہ سے بھی پہلے کچھ بنیادی اصول سمجھنا اشد ضروری ہیں۔ ان بنیادی اصولوں کو سمجھے بغیر قارئین پاکستانی رائج نظام انصاف کو نہیں سمجھ سکتے۔ جیسا کہ پہلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ بنیادی طور پر دو طرح کے مقدمات ہوتے ہیں۔ جنہیں فوجداری اور دیوانی مقدمات میں منقسم کیا گیا ہے۔

اب ان مقدمات کے لئے اپنا اپنا الگ پروسیجر ہوتا ہے۔ جن کا ذکر گزشتہ کالم میں ہوچکا ہے۔ یہاں اس پروسیجر کے ذریعے مقدمہ کے سچا ہونے نہ ہونے کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے، ان اصولوں پر بات ہوگی۔ بنیادی طور تو ہر طرح کے مقدمات کے لئے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شواہد کے بغیر کسی بھی مقدمہ کو سچا ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی قوانین کا بھی یہی اصول ہے اور برطانوی قوانین کا بھی۔ مزید یہ بات ہر ذی شعور انسان کی سمجھ میں آتی ہے کہ ثبوتوں کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

لیکن جب مقدمات کی تقسیم فوجداری اور دیوانی میں ہوتی ہے تو ایسے مقدمات کو ثابت کرنے کے لئے شواہد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ دیوانی مقدمات میں شواہد کے توازن کو دیکھا جاتا ہے۔ جس طرف کا پلڑا بھاری ہوا مقدمہ اس کے حق میں چلا جائے گا۔ مطلب کسی پراپرٹی کا مقدمہ تھا۔ مدعی اور مدعا علیہ دونوں نے پراپرٹی کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے اپنے حق میں شواہد پیش کیے۔ دونوں کے شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت اس چیز کا باریک بینی سے جائزہ لے گی کہ کس کے شواہد زیادہ مضبوط ہیں۔

پھر جس کے شواہد زیادہ مضبوط ہوئے اس کے حق میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ اگرچہ دوسری پارٹی نے بھی شواہد پیش کیے ہوتے ہیں۔ مگر جہاں تک بات ہے فوجداری مقدمات کی تو ایسے مقدمات میں مقدمہ کو سچا ثابت کرنے کا اصول دیوانی مقدمات سے یکسر مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فوجداری مقدمات میں براہ راست ریاست پارٹی بنتی ہے۔ جو اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور اپنے شہری کو انصاف دلاتی ہے۔ اس لئے ایسے کیسز میں مقدمہ میں لکھا جاتا ہے کہ ”ریاست بنام فلاں“۔

دوسری بات فوجداری مقدمات میں شواہد کا اصول دیوانی مقدمات کی طرح نہیں ہے۔ فوجداری مقدمات میں الف سے لے کر ی تک سب کچھ مقتول کے خاندان نے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ملزم اس وقت تک بے قصور تصور کیا جاتا ہے جب تک اسے مجرم ثابت نہ کیا جائے۔ فوجداری مقدمات میں شواہد کا تسلسل زنجیر کی طرح ہوتا ہے۔ جس کی پہلی کڑی سے لے کر آخری کڑی تک شواہد اس طرح جڑے ہوئے اور مضبوط ہوں کہ کسی کڑی میں کوئی کمزوری واقع نہ ہو۔ اگر شواہد کی کسی کڑی میں ذرا سی کمزوری واقع ہوگئی تو شک پیدا ہوتا ہے۔

اور اس شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو جاتا ہے۔ اور یہ شک معمولی سی بات سے بھی پیدا کرایا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک حقیقی مقدمہ بطور مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک شخص پر قاتلہ حملہ ہوا اس نے حملہ کرنے والے کے خلاف جاکر ایف آئی آر درج کرائی۔ جب کیس عدالت میں پہنچا تو جج صاحب نے گواہ طلب کیے۔ اس ملزم کے خلاف گواہی دینے اس کا اپنا قریبی رشتہ دار آیا۔ کیونکہ وہ اس وقت شکایت گزار/سائل تھا۔ جس وقت اس پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔

شکایت گزار/ سائل نے بیان دیا کہ جب مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور حملہ کرنے والا بھاگ گیا تو ہم تھانے ایف آئی آر درج کرانے آئے۔ جب کہ گواہ نے پورا بیان دینے کے بعد اتنا کہا کہ قاتلانہ حملہ کے بعد ہم گھر گئے اور وہاں سے تھانے ایف آئی آر کرانے آگئے۔ جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ شکایت گزار اور گواہ کے بیان میں تضاد پیدا ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے شک پیدا ہوا ہے۔ اصول یہ ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو جاتا ہے لہذا عدالت ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کرتی ہے۔

صرف اتنی سی بات پر شک نکالا گیا اور ملزم کو بری کردیا گیا۔ فوجداری مقدمات میں عادی مجرم بھی شک کا فائدہ اٹھا کر باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اب یہ اصول کس حد تک فائدہ مند ہے۔ کیا جرائم پیشہ لوگوں کو اسی اصول پر باعزت بری کرنا جرائم میں اضافہ کرنے کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا ماڈل کورٹس جن کا قیام فوجداری مقدمات کے لئے عمل میں لایا گیا ہے ایسے کورٹس میں چار دن کے اندر اندر یا پھر قلیل مدت (ہفتہ دو ہفتہ) میں قاتل کے خلاف اتنے ثبوت پیش کیے جاسکتے ہیں کہ اسے شک کا فائدہ نہ مل سکے؟

کیا ہمارا تفتیشی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ وہ قاتلوں کو سزا دلوا سکے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جنہیں چیف جسٹس صاحب زیربحث نہیں لائے یا پھر لاکر حل نہیں نکال سکے۔ چیف جسٹس صاحب فوری انصاف کے لئے ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں تو لائے مگر یہ نہیں سوچا کہ کیا پاکستان کے محکمہ پولیس کے تفتیشی نظام سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ وہ قاتل کو پکڑنے میں مددگار ثابت ہوگا؟

جہاں تک بات ترقی یافتہ ممالک کی ہے تو وہاں کی پولیس جائے وقوعہ پر پانچ منٹ کے اندر اندر پہنچ کر اس جگہ کو حصار میں لے لیتی ہے۔ پھر وہاں سے تمام شواہد اکٹھے کرلئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خون کے قطرے بھی محفوظ کرلئے جاتے ہیں۔ اور ہر چیز کو دستانے پہننے کے بعد اٹھایا جاتا ہے تاکہ قاتل کے ہاتھوں کے نشان زائل نہ ہوں۔ اس تیز ترین اور شفاف نظام تفتیش کی بدولت ترقی یافتہ ممالک میں فوری انصاف مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے وہاں قاتل چند گھنٹوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ایک ہفتہ میں عدالتیں فیصلے سنا دیتی ہیں۔

پاکستان میں کوئی عدالت کے دروازے پر سرعام کسی کو قتل بھی کرجائے تب بھی یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ قاتل کون ہے۔ ایسے ناقص ترین تفتیشی نظام میں چند دنوں میں قتل کے مقدمات نمٹانا دراصل مقتول کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماڈل کورٹس کے قیام عمل کے فورا بعد عادی مجرم دھڑا دھڑ باعزت بری ہوتے رہے۔ ایسے ناقص ترین نظام تفتیش اور معمولی شک کی بنیاد پر ملزم کو بری قرار دینے سے پہلے معاشرے میں جرائم کے بڑھتے تناسب پر بھی غور کیا جاتا۔

یا پھر چیف جسٹس صاحب کو تفتیش کے لئے ایک الگ محکمہ کا قیام عمل میں لانا چاہیے تھا۔ تاکہ وہ پہلی فرصت میں جائے وقوعہ پر پہنچ کر تمام شواہد اکٹھے کرلیتا۔ اور انہی شواہد کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا۔ تب ملزم کو شک کا فائدہ دیا جانا درست ہوتا۔ کرپٹ محکمہ پولیس اور ناقص نظام تفتیش کے ہوتے ہوئے ملزم کو معمولی شک پر باعزت بری کرنا مظلوم و مقتول کے ساتھ کھلی نا انصافی اور ظلم ہے۔ یہی وجہ ہے اکثر لوگ عدلیہ سے مایوس ہوکر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کا تناسب بڑھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).