مولانا فضل الرحمان مارچ: کامیاب یا ناکام؟ فل سٹاپ


کل مولانا کے مارچ کم دھرنا کے بارے میں ید بیضا اور حاشر ابن ارشاد کی گفتگو سنی۔ یہ تو نہیں کہوں گا کہ ۔۔میں یہ کہتا ہوں۔۔ بلکہ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یہ کہوں گا کہ کسی سیانے نے یہ کہا ہے کہ کبھی دو دانشوروں کی بحث نہ سنیے کہ دوطرفہ بھاری بھر کم دلائل سے نتیجہ اخذ کرنا تودرکنار آپ خود عقلی انتشار کا شکار ہو کر مزید بے اطمینانی پال لیں گے۔

کیا ایسے دھرنے کے کسی سطح پر سیاسی و سماجی فوائد/نقصانات ہو سکتے ہیں؟

کیا یہ دھرنا جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اس نے حاصل کر لیا ہے یا کر لے گا؟

سب سے پہلے ہمیں گروہ (نفسیات کی اصطلاح میں )اور لیڈر کے سماجی سیاسی شعور کو بغور دیکھنا ہو گا۔ گروہ میں کچھ ایسا تنوع نہیں ہے بلکہ غالب تعداد مولانا فضل الرحمان صاحب کے پیروکاروں کی ہے۔ مولانا کا یہ کہنا ہے کہ قوم امڈ آئی ہے زمینی حقیقت سے کچھ دور کی بات ہے۔ رہنما مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت میں کوئی شک نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوے کی دہائی میں جو غلطیاں ان سے ہوئیں ان تمام غلطیوں سے پہلے مولانا نے ان کو متنبہ کیا تھا۔ مو لانا سیاسی حرکیات سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ ایک زیرک سیاستدان ٗ سیاست کے حوالے سے ذہنی طور پر کلئیر ہوتا ہے۔ حق حکمرانی سے لیکر سیاسی بندو بست کی باریکیوں تک ایسا سیاستدان کافی حد تک بلیک اینڈ وائیٹ ہوتا ہے۔ اسی سبب اس میں دور بینی کی صلاحیت پیدا ہوتی جس کی وجہ سے اس میں پیش گوئی کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے۔

لیکن دوسری طرف پیروکاروں میں غالب اکثریت کے فرشتوں کو اس سیاسی بصیرت کا علم نہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذہنی ترقی کے حوالے سے گروہ کے رہنما اور گروہ کے افراد میں اس قدر دوری کی وجہ کیا ہے؟ اگر ‘ذہنی ترقی ‘ گروہ اور اس کے رہنما میں مشترکہ خوبی نہیں ہے تو وہ کونسی بات ہے جس نے دونوں کو باندھ رکھا ہے؟ وہ کونسی کشش ہے جو افراد کو کھینچ کر اسلام آباد لے آئی ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ گروہ کا ذہنی ترقی یافتہ نہ ہونے کا سبب کیا رہنما خود نہیں ہے؟

ہم نے دنیا کی مختصر تاریخ میں یہی دیکھا ہے کہ لیڈر شپ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک لیڈر وہ ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ کیونکہ اس کا گروہ تعلیم یافتہ نہیں ہے اور تمام افراد کو شعور دینے کے لیے ادارے بنا نے پڑیں گے اورشب و روز کی محنت کے بعد شاید کافی عرصہ بعد ایسے لوگ تیار ہو سکیں جو کسی نظریےکے لیے رہنما کے پیچھے چل کر منزل کے حصول کے لیے روانہ ہو سکیں۔ دوسرا لیڈر وہ ہوتا ہے جس کو ایک گروہ مل جاتا ہے جس کو چلانے کے لیے خوف ، بھوک اچھے ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے رہنما کے نزدیک گروہ کو شعور و آگہی دینا اور خوف ٗبھوک کے پیچھے فلسفیانہ توجہیات سے روشناس کروانا ایک طویل عمل ہے جبکہ وقت مختصر ہے تو اسی گروہ کو استعمال کرتے ہوئے مقتدرہ کو ڈرا دھمکاکر بہتر مقاصد حاصل کر لیے جائیں۔

آسان الفاظ میں ۔۔ سولین بالادستی ایک بڑا اصول ہے اور گروہ کے افراد کو سولین بالادستی اور جمہوریت کا درست شعور دینا ایک اور اصول ہے تو کیونکہ ثانی الذکر کا حصول طویل وقت اور محنت چاہتا ہے جبکہ وقت مختصر ہونے سے سبب اس گروہ کو جس بنیاد پر بھی وہ پیرو کار بنا ہوا اس کو چلتے رہنا چاہیے اور اس اصول پر سمجھوتہ کرتے ہوئے بڑے اصول کی جانب کوشش جاری رکھی جائے۔ جب ایک دفعہ بڑا اصول حاصل ہو جائے گا تو دوسرے والا خود بخود حاصل ہو جائے گا۔

یہاں پر معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہو جاتا ہے ۔۔

کچھ اصول ہم انسانوں نے طویل جدو جہد اور قربانیوں کے بعد وضع کیے ہیں ۔ کسی بھی رہنما چاہے اس کا قد کتنا ہی بلند کیوں نہیں ہے ایسے اصول پر سمجھوتہ طویل المدت منفی نتائج دیتا ہے۔ اگر قائد اعظم جیسے رہنما بھی ‘الیکٹیبل سیاست’ کو بڑے مقصد کے حصول کے لیے ناگزیر برائی کے طور پر قبول کریں گے تو اگلی سات دہائیاں خطہ اس سمجھوتے کو ضرور بھگتے گا۔ اگر عمران خان طویل جدوجہد کے بعد 2011میں اصولوں پر سمجھوتہ کر کے مختصر وقت میں منزل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ مثبت نہیں نکل سکتا۔ انسانوں کی طویل جدوجہد کے بعد اجتماعی شعور نے جو فیصلہ کر دیا ہے اس پر سمجھوتہ ایسے ہی ہے جیسے کولہو کے بیل کی طرح چکر لگاتے رہنا۔ بڑے مقصد کے لیے ایسے اصولوں پر سمجھوتہ جن میں رہنما کی ذات یا پارٹی بحیثیت ذات ملوث ہو ، کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ کسی بڑی کامیابی کے حصول کے لیے وقتی طور پر یہ کہنا پڑےگا کہ جھوٹ سچ سے بہتر ہے ۔۔تو بڑی کامیابی پر سمجھوتہ کر لینا بہتر ہے۔

 اس لیے بہتر ہے کہ دونوں صورتوں میں ‘بڑی کامیابی’ پر سمجھوتہ کم نقصان دہ ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے پیروکاروں کو سول بالادستی اور اداروں میں طاقت کے حصول میں کشمکش کی سائنس سے اس طور واقفیت نہیں جس طور مولانا کو ہے، غالب اکثریت کا محرک مذہبی معاملہ ہے ۔ بادی النظر میں یہودیوں کی سازش کا توڑ کرنے نکلے ہیں۔سادہ دل پیروکار اس قدر معصوم ہیں کہ دیکھ کر دل پگھل جاتا ہے۔ لیکن مولانا کے مقاصد اور پیروکاروں کے مقاصد میں حد فاصل کسی واجبی عقل رکھنے والے کو بھی نظر آ رہی ہے۔ اس حد فاصل کے ذمہ دارمولانا ہیں یا نہیں؟

فرض کریں مولانا مذہبی کارڈ کو استعمال نہیں کرتے تو جدوجہدکیا شکل اختیار کرے گی؟ سب سے پہلے تو ان کو اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کو بحث کر کے اپنے ساتھ ملانا پڑے گا۔ برسوں کی محنت کے بعد شاید دس بارہ ہزار افراد کو اپنے نظریات کی بنیاد پر اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ان افراد میں آپ کو تنوع بھی دیکھنے کو ملے گا۔دس ہزار افراد کی سیاست سے آپ شاید ایک ایم پی اے کی سیٹ بھی حاصل نہ کر پائیں لیکن یہ دس ہزار بیج جو آپ نے بو دیے ہیں ان کو جزو ضربی ضرور لگے گا۔

ایسے کسی بھی گروہ کو جو نظریات میں رہنما سے جدا ہو تورہنماکسی محرک (مذہب بطورخوف)کو استعمال کرتے ہوئے وقتی اشتعال تو دلوا سکتا ہے لیکن جو بھی وہ حاصل وصول کرے گا وہ کبھی اس کمزور بنیاد پر دیر پا کھڑا نہیں رہے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر رہنما یہ سمجھتا ہے کہ جب تک وہ وزیر اعظم نہیں بن جائے گا اس وقت تک وہ ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔اصولوں پر سمجھوتے کر کہ سیاستدان جب وزیر اعظم بن بھی جائیں تو کچھ نہیں کر سکتے (ملک کے لیے)۔فرض کیجئے عمران خان 2011 سے پہلے والے اصولوں پر قائم رہتے تو اس کا زیادہ سے زیادہ نقصان یہ ہو سکتا تھا کہ وہ کبھی وزیر اعظم نہ بن پاتے۔ لیکن معاشرے میں سست تہذیبی سفر کو ایک بڑی جست میسر آ جاتی۔تہذیبوں کا سفر صدیاں لیتاہے۔ایک زیرک سیاستدان اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیوں کے خواب نہیں پالتا بلکہ ایسے سوچ کے بیج تہذیبی ذہن میں پھینک جاتا ہے جس کا نتیجہ آنے والی نسلیں حاصل کرتی ہیں۔ جلدی پنپنے والا سفیدہ زمین کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کسی بھی بڑےرہنماکی سب سے اہم خوبی ہم دلی اور دوسری قوت برداشت ہوتی ہے ۔یہ وہ قوت ہے جو سیاستدان کو متحرک رکھتی ہے حتی کہ زندگی داؤ پر لگانے میں بھی وہ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ہم دلی کے بغیر سیاستدان کے مقاصد کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن عوام کی فلاح نہیں ہو سکتی۔ عمران خان ، طاہر القادری ہوں یا مولانا فضل الرحمان اگر وہ دھرنے کے شرکاء کے ساتھ اپنے لائف سٹائل پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے تو باقی کیا دے سکتے ہیں۔ آپکو اسلام آباد کی شدید سردی یاد ہے جب طاہر القادری کے پیروکاروں میں خواتین اور بچے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے اور ان کے رہنما سامنے کنٹینر کے گرم ماحول میں استراحت فرما رہے ہوتے تھے۔ یہی حال عمران خان کا تھا اور اب یہی مولانا فضل الرحمان کا۔اسلام آباد میں سردی اور بارش کے ماحول میں کھلے آسمان کے نیچے پناہ گاہ ڈھونڈتے پیروکاوں پر پیار بھی آتا ہے اور غصہ بھی۔ پیار زیاد ہ آتا ہے کہ یہ معصوم ارواح ہیں۔

کیا ایسے دھرنے کے کسی سطح پر سیاسی و سماجی فوائد/نقصانات ہو سکتے ہیں؟

کیا یہ دھرنا جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اس نے حاصل کر لیا ہے یا کر لے گا؟

دھرنا ایک واقعہ ہے۔ ایسے واقعات اجتماعی شعور کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ضرور دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی دھرنے کے نتیجے میں سیاستدان اور ادارے تنگ آ کر مل بیٹھتے ہیں اور اسلام آباد میں آئے روز ہونے والے دھرنوں پر کچھ قانون سازی کی راہ ہموار کر لیتے ہیں ۔ ایسے دھرنوں کا نقصان البتہ کہیں زیادہ ہے۔ لفظ کی حرمت خطرے میں چلی جاتی ہے۔ عوام کا وعدوں اور اچھی باتوں سے اعتبار اٹھتا چلا جاتا ہے۔ آنے والے وقت کے کسی اہل اور مخلص لیڈر کے لیے یہ کلیشے استعمال کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ بگڑی معیشت کے بحال ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں لیکن رہنماؤں پر اعتماد اٹھ جانے کے نقصان کے اثرات سے نکلنے میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik