قصہ ایک گھاؤ کا


دوستو! ہم نا صرف دل سے مانتے ہیں بلکہ سر عام اس بات کا اعلان کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ نابغئہ روزگار ہیں ہم سمیت وہ تمام لوگ جنہیں ایک پھانس بھی چبھ جائے تو اردو کے تمام محاورے انہیں اپنی تمام تر معنویت اور سنگینی کے ساتھ یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے کہ ”دن میں تارے نظر آنا“، ”آنکھوں تلے اندھیرا چھا جانا“، ”آسمان ٹوٹ پڑنا“، ”ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جانا“، ”دانتوں تلے پسینہ آ جانا“ وغیرہ وغیرہ۔

اپنی صفائی میں ہم بس اتنا ہی کہیں گے کہ جو شخص اپنے درد کو اس شدت سے محسوس کرے گا وہی تو دوسروں کے درد کا درماں کرے گا۔ ہمیں اپنے دوستوں سے قطعاً کوئی شکوہ نہیں، وہ سب تو ہماری دردمند طبیعت کو دل سے مانتے ہیں، افسوس تو ہمیں اپنے بہن بھائیوں پر ہوتا ہے جو نا صرف ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں بزدل اور ڈرامہ باز قرار دے کر ہماری شدید دلآزاری کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، ہمیں کم ہمت سمجھنے والوں کی اس فہرست میں اپنی ہی بیوقوفی سے ہم نے اپنے سب سے بڑے ہمدرد، اپنے میاں صاحب کو بھی شامل کر لیا۔ یہ سب کیونکر ہوا؟ یہ حماقت آمیز قصہ ذرا تفصیل طلب ہے۔

اس دردناک واقعے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ صبح صبح کھانے کی تیاری کے دوران سبزی کاٹتے بے دھیانی میں ہمارا ہاتھ جو چوکا تو وہ ظالم ٹی وی اینکرز کی زبان سے زیادہ دھار دار چھری ہماری انگلی کاٹتی چلی گئی۔ ایک لمحے کو تو ہمیں لگا کہ شاید ہم نے اپنی انگلی ہی شہید کر دی۔ خون کے فوارے دیکھ کر ہماری وہی با محاورہ کیفیت ہوئی جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ہمارے تو قدم لڑکھڑا گئے۔ خون تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

سفید واشنگ بیسن میں ہاتھ دھوتے بھل بھل بہتے خون اور پانی سے زیادہ بہاؤ ہمارے آنسوؤں کا تھا۔ ڈر کا یہ عالم کہ زخم کو دیکھنے کی ہمت نا تاب۔ یہ تو ہمارا خدا جانتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بے ہوشی کی سرحدوں سے کیسے واپس لائے۔ ہماری گھریلو مددگار نے ہمیں سہارا دے کر بٹھایا۔ فرسٹ ایڈ باکس لا کر ہماری گھائل انگلی کی مرہم پٹی کی۔ درد کا یہ عالم کہ لگے کہ دل بھی اسی زخم میں زخمی ہو کر دھڑک رہا ہے۔ میاں جی کو آفس فون کر کے ہچکیوں کے درمیان حادثے کی تفصیل بتائی گئیں۔

وہ اس قدر پریشان ہوئے کہ فوراً گھر آنے کو تیار ہو گئے کہ اگر زخم گہرا ہے تو کہیں ہسپتال جا کر ٹانکے لگوانے کی ضرورت نا ہو۔ ٹانکوں کا خیال آتے ہی ہمارے رونے اور ہچکیوں کو بریک سا لگ گیا۔ بڑی مشکل سے ان کو اس ارادے سے باز رکھا اور کہا کہ خون اب رک گیا ہے شام تک دیکھتے ہیں اگر طبیعت نا سنبھلی تو بے شک ہسپتال چلے چلیں گے۔

شام کو میاں جی گھر آئے اور خیریت دریافت کی۔ ہمارے آنسو پھر رواں۔ انہوں نے بڑی تسلی دی۔ ہم بھی تھوڑا سنبھلے اور اس کے بعد جو حرکت کی اس کے بارے میں ہم اپنی تمام بہنوں سے گزارش کریں گے کہ سبق حاصل کریں اور بہت سوچ سمجھ کر ہمارے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ کریں۔

تو صاحب، ہوا یوں کہ ہم نے اپنے درد بھرے حادثے میں مزید حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ڈریسنگ کھول کر میاں جی کو زخم دکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب اگر ہمارے دل میں کوئی چور ہوتا تو کیا ہم یہ فیصلہ کرتے؟ ہر گز نہیں۔ یہ ہماری سچائی کی دلیل ہے۔ بہرحال، ان کے لاکھ نا نا کرنے کے باوجود ہم نے ڈریسنگ کھول دی۔ مگر یہ کیا! زخم کہاں گیا؟ ہم تو خود بھونچکے رہ گئے۔ صبح اتنا خون بہا تھا کہ ہمیں تو خون، گلوکوز سب چڑھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور وہاں شدید غور کرنے پر زخم کے نام پر صرف ایک ہلکی سی لکیر نظر آئی۔

میاں جی کی شکل دیکھی تو ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت دیکھ کر بے پناہ رونا آیا۔ ان کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ یقیناً ہماری کوئی نیکی کام آئی ہے یا کوئی معجزہ رونما ہوا ہے کہ اتنا گہرا زخم گھنٹوں میں غائب ہو گیا۔ انہوں نے ہماری بات پر ایمان لانے کی انتہائی بھونڈی ایکٹنگ کی جس نے ہمیں چوٹ سے زیادہ تکلیف دی اور رہی سہی کسر ایسے پوری کی کہ ہمارے بہن بھائیوں کو یہ قصہ نمک مرچ لگا کر سنایا گیا۔ ان بے درد لوگوں کی عزت افزائی بلکہ ہماری سابقہ چوٹوں کے متعلق ہرزہ سرائی کی تفصیل میں ہم ہر گز نہیں جائیں گے۔

اس دن ہم نے ایک مصمم عہد اپنے آپ سے کیا۔ بہادر بننے اور اپنی چوٹوں اور زخموں کا ہمت سے سامنا کرنے کا؟

جی نہیں! کسی کی بھی پروا نا کرنے کا۔ ہمارا درد، ہماری مرضی۔ ہم تو بھائی، دل کھول کر روئیں گے، گائیں گے اور شور بھی مچائیں گے۔ کر لو جو کچھ کرنا ہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ قدرت
Latest posts by ڈاکٹر عظمیٰ قدرت (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).