دو آفاقی کردار “جبرئیل و ابلیس” کا مکالمہ علامہ کی نظم


شخصیت پرستی کے پروردہ معاشروں میں پیروکار اپنی پسندیدہ شخصیات کو آفاقی تقدیس کا حامل سمجھنے کی عمومی غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر ایسی شخصیات کے علمی افکار کو سمجھنے اور پرکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ پیروکاروں کے یہاں ایسا کلام آسمانی صحیفہ کے مترادف قرار پاتا ہے۔ ایسے کلام پر توضیحی یا تنقیدی تجزیہ شجر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ افکار پر تنقید کو اکثر ناسمجھ، ذات پر تنقید سمجھتے ہوئے معرکہ حق و باطل برپا کردیتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے یہاں بہت سی شخصیات کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا ہے۔ سر علامہ محمد اقبال کی شخصیت کو ہمارے معاشرے میں آفاقی تقدس کا حامل سمجھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔

سر علامہ محمد اقبال کا شمار برصغیر پاک و ہند کی نمایاں شخصیات میں ہوتا ہے۔ علامہ کی پہچان میں نمایاں کردار آپ کی اردو، فارسی شاعری ہے۔ جہاں علامہ سے محبت رکھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ وہیں علامہ کے افکار سے اختلاف رائے رکھنے والے بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جو علامہ کے فکری تضاد کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں۔ کہیں علامہ صوفی ازم روحانیت، اور وحدت الوجود کے دلفریب قصوں کی تائید و نظریات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔

تو کہیں یورپ کا ہر قریہ مانند بہشت دکھاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں اشتراکیت سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ کہیں وحدانیت کے شیدا اور دوئی کے انکار پر بخوبی کھڑے نظر آتے ہیں۔ تو کہیں خدا سے الجھتے نظر آتے ہیں۔ ایک حلقہ علامہ کا تعارف بطور فلسفی پیش کرتا ہے۔ تو دوسرا حلقہ علامہ کا علم فلسفہ پر کیا گیا کام دیکھنے کا متقاضی ہے؟ کچھ علامہ کے کام کو دیگر زبانوں کے کلام کا ترجمہ و تلخیص بتاتے ہیں۔ علامہ کے خودی و شاہین کی تعبیرات کو فہم سے متصادم سمجھتے ہیں۔ تو کہیں فرومایہ اور ممولے کا شاہیں سے تقابل شعوری غلطی قرار دیتے ہیں۔ کوئی علامہ کے ہاں ابلیس کو بطور ہیرو پاتا ہے۔ کوئی زور بیاں کو ”دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے“، کو بد مست طاقت کا استعارہ بتاتا ہے۔ کسی کے ہاں علامہ کا کلام گزرے وقت کی داستاں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کچھ کے ہاں علامہ سیاسی حالات کی پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں۔

ماضی کے جو مذہبی حلقے علامہ کے کلام پر کفر کے فتوے صادر کرتے رہے آج انہی کے پیروکار علامہ کی شخصیت کو تقدس دلوانے کے در پہ ہیں۔ علامہ تو علم کی دنیا میں بدلتے حالات، معاشرت دیگر پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے، دائمی و آفاقی کتاب کے فہم اور رائج مذہبی فکر کا ازسر نو جائزہ لینے پر قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے انگریزی میں تحریر کردہ کتاب کا عنوان بھی ”دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام“ رکھا۔ جبکہ آج ہمارے یہاں کا ایک طبقہ علامہ کے فکری کام کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے کا قائل نہیں۔

بہر طور علامہ کثیر الجہتی شخصیت کے مالک تھے۔ نظم، غزل اور نثر کی صورت مواد سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ علم کی دنیا میں اختلاف و تنقید سے ہی تحقیق کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ پھر مثبت لکھنے والوں کو بھی علامہ کی تائید میں کہنے کو تحریک ملتی۔ زندہ علم اور زندہ قومیں اختلاف رائے پر ہی نئے راستے کھولنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

علامہ نے اپنی نظم ”جبرئیل و ابلیس“ میں دو آفاقی کرداروں کا جو مکالمہ پیش کیا بلا شبہہ علامہ کے کلام میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔

علامہ کی نظم ”جبریل و ابلیس“

جبریل​

ہم دمِ دیرینہ! کیسا ہے جہاں رنگ و بو؟ ​

ابلیس​

سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو​

جبریل​

ہر گھڑی افلاک پہ رہتی ہے تیری گفتگو​

کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو​

ابلیس​

آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے ​

کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو​

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں ​

کس قدر خاموش ہے یہ عالَمِ بے کاخ و کو​

جس کی نومیدی سے ہو سوز دروں ِ کائنات​

اس کے حق میں تَقنَطُوا اچھّا ہے یا لا تَقنَطُوا؟ ​

جبریل​

کھو دیے تو نے انکار سے مقاماتِ بلند​

چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو! ​

ابلیس​

ہے میری جُرات سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو​

میرے فتنے جامہِ عقل و خرد کا تار و پو​

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر​

کون طوفان کے تمانچے کھا رہا ہے، میں کہ تو؟ ​

خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا​

میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا جو بہ جو​

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے ​

قصہِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو! ​

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح​

تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو​


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).