ابوبکر البغدادی کی ہلاکت، داعش کا مستقبل اور امن کے امکانات


عالمی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ فی العراق والشام یا داعش کا سربراہ ابوبکرالبغدادی امریکی حملے میں مارا جاچکا ہے۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق چھبیس اکتوبر ہفتے کی رات امریکی سپیشل فورسز کے ایک یونٹ نے شام کے علاقے ادلب میں البغدادیکے کمپاونڈ پر حملہ کیا تو اس نے اپنی خودکش جیکٹ کو دھماکے سے اڑا کر خود کو ہلاک کرلیا۔ اطلاعات کے مطابق البغدادی کیخودکش جیکٹ پھٹنے سے اس کے قریب موجود تین بچے بھی مارے گئے تھے۔

داعش کے خلاف اگست دوہزار چودہ میں شروع ہونے والے بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کے مشترکہ ٓاپریشن کے نتیجے میں نامنہاد خلافت کے خاتمے کے بعد اب اس دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی ہلاکت کو مشرق وسطی اور عالمی امن کے لیے ایک اہمسنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے البغدادی کی ہلاکت کے بعد کیدنیا کو زیادہ محفوظ قرار دیا ہے۔ لیکن کیا سربراہ کی ہلاکت داعش کے لیے بھی موت کا پیغام ثابت ہوگی۔

کیا صرف یہ ایک واقعہ دہائیوں سے جنگ زدہ اس خطے میں امن کے پھول کھلا دیے گا۔ یا توقعات کے برعکس مستقبل میں داعش اپنا شیطانی سر پھر سے اٹھا لے گی۔ یہ سب جاننے کے لیے ہمیں داعش کی مختصر لیکن خونی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔ داعش کا باقاعدہ قیام تو اپریل دو ہزار تیرہ میں عمل میں آیا تاہم امریکی محقق اور دہشت گردی پر متعدد کتابوں کی مصنف جیسیکا سٹرنکے مطابق عراق پر امریکی حملے اور اردنی نژاد انتہا پسند ابو مصعب الزرقاوی کے عزائم نے دوہزار تین میں ہی اس خوفناک تنظیمکی بنیاد رکھ دی تھی۔

دوہزار تین میں عراق پر حملے، صدام حسین کی بعث پارٹی کے اراکین کو سرکاری ملازمتوں سے نکالنے اور عراقیافواج کو تحلیل کرنے کے امریکی اقدامات نے عراق کے ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسیکا سٹرن داعش پر اپنی کتاب ”دی سٹیٹ آف ٹیرر“ میں لکھتی ہیں کہ ابو مصعب الزرقاوی نے قابض غیرملکی افواج کو شکست دینے اور عراق میں ایک سخت گیرسنی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے امریکی فوجیوں، بین الاقوامی امدادی کارکنوں اور مقامی شیعہ آبادی کے خلاف دہشت گردیکی خوفناک کارروائیاں کیں۔

اس سلسلے میں اسے عراق کے سنی قبائل کی بھی حمایت حاصل تھی۔ دوہزار چار میں الزرقاوی کی عسکری تنظیم جماعت التوحید والجہاد القاعدہ کے ساتھ اتحاد کے بعد پہلے القاعدہ فی العراق میں تبدیل ہوئی اور پھر دوہزار چھ میں اس کی ہلاکت کے بعد پانچ دوسرے سنی انتہا پسند گروپوں کے انضمام سے دولت اسلامیہ فی العراق (اسلامک سٹیٹ ٓاف عراق) میں بدل گئی۔ ابوبکر البغدادی دوہزار دس میں دولت اسلامیہ فی العراق کا سربراہ مقرر ہوا۔

اس نے شیعہ مخالف سنی قبائل کے علاوہ امریکیحملے کے بعد ملازمت سے فارغ ہونے والے عراقی فوجیوں اور بعث پارٹی کے عہدیداروں سے بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنایا اورفرقہ وارانہ جنون، سابق عراقی فوجیوں کی جنگی مہارت اور بعث پارٹی کے اراکین کی انتظامی صلاحیتوں کو یکجا کرکے دولت اسلامیہفی العراق کو ایک انتہا پسند عسکری گروہ سے خطے کی مضبوط جنگی قوت میں بدل دیا۔ البغدادی نے شام میں جاری خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بھی اپنے اثرورسوخ کو بڑھایا اور دوہزار تیرہ میں دولت اسلامیہ فی العراق والشام یعنی داعش کے باقاعدہ قیامکا اعلان کردیا۔

اگلے ہی سال جون دوہزار چودہ میں البغدادی نے عراق اور شام کے اٹھاسی ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر اسلامیخلافت کے قیام کا اعلان کرکے اپنے نظریاتی قائد ابو مصعب الزرقاوی کے مشن کی تکمیل کردی۔ معروف برطانوی صحافی اور دہشت گردی کے موضوع پر بہت سی کتابوں کے مصنف جیسن برک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ملٹری آپریشن کے ذریعے مشرق وسطی میں سخت گیر عالمی اسلامی ریاست کے منصوبے کو توشکست دے دی گئی ہے تاہم اس منصوبے کے پیچھے عمل پیرا تنظیم کو ابھی تک ہرایا نہیں جا سکا ہے۔

اسی طرح امریکی تھنک ٹینک بروکنگز سے وابستہ سینئر فیلو ڈینئیل بائے منکے مطابق ابھی صرف داعش کی قائم کردہ نام نہاد ”خلافت“ کا خاتمہ ہوا ہے جبکہ دہشت گرد تنظیم کے طور پر دولتِ اسلامیہ فیعراق والشام یا داعش ابھی بھی زندہ اور سرگرم ہے۔ بائے من کا نکتہ نظر بہت چونکا دینے والا ہے۔ بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے لیے لکھے گئے آرٹیکل ”داعش کے زیر زمین جانے کے بعد کیاہوگا“ میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ”شکست اور نامساعد حالات داعش کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہیں“۔

مضمون نگار کے مطابق داعش نے جس تنظیم یعنی القاعدہ فی العراق سے جنم لیا وہ خود بھی کئی سال شکست اور تباہی کے دہانے پر رہی مگر اسنے مقامی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے خطے میں اپنے وجود کو برقرار رکھا۔ بائے من کے مطابق داعش اپنیپیشرو جماعتوں القاعدہ فی العراق اور دولت اسلامیہ فی العراق کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے فرقہ وارانہ تصادم، سیاسی عمل کوپٹری سے اتارنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر پھر سے مضبوط ہو سکتی ہے۔

اپنے زیر قبضہ علاقوں سے بیدخل ہونے اور نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد اب داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی امریکی حملے میں ہلاکت یقینا اس گروہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ جبکہ عراقی بینکوں میں پڑی دولت، عجائب گھروں میں رکھے بیش قیمت نوادرات اور تیل کے کنووں کا کنٹرول چھن جانے سے یہ تنظیم پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ تمام حقائق بلاشبہ اس بھیانک تنظیم کے یقینی زوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ترکی اور ایس ڈی ایف (شامی ڈیموکریٹکفورسز ) نامی تنظیم کے درمیان تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ داعش کو دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہمکرسکتا ہے۔

کرد تنظیم ”ایس ڈی ایف“ داعشکے خلاف آپریشن میں امریکہ کی اتحادی تھی جبکہ ترکی اس تنظیم کو اس کی کردشناخت اور کرد علیحدگی پسندوں سے ممکنہ تعلق کے باعث اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ شام سے امریکی فوجوں کے فوری انخلا اور ایس ڈی ایف کو تنہا چھوڑنے کی پالیسی سے کردوں کی داعش کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت متاثر ہوگی جس کافائدہ داعش کو ہی پہنچے گا۔ دوسری طرف اگر اقوام متحدہ کی اس سال فروری میں شائع ہونے والی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو داعش سے وابستہ چودہ سے اٹھارہ ہزار جنگجووں کا عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں ابھی تک موجود ہونا کسی بھی خطرے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

اسخدشے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں داعش نے اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے خطے میں غیر ملکی افواج کیموجودگی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تناو، انتہا پسندی، جہالت اور غربت کو بھی اپنے حق میں استعمال کیا۔ خطے میں ٓازادانہ سیاسیعمل، جمہوری اقدار کے فقدان اور عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھنے کی روش نے بھی داعش کو اپنے ایجنڈئے کے فروغ میں مدد دی۔ دیکھا جائے تو مشرق وسطی کے بیشتر ممالک میں یہ تمام عوامل اب بھی اسی طرح سے موجود ہیں۔

شام ابھی بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ عراق میں جمہوری عمل اور ریاستی ادارے ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکے۔ شام کے سرحدی علاقے میں موجودکردوں پر ترکی کے حملوں سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر سعودی عرب اور یمن کے حوثی قبائل کے درمیان کشیدگی اپنیانتہاوں کو چھو رہی ہے۔ چند ہفتوں قبل ہی سعودی عرب کی آیل ریفائینری پر ڈرون حملے ہوئے جن کا الزام ایران پر لگایا جا رہا ہے۔ خوفناک عداوت، جنون اور جہالت سے عبارت اس ماحول میں ایک ابوبکرالبغدادی کی ہلاکت مواخذے کی تلوار کے نیچے بیٹھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے تو سود مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن اسے کسی لحاظ سے بھی مشرق وسطی میں امن کا پیامبر نہیں کہاجاسکتا۔ مشرق وسطی میں بادشاہوں اور آمروں کی آہنی گرفت میں سسکتے معاشروں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے فوری اور سنجیدہکوششیں نہ ہو سکیں تو البغدادی کے بعد مقرر ہونے والا داعش کا کوئی بھی نیا سربراہ روپوش جنگجووں کو اکٹھا کرکے پھر سے پرتشددکارروائیوں کا آغاز کرسکتا ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa