فیض اور شیخ ایاز کے مقابلے کا پختون رحمت شاہ سائل


بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گرفتار چند افراد کو مارشل لا حکومت کی قائم کردہ فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو فوجی عدالت کے سربراہ جو ایک نوجوان کرنل تھے کی نگاہ سب سے آخر میں کھڑے چھوٹے سے قد کے نوجوان پر پڑی، پتہ نہیں اُردو بولنے والے کرنل کے دل میں کیا آیا کہ اس پختون نوجوان کو آگے آنے کا اشارہ کیا اور مہذب اور میٹھے لہجے میں پوچھا کہ کیا کام کرتے ہو؟ نوجوان نے جواب دیا کہ سیاست، شاعری اور مزدوری۔

فوجی عدالت کے سربراہ کے چہرے پر ایک مہربان شفقت بھری مسکراہٹ پھیل گئی اور پوچھا یہ کام کس لئے کرتے ہو۔ نوجوان نے اسی روانی سے جواب دیا کہ اس لئے کرتا ہوں کہ سیاست میرا آئینی، جمہوری اور بنیادی حق ہے، شاعری اس لئے کرتا ہوں کہ یہ قدرت کی طرف سے ایک نعمت کے طورپر مجھے دی گئی ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کے دکھ اور مسائل اُجاگر کرنا مجھ پر فرض ہے جبکہ مزدوری اس لئے کرتا ہوں کہ اپنے خاندان اور خود کو بھوک سے بچا سکوں۔

چند دنوں بعد اس مشہور مقدمے جسے ملاکنڈ سازش کیس کا نام دیا گیا تھا کا فیصلہ آیا تو خلاف توقع تمام ملزمان بری کر دیے گئے۔ وہ نوجوان شاعر اب بڑھاپے کی دھلیز پر کھڑا ہے لیکن اب بھی اس ”منصف“ کو یاد کرتا ہے جس نے انصاف کی خاطر فکری مخالفت کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ وہ شاعر بعد میں پختون تاریخ کے چند انتہائی مقبول شاعروں میں سے ایک بنا اور دُنیا نے اسے رحمت شاہ سائل کے نام سے جانا۔ احمد فراز کے مانند نوجوان نسل پر اس کی دلآویز شاعری کے اثرات اور مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے لکھاری اور دانشور قلندر مومند مرحوم نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ رحمت شاہ سائل وہ واحد شاعر ہے جسے باقاعدہ ایک سٹریٹ پاور میّسر ہے (نوجوان طبقے میں اس کی مقبولیت کی طرف اشارہ تھا) لیکن اس مقبولیت کے باوجود بھی اس نے حیرت انگیز طور پر اپنی شاعری کا معیار کہیں بھی گرنے نہیں دیا بلکہ اسے مسلسل ارتقائی عمل ہی سے گزارتے رہے۔

راشہ ٹیکسلا تہ د کنڈرو ژبہ زدہ کہ

سوات او چین بہ ٹول لکہ بامیان درتہ خکارہ شی

ترجمہ :

کبھی ٹیکسلا کے کھنڈرات کی زبان تو سیکھ لے، سوات اور چین بھی بامیان کے مانند دکھائی دیں گے۔

یہی وہ گہرا مشاہدہ اور وسیع مطالعہ ہے جس نے رسمی تعلیم سے محروم رحمت شاہ سائل کو شاعروں کی اس صف میں کھڑا کیا ہے جہاں اُردو نے فیض اور سندھی زبان نے شیخ آیاز کا انتخاب کیا لیکن یہاں رحمت شاہ سائل کو ایک فطری برتری اس لئے حاصل ہے کہ مذکورہ دونوں شاعر اپنی آسودہ پس منظر کی بدولت اعلٰی تعلیمی اداروں سے منصبوں تک رسائی رکھتے رہے جبکہ رحمت شاہ سائل ایک غریب بیوہ کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ ساری عمر ایک دیہاتی علاقے کی چھوٹی سی دکان میں سارا سارا دن ایک سلائی مشین پر جھکے اس سے اپنے بچوں کا رزق نکالتا رہا لیکن کمال یہ ہے کہ ان حالات میں وہ شاعری بھی کر گیا اور شاعری بھی کس غضب کی۔

زہ خو بہ دے سترگو تہ ہم زدہ کڑمہ پختو ژبہ

تہ بہ پرے وڑومبے ٹکے ثہ وائے ما تہ اُو وایہ

ترجمہ:

چلو میں تو تمھاری آنکھوں کو پشتو سکھا دوں گا لیکن یہ تو بتانا کہ تم اس زبان سے پہلا لفظ کیا بولو گے

رحمت شاہ سائل کی شاعری رومان اور انقلاب کے دو پاٹوں کے درمیان ہمیشہ بہتی رہی اور اس ”دریا“ کا منبع وہ گلیشئیر تھے جو عوامی جذبوں اور احساسات کے ساتھ ساتھ مسائل اور ضرورتوں سے پھوٹتے رہے۔

ان حالات سے جن جذبات اور احساسات نے جنم لیا وہ سائل کو و ہاں لے کر گیا جہاں سے غم جاناں سے غم دوراں کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔

دخوبولو سترگو غیگے دے منم خو اشنا

چالہ بہ ورشی پہ شڑنگا د زنزیرونو کے خوب

ترجمہ:

تمھاری خوابناک آنکھوں سے انکار کس کو ہے لیکن زنجیروں کی اس جھنکار میں نیند کس کو آئے گی۔

جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ رحمت شاہ سائل کا ذاتی تعلق محروم اور پسے ہوئے طبقے سے ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس کا شعور اسے وہاں لے گیا جہاں سے بائیں بازو کا سرچشمہ پھوٹتا تھا لیکن انقلاب کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری ایک گہری رومانیت اور تہذیبی رچاؤ کی حامل ہے جو روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج لئے ہوئے ہے۔

سالہا سال پر محیط ذاتی تعلق نے مجھے رحمت شاہ سائل کی شخصیت کو بھی سمجھنے میں بہت مدد دی اور میری یہ رائے بنتی گئی کہ باوجود ایک انتہائی مقبول شاعر کے وہ اپنی شاعری کو ”کیش“ کرانے میں حد رجہ ناکام رہے کیونکہ وہ ایک شاعر ہے اور شاعر ہی رہے دکاندار نہ بن سکے ورنہ مالی حوالے سے تو کم از کم ان کے دن پھر جاتے۔

کچھ دن پہلے میں نے نئی تخلیقات کے حوالے سے پوچھا تو بتایا کہ تین کتابوں کے مسودے پڑے ہیں لیکن پرانی کتابیں بک جائیں اور کچھ پیسے ہاتھ آئیں تو اشاعت کے لئے نئے مسودے دے دوں گا۔

عظیم فلسفی شاعر اور مصّور غنی خان نے اپنے انگریزی کتاب ”دی پٹھان“ میں لکھا ہے کہ پختون موسیقی سے پیار کرتے ہیں لیکن موسیقی بجانے والے (موسیقار) سے نفرت کرتے ہیں۔

پتہ نہیں غنی خان نے اپنی رائے صرف موسیقی اور موسیقار تک ہی کیوں محدود رکھی ورنہ اس سے زیادہ انتہا پسند روّیہ تو ہمارا ہر فن خصوصًا شاعری اور شاعر کے حوالے سے ہی ہے۔ ورنہ فیض اور شیخ ایاز کے مقابلے کا یہ بے بدل ترقی پسند پشتو شاعر ایسی زندگی گزارتا جو وہ گزار رہا ہے لیکن ہم نے خوشحال خان خٹک کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا تھا جو رحمت شاہ سائل کے ساتھ کر لیتے۔

پتہ نہیں ہمارے جینز میں کیا خرابی ہے کہ ہمیشہ ہمارے ہیروز بڑے فنکار اور آزادی کے جنگجو نہیں ہوتے بلکہ قاتل اور ڈاکو ہی ہوتے ہیں۔ کسی کو شک ہے تو ہماری کہانیوں، ڈراموں اور فلموں کا ریکارڈ ہی چیک کر لیں۔ وہاں خوشحال خان خٹک سے رحمت شاہ سائل تک اور پیر روخان سے با چا خان تک ایک بھی دکھائی نہیں دے گا لیکن اپنے اپنے وقت کا ہر ڈاکو لٹیرا اور مسخرا چھایا ہوا ہے۔

لیکن اس احمقانہ سوال سے ہم پھر بھی باز نہیں آتے کہ آخر ہماری تباہی کا سبب کیا ہے؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).