بے رحم سیاست اور پاکستان


ایک طرف جہاں معاشرے سے جڑے افراد ملکی سیاست سے بیزار ’لاتعلق اور بد ظن نظر آتے ہیں وہیں اس صورتحال کے پیش نظر عوام کی اکثریت اس بات پر بھی متفق ہے کہ اس روایتی سیاسی جمود کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ملک کے ماضی کی سیاسی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو تبدیلی کی جدوجہد گذشتہ سات دہائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہے لیکن مخلص قیادت کے فقدان اور سیاستدانوں کے روایتی طرز عمل کے باعث عوام تک تبدیلی کے ثمرات نہیں پہنچ سکے۔

المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے غلام سیاستدان ایسی سیاست کو ہی اپنے لئے موزوں سمجھتے ہیں جس کے ذریعے مفادات کا تحفظ اور اقتدار کا حصول ممکن ہو سکے۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کی تاریخ شاہد ہے تبدیلی عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کر کے اسے انسانی بنیادی ضرورتوں سے آراستہ کرنے کا نام ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں ابن الوقت سیاستدان تبدیلی کو کبھی جمہوری لبادے میں ’کبھی ووٹ کے ذریعے‘ کبھی احتجاج تو کبھی دھرنا سیاست میں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے بعد دنیا تبدیلی کی جانب گامزن ہو چکی تھی لیکن پاکستان اپنی آزادی کی بہتر بہاریں گزارنے اور اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود آج بھی ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کی صف میں جگہ نہیں بنا سکا۔ ہمسایہ ملک ایران کو دیکھ لیں امام خمینی کی انقلابی جدوجہد کے ثمرات آج بھی اس کے نام کے ساتھ امر ہیں امام خمینی نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ عوام کو ایک بہتر نظام بھی دیا جس کے باعث عوام کا معیار زندگی بلند ہوا۔

پاکستان کی جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کے پاس موجودہ سیاسی نظام کے برعکس کوئی رول ماڈل موجود نہیں جس کی بنیاد پر عوام جمہوری لوازمات سے آراستہ ہو کر اپنا معیار زندگی بلند کر سکیں اس کے باوجود ان سیاسی جماعتوں کے قائدین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہماری ایک کال پر عوام اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر امڈ آئیں جب تک یہ سیاستدان اس بات کا اعادہ نہیں کر لیتے کہ عوام کو ڈلیور کرنا ہے اس وقت تک عوام ان کے وعدوں ’اعلانات اور نعروں پر یقین نہیں کرے گی۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ ایسے ہی سیاست دانوں کے فریبی نعروں ’اعلانات‘ دعوؤں اور وعدوں سے مزین ہے کبھی جمہوریت کی ارتقاء ’کبھی ضیاء کے باقیات کے خاتمے‘ کبھی عورت کی حکمرانی ’کبھی پیپلز پارٹی کی فساطیت‘ کبھی زرداری کی کرپشن ’کبھی یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘ کبھی مہنگے پراجیکٹس ’کبھی معاشی پالیسیاں‘ کبھی پاناما ’کبھی غیر جمہوری سازشوں کا روناجب ایسے نان ایشو نعروں کی بنیاد پر الیکشن میں اترا جائے گا تو عوام بخوبی اخذ کر سکتی ہے کہ یہ ملکی نالائق اور نا اہل سیاستدان کس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔

جہاں سیاستدان اپنی نسل نو کے مستقبل سے لا تعلق ہو جائیں اور صرف اپنے گھر کو محفوظ تصور کرتے ہوئے دوسرے کے گھر کی فکر چھوڑ دیں وہاں تبدیلی نہیں آیا کرتی جہاں روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت جیسی سہولیات صرف اشرافیہ کے در کا طواف کرنا شروع کر دیں یاد رکھیں وہ معاشرے پھر شام‘ عراق اور لبنان بن جاتے ہیں۔ ذرا تیونس کے انقلاب کو دیکھ لیں ملکہ تیونس کے بیش بہا اخراجات ’اقرباء پروری‘ کرپشن ’مہنگائی‘ بیروزگاری اور بہت سے عوامل نے عوام کو اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا تھا وہ حکمران جو تئیس سال سے عوام پر حکمرانی کر رہے تھے عوام کے بے کراں سمندر کے آگے ان کا اقتدار تئیس دن بھی قدم نہ جما سکا اور اس انقلابی لہر نے مصر ’یمن‘ الجزائر ’اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا۔

بد قسمتی سے پاکستان میں آج سے قبل جتنے بھی حکمران رہے انہوں نے ہمیشہ ملکی وسائل اور قومی خزانے کو پرایا مال سمجھ کر ہضم کرنے کی کوشش کی جس کا خمیازہ آج وہ میگا کرپشنز کیسز کی صورت میں بھگت رہے ہیں آج اگر ملک کے عوام کو ڈلیور کیا ہوتا تو یہ سلاخوں اور ہسپتالوں کی بجائے عوام کے کندھوں پر سوار ہوتے ملک کے معاشی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں ماضی کے حکمرانوں نے کلیدی کردار ادا کیا حکومت مشکل ترین حالات میں بھی ملکی معشیت کو استحکام دینے کے لئے سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہے جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔

برآمدات میں اضافہ ’درآمدات میں کمی کے اقدامات‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں کمی ’کے ساتھ ساتھ عالمی ریٹنگ کے ادارے ایس این پی کی رپورٹ اس حوالے سے بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی معشیت مستحکم ہونا شروع ہو چکی ہے جس سے یقیننا مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں کمی واقع ہو گی۔ عالمی بنک کی ریز آف ڈوئنگ بزنس رپورٹ 2020 ء میں پاکستان اصلاحات کرنے والے 108 ویں نمبر پر آکر ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے اصلاحات میں اٹھائیس درجے بہتری کے ساتھ پاکستان نے چین‘ بھارت اور کویت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف میں حکومتی ٹیم کی جانب سے پاکستان کا کیس بہتر انداز میں پیش کرنے سے ملک بلیک لسٹ ہونے کے خطرات سے باہر آچکا ہے۔ موجودہ حکومت ملک کو معاشی استحکام کی پٹڑی پر لانے کے لئے جہاں کوشش جاری رکھے ہوئے ہے وہیں ملک دشمن قوتیں ایک بار پھر پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر کے اس کی معشیت کے درپے ہو چکی ہیں ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر نازک ترین دور سے گزر رہا ہے بھارت کشمیر میں مظالم ڈھاتے ہوئے وہاں کرفیو نافذ کیے ہوئے ہے ایل او سی پر حالات کشیدہ ہیں سی پیک کا منصوبہ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے وہیں مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے ہزاروں شرکاء کو لئے اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال چکے ہیں اور دن بدن سیاسی حالات کی حدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حکومت کو ایسے ہاتھ تلاش کرنے کی اشد ضروت ہے جو مولانا کے مارچ پر سرمایہ کاری کر کے اس ملک کے استحکام کو سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں سول اور عسکری قیادت یہ تو طے کر چکی ہے کہ کسی بھی صورت ملکی استحکام اور جمہوریت کو ری ڈیل نہیں ہونے دیا جائے گا اور ایسے موقع پر ملک دشمن قوتوں کو سول و عسکری قیادت کی جانب سے بڑا واضح پیغام مل چکا ہے جس سے یقیننا دشمن اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہوں گے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاستدانوں کا پاک فوج پر الزام تراشی کرنا افسوسناک اور ملکی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہے افواج پاکستان کا کردار دہشت گردی کے خاتمے ’ملکی استحکام‘ ملکی بقاء اور خودمختاری کے لئے بہت اہم ہے ملکی سیاستدانوں کو پاک فوج کے بارے اپنے طرز گفتگو اور طرز عمل پر غور کرنا چاہیے اب یہ ملک مزید کسی بھی بحران اور مسائل کا متحمل نہیں ہو سکتا ملک میں کسی بھی تبدیلی کے لئے عوامی نمائندوں کو ایسی بے رحم سیاست سے گریز کرنا چاہیے جس کی حدت سے اپنا ہی آشیانہ جلنے کا خطرہ ہو۔

مولانا کے اس بے وقت مارچ سے حکمت کے ساتھ نمٹنا ضروری ہے پاکستان میں عسکری تنظیموں کی فنڈنگ میں بھارت ملوث ہے جس کے ٹھوس ثبوت ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں ایسی ملک دشمن قوتوں کی جانب سے آنے والی مالی کمک کے سوراخوں کو بند کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ایسے آزادی مارچ کی شکل میں ایسے بے وقت احتجاج اور دھرنے جنم نہ لیں جو ملکی سیاسی استحکام اور معشیت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).