خدارا ویاگرا کو معاف کر دیجئے


بعض موضوعات پر لکھنا مشکل تو نہیں ہوتا بلکہ ہمیں چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ناممکن سا لگتا ہے۔ خاکسار اس موضوع پر لکھنے کا کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا لیکن کچھ مشکلات آڑے آ رہی تھیں۔ لہٰذا ایک قریبی دوست فارماسسٹ اور ایک کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جاوید سبزواری نے یہ کالم لکھنے پر مجھے امادہ کیا اور بہت رہنمائی کی۔ پاکستان میں بالخصوص مرد حضرات میں پیناڈول کے بعد اگر کسی دوا نے شہرت پائی تو وہ ویاگرا ہے۔ مشہور زمانہ دوا ویاگرا میں ایک سالٹ sildenifil ہے جو کہ 1989 میں اس وقت ایجاد ہوا جب امریکی ڈاکٹرز دل کی بیماریوں اور ان کے علاج پر ریسرچ میں مصروف تھے۔

لیکن 1989 میں اسے مارکیٹ نہ کیا گیا بلکہ کافی سال اس پر مزید ریسرچ کی گئی۔ ریسرچ کے دوران دل کی بعض بیماریوں میں ویاگرا میں موجود سالٹ Sildenifil نے حیرت انگیز مثبت نتائج دیے جو پہلے کسی دوا نے نہیں دیے تھے۔ Sildenifil پلمونری ہائپر ٹینشن یعنی پھیپھڑوں کی نالیوں کے بلڈ پریشر کی آج بھی بہترین دوا ہے۔ اس دوا کا ایک یہ کمال بھی ہے کہ خون کی نالیوں کو پھیلاتی ہے اور خون کا بہاؤ اعضائے مخصوصہ کی طرف کر دیتی ہے۔

لہٰذا اس دوا کا استعمال جنسی کمزوری کے لئے بھی ہوتا ہے۔ ایک مشہور ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی نے یہ سالٹ ویاگرا کے نام سے مارکیٹ کیا۔ 1998 میں دنیا میں ڈرگز کو کنٹرول کرنے والے سب سے بڑے ادارے ایف ڈی اے نے ویاگرا کو جنسی کمزوری کے لئے فروخت کی باقاعدہ اجازت دے دی اور یہ دوا مارکیٹ میں آئی۔ ویاگرا کے استعمال سے پاکستان اور دیگر ممالک میں کچھ مریضوں میں دل کی بیماریاں دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے پاکستان میں اس دوا پر فوراً پابندی عائد کر دی گئی۔

اس کے تجویز کردہ مقدار سے زیادہ خوراک میں استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے ڈاکٹرز نے اس کی تجویز میں کچھ عرصہ احتیاط برتنا شروع کر دی۔ بعد ازاں امریکہ میں اس پر مزید ریسرچ ہوئی اور اس دوا کے استعمال کو ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق مخصوص خوراک میں رہتے ہوئے مکمل محفوظ قرار دے دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے اس دوا پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی جو کہ تاحال قائم ہے جبکہ اس کے برعکس پوری دنیا میں یہ دوا بدستور فروخت ہو رہی ہے۔ سال 2017 میں صرف امریکہ کے اندر بیس لاکھ ڈاکٹری نسخوں میں ویاگرا تجویز گئی۔ برطانیہ کے اندر یہ دوا آج بھی ڈاکٹری نسخے کے بغیر فروخت ہو رہی ہے۔

ویاگرا Phosphodiesterase 5 Inhibitors گروپ سے تعلق رکھتی ہے جن پر پاکستان میں مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔ معلوم نہیں کہ اس گروپ سے تعلق رکھنے والی ادویات کی تیاری میں ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو اس گروپ سے تعلق رکھنے والی ادویات Sildenafil ، Tadalafil اور اسی طرح کی دوسری ادویات کی تیاری میں مانع ہے۔ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جاوید سبزواری کے ساتھ اس سلسلے میں وضاحت سے بات ہوئی۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ یہ دوائیں امریکہ، یورپ، آسٹریلیا حتی کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت تک میں تیار ہورہی ہیں، ان دواؤں کا ایک بہت اہم استعمال ان مریضوں میں کیا جاتا ہے جن کے پھیپھڑوں کی نالیوں کا دباؤ قدرتی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات نوزائیدہ بچوں کو بھی یہ دوائی استعمال کروانا پڑتی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ دوا ان بچوں میں انجیکشن کے ذریعے دی جاتی ہے تاکہ ان کے پھیپھڑوں کی نالیوں کا دباؤ نارمل سطح پر رکھا جاسکے۔

دل کے وہ مریض جن کے دل کے پٹھے بہت کمزور ہوجاتے ہیں، جب ان میں یہ دوا استعمال کروائی گئی تو کچھ مریضوں میں اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ اب دل کے پٹھوں کی کمزوری کی بیماری میں بھی ڈاکٹر بعض مریضوں میں اس دوا کا استعمال کروا رہے ہیں۔ اس کا استعمال ان مرد حضرات میں بھی تجویز کیا جاتا ہے جو حقوق زوجیت ادا کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں اس کے نتائج بہت بہترین دیکھے گئے ہیں۔ بعض متمول گھرانوں کے مرد حضرات یا وہ لوگ جن کے رشتے دار باہر کے ممالک میں قیام پذیر ہیں، ان ممالک سے ویاگرا یا دوسری ادویات ڈاکٹری نسخے پر منگوا لیتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ سمگل شدہ، زائدالمعیاد یا جعلی دواؤں کو مختلف کیمسٹس سے زیادہ قیمت پر خرید کر اپنی صحت اور زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیں کیونکہ وہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر یہ دوا خریدتے ہیں لہٰذا مقدار خوراک اور دوا کے استعمال کے متعلق آگاہی نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے دل کی بیماریوں سمیت بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب میری اس کی بابت طبیہ کالج کے ایک پروفیسر حکیم صاحب سے بات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بیشتر نیم حکیم حضرات جنسی کمزوری کی ہربل ادویات کے ساتھ ویاگرا یا اس سے ملتی جلتی کسی دوسرے برانڈ کی دوا بھی پیس کر دیتے ہیں اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی ہی خوراک گویا جادو اثر کرتی ہے اور حکیم صاحب کی واہ واہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ویاگرا کے جڑی بوٹیوں کے ساتھ ملا کر استعمال سے مقدار خوراک کا کوئی حساب ہی نہیں رہتا اور دوسرا یہ کہ ایک دوا کے دوسری مخالف دوا کے ساتھ استعمال سے بعض دفعہ شدید نقصان دیکھنے میں آیا ہے جس سے جسم کا کوئی اہم حصہ بھی ناکارہ ہو سکتا ہے۔

ویاگرا نہ تو کوئی زہر ہے اور نہ ہی یہ اتنی خطرناک دوا ہے کہ اس کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ اگر ویاگرا کو کارڈیالوجسٹ یا کنسلٹنٹ فزیشن کی ہدایات کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہ مکمل طور پر محفوظ دوا ہے۔ کیونکہ اگر یہ اتنی ہی خطرناک ہوتی تو دنیا میں ڈرگز کو کنٹرول کرنے والے سب سے بڑے ادارے ایف ڈی اے نے اس پر فوری طور پر پابندی عائد کر دینی تھی اور دوبارہ کبھی فروخت کی اجازت نہیں دینی تھی۔ بہت سی ادویات پر پابندی عائد کی بھی ہے۔

معدے کی ایک دوا Rhinitidine اس کی حالیہ مثال ہے۔ البتہ ویاگرا آج بھی امریکہ اور یورپ میں دھڑادھڑ فروخت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ویاگرا پر پابندی کی اگر کوئی وجوہات بھی ہیں تو ان پر سوچا جا سکتا ہے اور حکمت عملی کے تحت ان کو دور بھی کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں اس کے لئے ڈاکٹرز اور فارماسسٹس پر مشتمل محکمہ صحت کے اعلی حکام کی ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو ہنگامی بنیادوں پر اس بات کا جائزہ لے کہ پاکستان میں ان دواؤں کی تیاری اور فروخت ہر پابندی کیوں عائد ہے۔

اور ویاگرا میں موجود Sildenifil اور اسی گروپ کے دیگر سالٹس کے غیر محفوظ اور غیرقانونی استعمال کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔ اگر مذہبی حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہے تو عالم دین کو بھی اس کمیٹی کا حصہ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ویاگرا یعنی Sildenifil اور اسی گروپ کے دیگر سالٹس کو پاکستان میں اجازت دے کر فزیشن یا کارڈیالوجسٹ کے نسخے کے ساتھ پابند کر دیا جائے تو اس کے منفی اثرات اور نقصانات سے سو فیصد محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ اس دوا سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ کمیٹی ان تمام عوامل کا جائزہ لینے کے بعد ان دواؤں کی تیاری اور فروخت کے لئے سفارشات مرتب کرکے حکومت تک پہنچائے تاکہ حکومت پاکستان ان سفارشات کی روشنی میں مناسب اقدامات کرکے ان دواؤں کی تیاری اور فروخت کو یقینی بنا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).