اسلام آبا د میں جاری دھرنے پر اک نظر


مولانا فضل الرحمن صاحب کا دھرنا اسلام آباد میں جاری ہے اور مزید چند روز جاری رہنے کا امکان ہے۔ دھرنے میں موجود شرکا جو دور داز علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔ وقت گزاری کے لیے رسہ کشی، کرکٹ اور کبڈی جیسے کھیلوں سے دل بہلا رہے ہیں۔ مولانا صاحب اوور ویٹ ہونے کی بدولت عملی طور پر ان کھیلوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں لیکن ”سیاسی کبڈی“ پوری آب وتاب سے کھیل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور، پیپلز پارٹی نے دھرنے میں بھرپور حصہ نہیں لیا۔

چناچہ اب ”دھرنا کبڈی ‘‘ براہ راست حکومت اور مولانا کے درمیان کھیلی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ یہ میچ ہار جیت کے بغیر آنے والے دنوں میں کسی با اثر شخصیت کی“ یقینی دہانی ”یا کسی“ تحریری معاہدے ”کی صورت میں ختم ہو جائے گا۔ کیوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی شخص دارالحکومت پر لشکر کشی کر کے منتخب وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب نہیں کرسکتا۔ حکومتیں اتنی لاچار اور بے بس نہیں ہوتیں کہ وہ چند لوگوں کے احتجاج پر مستعفی ہوجائیں۔ اتنے لوگ تو ہر دور میں ہر حکومت کے خلاف ہوتے ہیں۔

مولانا اس بات سے یقینا با خبر ہوں گے کہ جہاں 124 دن کا دھرنا اس وقت کے منتخب وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر محبور نہ کر سکا وہاں مولانا کا چند روزہ دھرنا کیا انقلاب بر پا کرے گا۔ لیکن بد قسمتی سے مولانا کے کارکن اس سیاسی حقیقت سے بے خبر ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ دھرنے میں موجود لوگ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں اور دھرنے میں لوگوں کی وہ مطلوبہ تعداد بھی موجود ہے جو مبینہ طور پر کسی ”یہودی ایجنٹ“ اور ”اسلام دشمن حکومت“ کو گھر بھیجنے کے لیے کافی ہے۔

یہ اک ہجومِ سادہ دلاں ہیں جو مولانا کی محبت و عقیدت میں دھرنا دیے ہوئے ہے۔ جو وزیر اعظم کو محض اس لیے مستعفی ٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہ یہ ان کی محترم قائد کی خواہش ہے۔ اگر کارکنوں سے پو چھا جائے کہ منتخب وزیر اعظم کس بنیاد پر مستعفی ہو جانا چاہیے؟ تو سادہ لوگ کہیں گے کہ عمران خان ایک ”اسلا م دشمن“ اور ”یہودی ایجنٹ وزیراعظم“ ہے۔ مکرر پو چھا جائے کہ اس وزیراعظم نے کون سی اسلام دشمنی کی ہے؟ تو جواب ندارد۔

مگر پھر بھی یہ لوگ اپنے محترم قائد کے خواہش کی تکمیل کے لیے تن من دھن کی با زی لگانے کے لیے دھرنے میں موجود ہیں۔ دھرنے میں موجود کچھ کارکنان پہلی بار دارالحکومت تشریف لائیں ہیں اس لیے تفریحی پارکوں میں ان کا مٹر گشت ایک فطری امر ہے۔ جس پر ناحق سوشل میڈیا میں تنقید ہو رہی ہے۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ مولانا نے دھرنے دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر مولانا کو الیکشن میں دھاندلی کی شکایت تھی تو ایک بار زنجیر عدل ہی ہلا دیتے۔

عین ممکن تھا کہ مولانا کے مضبوط دلائل سن کر عدالت مولانا کو انصاف فراہم کر دیتی۔ اس طرح مولانا اور ان کے کارکنان دھرنے کی بے جا مشقت سے بھی بچ جاتے اور سیاسی ناقدین کے اعتراض سے بھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا الیکشن کو جعلی کہنے سے پہلے اپنی جماعت کی نو سیٹوں سے مستعفی ہو جاتے۔ اس کار خیر سے یقیناً مولانا کے موقف کو سنجیدہ حلقوں میں سنجیدگی سے سنا جاتا۔ مولانا اس وقت ایک منتخب وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا کہہ رہے ہیں جس کی شبانہ روز محنت سے ملک کی معیشت بہتری کی طرف سرک رہی ہے۔ ترسیلات زر 10 فیصد کے اضافے کے ساتھ 21 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔

کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 32 فیصد کمی آئی ہے۔ برآمدات میں آٹھ فی 8 صد اضافہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارے میں 37 فی صد کمی آئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مولانا اور ان کی جماعت کے کارکنان کی نظر میں ان اعداد شمار کی کوئی حیثیت نہ ہو مگر معیشت کے اسرار و رموز سمجھنے والے ان اعداد و شمار کو خوش گوار حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔

اب جب کہ حکومتی ایما پر پرویز الہی اور چوہدری شجاعت مولانا سے ملاقات کر کے درمیانی راہ نکالنے کی عملی کوشش کر رہے اور پرویز الہی صاحب پرامید بھی ہیں کہ وہ مولانا سے دھرنا ختم کروالیں گے تو کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے کارکنان ایک ”اسلام دشمن“ اور ”یہودی ایجنٹ“ وزیراعظم سے استعفیٰ لیے بغیر جب اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو سفر کی دشواریوں اور مشکلات کو کیا نام دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).