محمد رسول اللہ ۔ این میری شمل کی سیرت النبی پر صوفیانہ پیش کش


رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے حوالے سے کئی مستشرقین نے کتب لکھی ہیں۔ کچھ نے اعتدال اور توازن سے لکھا اور کچھ کا رویہ انتہائی توہین آمیز بھی رہا کیونکہ ان کا مقصد شعوری یا لاشعوری سطح پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی تکذیب تھا۔ این میری شمل کے بارے ایک عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ ان معدودے چند مستشرقین میں سے ہیں جنہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی ادبیات پر تعصب کے بغیر کام کیا ہے۔

انیس سال کی عمر میں ”مملوک مصر میں خلیفہ اور قاضی کا رتبہ“ کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی جو اس بات کی شہادت ہے کہ اوائل عمر سے انہیں اسلام اور عالم اسلام سے خصوصی دلچسپی رہی۔ این میری شمل کو تصوف اور عارفانہ کلام سے بھی گہرا ربط و ضبط رہا ہے۔ سیرت کے حوالہ سے ان کی یہ زیر نظر کتاب ”محمد رسول اللہ“ سیرت کی صوفیانہ پیش کش ہے۔

اس کتاب کے دیباچہ میں این میری شمل بتاتی ہیں کہ ترکی میں پانچ سالہ قیام کے دوران مولود شریف کی کئی محفلوں میں شرکت کے مواقع ملے اور اسی زمانے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ترک مسلمانوں کی گہری عقیدت اور محبت کا بخوبی اندازہ ہوا۔ آگے وہ لکھتی ہیں کہ ”برصغیر ہند و پاکستان کے شعری اور صوفیانہ لٹریچر میں دل چسپی کے نتیجہ میں مجھے یہ احساس ہو گیا کہ اس صدی کے فلسفی شاعر محمد اقبال کا کلام نبی کریم کی عقیدت کے کس قدر گہرے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔

سندھی زبان کے عوامی ادب کے مطالعہ نے اس تصویر میں نئے رنگ بھر دیے۔ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح، اسوہ حسنہ، شمائل نبوی، معجزات رسول، درود و سلام، اسما النبی، نور اور شفاعت کا تصور، فارسی اور دیگر زبانوں میں نعتیہ شاعری کے حوالے سے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ اردو میں اس کتاب کو نعیم اللہ ملک نے ترجمہ کیا ہے اور ترجمہ کے تمام فنی پہلو مدنظر رکھتے ہوئے آسان و سادہ اور تخلیقی زبان میں ایسے ڈھالا ہے کہ گماں گزرتا ہے جیسے یہ کتاب اردو میں ہی لکھی گئی ہے۔

ابتدائی ابواب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مقدسہ اور اسوہ حسنہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ بہت جامع اور نپے تلے انداز میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے اہم واقعات، آپ کے وصال کے بعد کی سیاسی صورت حال اور جید صحابہ کرام کا تذکرہ موجود ہے۔ سیاسی تقسیم اور شعیہ سنی اختلافات کی ابتدا پر اختصار مگر معروضی نقطہ نظر سے بات کی گئی ہے۔ اسلام کے تصور اطاعت و اتباع رسول کو جو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس کو بھی این میری شمل زیر بحث لائی ہیں۔

این میری شمل کے مطابق مسیحت میں جو مقام حضرت مسیح علیہ السلام کو دیا گیا ہے، وہی مرکزی پوزیشن قرآن مجید کو دین اسلام میں حاصل ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام الہامی کلام کی انسانی شکل جب کہ قرآن (ہیری وولف سن کی اصطلاح میں ) ربانی کلام کی مخفی صورت ہے۔ لیکن اس کے بر عکس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسائیت کے تصور مسیح علیہ السلام کے درمیان کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے لیے عیسائیوں کی طرح محمڈن کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔

این میری شمل نے علم حدیث کے متعلقات پر اتباع رسول کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ احادیث کی تدوین کے لیے جانچ پڑتال کو علوم اسلامیہ میں اہم شاخ کا درجہ حاصل ہے۔ احادیث کی صحت اور سند پرکھنے کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، وہ آج کے جدید علم تحقیق کے لیے بنیاد اور عملی مثال فراہم کرتے ہیں۔ این میری شمل کے بقول ”یہ بھی تحقیق کی جاتی کہ جس شخص کے حوالے سے وہ حدیث کی روایت بیان کر رہا ہے، اس کے ساتھ رابطہ تھا یا نہیں یا اس کا انتقال ہوا تو وہ کم سن تو نہیں تھا یا وہ اس کے آبائی شہر یا قصبے میں کبھی گیا تھا؟ جب کسی راوی کے قابل اعتماد ہونے کے بارے اس قسم کی تمام شرطیں پوری ہو جاتیں تو متعلقہ حدیث کو صحیح تصور کیا جاتا۔ “

اس کتاب کا خوب صورت حصہ عرب و عجم کے شعرائے کرام کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کے اظہار کی جہات کا مطالعہ ہے۔ عرب روایت میں حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن رواحہ جیسے صحابہ کرام سے لے کر محمد البصیری اور دیگر عرب شعرا کے ہاں نعت گوئی کے مختلف اسالیب کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ این میری شمل کے مطابق ”نعت خوان حضرات نے جنہیں مداحون الرسول کہا جاتا ہے، صدیوں سے دنیائے عرب میں با ضابطہ انجمنیں تشکیل دے رکھی تھیں اور انہیں ہر اہم تقریب میں مدعو کیا جاتاتھا۔ “ محمد البصیری کے قصیدہ بردہ شریف کو یورپ میں شائع ہونے والی پہلی عربی ادبی تصنیف بھی قرار دیا گیا ہے۔

این میری شمل کے وسعت مطالعہ کی گواہی زیر نظر کتاب کے ہر باب سے ملتی ہے۔ عربی کے علاوہ ترکی، فارسی، اردو، سندھی اور سرائیکی شعری روایت میں نعت رسول مقبول کا عمیق تجزیہ ان کے علمی تجسس، معروضی طریق کار اور شبانہ روز محنت کا عکاس ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن مولود پڑھنے، حسن و جمال (شمائل نبوی) کی مدحت، حضور اکرم کے چوغہ (خرقہ) سے محبت اور نعلین شریف سے عقیدت کے حوالے سے ترکی، مصر، اندلس، مراکش وغیرہ میں جو نعتیہ ادب تخلیق ہوا، اس پر بھی این میری شمل کی گہری نظر رہی ہے۔ اندلس کی شاعرہ سعدونہ ام سعدبنت عصام الحمیریہ نے اپنی نظم کا آغاز ان لفظوں سے کیا ہے :

اگر میں نعلین کو نہ پا سکی تو اس کی شبہیہ کو چوم لوں گی

حضور کی چپلوں کو چومنے کا یہ بھی ایک انداز ہے

انہیں آنکھوں سے لگانے کی سعادت شاید جنت میں حاصل ہو گی

اس جنت میں جو روشن و تاباں ہے

میں اپنے دل کو نعلین سے رگڑتی ہوں

شاید اس طریقے سے میری جان لیوا پیاس بجھ جائے

این میری شمل کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین شریف کا تذکرہ پہلی مرتبہ تیرہویں صدی عیسوی میں دمشق میں ہوا۔ قرون وسطی کے دوران مغربی اسلامی دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چپلوں کی تصاویر عام ہو گئیں اور اس نسبت سے نعتیہ شاعری کا نیا زاویہ سامنے آیا۔ شمالی افریقہ کے مؤرخ المقری نے رسول اکرم کے نعلین کے موضوع پر ضخیم کتاب لکھی۔ سرورکائنات کی شان میں لکھے گئے قصیدوں کے جامع یوسف النبہانی نے اپنی نظم میں نعلین شریف کے فیوض و برکات پر لکھا ہے۔

این میری شمل نے نعلین کے علاوہ قدم مبارک کے نقش پر بھی اپنی اس کتاب میں لکھا ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر کئی ایسے پتھر ملے ہیں جن پر قدم مبارک کے نقش تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے بالوں کو سب سے قیمتی تبرک کا درجہ حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مختلف صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے موئے مبارک دیے تھے اور یہ صحابہ ان کی حفاظت کے لیے کوشاں رہے۔ اس وقت پوری دنیا میں کئی مقامات پر موئے مبارک کو بہت اعزاز و احترام سے محفوظ رکھا گیا ہے۔

اس کتاب میں میلاد النبی کی تقریبات کے حوالے سے تفصیلی بحث ملتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو مولد کہا جاتا ہے۔ ترکی میں اسے مولوت یا میولود لکھا پڑھا جاتا ہے۔ این میری شمل کی تحقیق کے مطابق عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی ماں نے اس مکان کو جہاں حضور کی ولادت ہوئی تھی، ایک مقدس زیارت گاہ میں تبدیل کردیا تھا اور جح کے لیے آنے والے مسلمان عقیدت و احترام سے اس کی زیارت کرتے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو بڑے جشن کے طور پر منانے کا سلسلہ مصر کے فاطمی دور میں شروع ہوا۔

مصر کے مؤرخ مقریزی نے فاطمی دور میں منعقد ہونے والی ایسی تقریب کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ تاریخ داں ابن خلکاں نے شمالی عراق میں مولود کی تقاریب کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ میلاد کی تیاریاں یوم ولادت سے کافی پہلے شروع ہو جاتیں۔ خوش نما پنڈال بنائے جاتے، محفل سماع بھی ہوتی، ناصحانہ وعظ بھی، شمع بردار جلوس بھی نکالے جاتے۔ ترکی میں حضور کے یوم میلاد پر مسجدوں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جاتا اور اس حوالے سے اس دن کو میولوت قندیلی بھی کہا جاتا ہے۔

شمالی افریقہ میں جشن میلاد شروع میں مرینڈی حکمرانوں کی اختراع سمجھ کر مخالفت بھی ہوئی مگر بعد میں مراکش اور اس کے ملحقہ علاقوں کی مذہبی زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔ این میری شمل کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے بارے پہلی جامع کتاب اندلس کے مصنف ابن دحیہ نے لکھی۔ نثر میں لکھی گئی اس کتاب التنویر فی المولد سراج المنیر کے آخر میں حضور کی بے پناہ مدح سرائی کی گئی ہے۔ حنبلی فقہ کے علما ابن جوزی اور ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں میلاد شریف کی فضیلت و برکت پر لکھا ہے۔ ترک روایت میں سب سے بہترین معلوم مولود سن چودہ سو عیسوی میں سلیمان چلبی نے لکھا۔ سلیمان چلبی کے مولود کی پیروی میں دیگر شعرا نے بھی لکھا مگر ترکی معاشرے میں جو پذیرائی اس مذہبی نظم کو ملی، اس کی نظیر کم کم ملتی ہے۔

این میری شمل کی اس کتاب میں مطالعہ سیرت اور تصوف کا گہرا امتزاج نظر آتا ہے۔ ہر باب میں مختلف موضوعات پر لکھتے ہوئے صوفیانہ روایات اور صوفی شعرا کے کلام کے بکثرت نمونے درج کیے گئے ہیں۔ المختصر یہ کتاب امت کی اپنے رسول سے محبت و عقیدت کا محققانہ تذکرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).