دھرنوں کی قدیم روایت سے سیاسی دھرنوں تک


ایک بار پھر پاکستان میں دھرنے کا شور شرابہ برپا ہے۔  دھرنا ہو رہا ہے؟ کیا نتیجہ نکلے گا؟ دھرنا دینا کیوں ضروری ہے؟ یا پھر یہ بحث کہ دھرنے کے پاکستان کو کیا کیا نقصانات ہوں گے؟ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس روایت کا آغاز کہاں پر اور کس نے کیا؟ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ دھرنے کی روایت برِ صغیر میں ہی شروع ہوئی تھی یعنی اسے کاروں کی طرح درآمد نہیں کرنا پڑا تھا۔ بلکہ اس دور میں بڑے پیمانے پر سیاسی دھرنے بھی یہاں شروع ہوئے تھے۔

دھرنا اصل میں قدیم ہندو تہذیب کی روایت تھی۔ اور ’دھرنا‘ کا لفظ بھی سنسکرت سے ہی نکلا ہے۔  یہ الگ بات کہ اب اس فن کو ہم نے ہندوستان کی نسبت بہت زیادہ ترقی دے دی ہے۔  اس روایت کا ذکر ہندو قانون ’منو دہرم شاستر‘ میں تو نہیں ملتا البتہ بعد میں یہ روایت اس طرح شروع ہوئی کہ اگر کسی شخص نے کسی کو قرض دے رکھا ہو اور رقم واپس ملنے کی امید ختم ہو رہی ہو تو اس مسئلہ کو طے کرنے کے دو طریق تھے۔  ایک تو یہ کہ قرض دینے والا مقروض کو پکڑ کر اپنے گھر لے جاتا تھا تا کہ اس سے وقتی غلامی یا کام کاج کرا کے اپنا نقصان پورا کرے۔

لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا۔ اور وہ یہ کہ اگر قرض واپس نہ کرنے والا اگر اونچی ذات کا ہو اور قرض دینے والا نچلی ذات کا تو یہ تو بہت پاپ کی بات تھی کہ اس اونچی ذات والے کو نچلی ذات والے کے ناپاک گھر میں رہنے پر مجبور کیا جا ئے۔  ’مرتا کیا نہ کرتا‘ نچلی ذات والوں نے اس کا بھی حل نکال لیا۔ قرض دینے والا قرض دار کے دروازے پر جا کر اونچی آواز میں اپنے قرض کا مطالبہ کرتا اور اگر وہ جواب نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا تو قرض دینے والا اس کے دروازے پر بیٹھ جاتا اور اس طرح دھرنا دیتا۔

 اور اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک اسے اپنا مال واپس نہ مل جاتا۔ اور بعض تو اس کے ساتھ بھوک ہڑتال کر کے بھی اپنا مال واپس لینے کی کوشش کرتے اور مقروض کے دروازے پر جو اُگانے لگ جاتے۔  یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ جب تک تم قرض واپس نہیں کروگے یا یہ جو اُگ نہیں جائے گی میں کچھ نہیں کھاؤں گا۔ اس سے بھی بڑھ کر بعض لوگ اپنے ہاتھ میں زہر بھی پکڑ لیتے تھے کہ میرا قرض واپس کرو ورنہ میں یہ زہر کھا لوں گا۔ اس وقت قرض واپس نہ کرنے والے بھی کچھ شریف ہوتے تھے جو اس قسم کی اشتہار بازی سے گھبرا کر قرض واپس کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔

گویا اس طرح اس اعلی ٰ ذات والے کو اپنے ہی گھر میں قید رہنا پڑتا۔ اور اگر کبھی برہمن ایسا دھرنا دیتا تو یہ بھی خوف ہوتا کہ اگر وہ اس دوران مر گیا تو یہ بہت بڑا پاپ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ آئر لینڈ میں بھی اس سے ملتی جلتی رسم پائی جاتی تھی۔ لیکن ماہرین حیران ہیں کہ یہ رسم ہندوستان سے آئر لینڈ کیسے جا پہنچی؟ بہر حال پاکستان تک کا سفر کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔  بہر حال جب انگریز ہندوستان پر حکمران ہوئے تو انہوں نے اس رسم پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔

( Calcutta Review، Vol 62 p 40۔  60 )

یہ تو قدیم، انفرادی اور غیر سیاسی دھرنے تھے۔  برصغیر میں اجتماعی اور سیاسی دھرنے اُس وقت شروع ہوئے جب گاندھی جی اور کانگرس نے 1920 کی دہائی میں ستیہ گرہ اور سول نافرمانی کی تحریکیں شروع کیں۔  اور پھر 1930 کی دہائی میں بھی ان کا سلسلہ نئے سرے شروع کیا گیا۔ 1920 کی دہائی میں ان دھرنوں کا طریقہ یہ تھا کہ طلباء کو تحریک کی گئی تھی کہ وہ کم از کم سرکاری کالجوں اور یونیورسٹی میں کلاسوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔

  چنانچہ کلکتہ میں جو طلباء اس کے باؤ جود کلاسوں کو جاتے تو دوسرے طلباء ان کے راستے میں بیٹھ جاتے بلکہ بسا اوقات لیٹ جاتے اور کہتے کہ اگر تم نے کلاسوں میں جانا ہے تو ہمارے اوپر قدم رکھ کر جاؤ۔ ہم تکلیف برداشت کریں گے اور تم پر حملہ نہیں کریں گے۔  گو کہ ’عدم تشدد‘ کا نام لیا جا رہا تھا لیکن ایک لحاظ سے یہ بھی تشدد اور زبردستی تھی۔ اسی طرح ستیہ گرہ اور سول نافرمانی کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ ہندوستان کے لوگ سرکاری ملازمت چھوڑ دیں۔

ظاہر ہے کہ اکثر نے اس تحریک کے نتیجہ میں ملازمتیں نہیں چھوڑیں۔  چنانچہ اس پر احتجاج کے لئے جب یہ ملازمین اپنی ملازمت پر جانے لگتے تو دوسرے لوگ ان کے دروازے کے آگے بیٹھ جاتے یا لیٹ جاتے کہ اگر ملازمت پر جانا ہے تو ہمارے اوپر سے گزر کر جاؤ۔ پھر گاندھی جی کا مطالبہ تھا کہ باہر کے بنے ہوئے کپڑے اور شراب کا بائیکاٹ کیا جائے اور لوگ خود کھدر بُن کر پہنیں۔  لیکن پھر بھی باہر کا کپڑا بک رہا تھا۔ چنانچہ گاندھی جی کے پیروکار ان دوکانوں کے باہر دھرنا دے دیتے۔ بلکہ شراب کی دوکانوں کے بارے میں گاندھی جی نے تحریک کی تھی کہ ان دوکانوں کے راستے میں دھرنا دینے عورتیں جائیں اور ان دوکانوں کا راستہ روک لیں۔  اور کہا کہ ان عورتوں پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ وہ تشدد سے کام لیں گی۔ لیکن پھر ہم دیکھیں گے کہ ان پر کوئی ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ نہیں اگر کسی نے ان پر ہاتھ اُٹھایا تو پھر ہندوستان کے رہنے والے نامرد نہیں ہیں۔

(The Collected Works of Mahatma Gandhi Vol 43 p 218۔  219 )

ان دھرنوں اور تحریکوں کا مقصد برطانوی حکومت کی مشینری کو روک دینا اور ملک کو آزاد کرانا تھا۔ ان تحریکوں سے وقتی سیاسی ہیجان تو پیدا ہوا۔ ہزاروں لوگوں نے ان میں جوش سے حصہ بھی لیا اور جیل بھی گئے لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی مشینری بڑی حد تک چلتی رہی اور ہندوستان آزاد بہر حال نہیں ہوا۔ ہر مرتبہ سول نافرمانی اور ستیہ گرہ کو روک کر مذاکرات شروع کرنے پڑے اور ان مذاکرات کے نتیجہ میں ہی ملک آزاد ہوا۔

Mahatma Gandhi leading the volunteers of the Indian National Congress during the historic march to Dandi in March, 1930. Dr. Abul Kalm Azad, frontier Gandhi Khan Abdul Gaffar Khan, Sardar Vallabhbhai Patel, Jawaharlal Nehru, Dr. Rajendra Prasad is also seen in the picture.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).