امیتابھ بچن کے فلمی سفر کے پچاس برس


امیتابھ بچن

نومبر 1969- اب سے پچاس برس قبل ہندی کی ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ‘ سات ہندوستانی’۔

اپنے زمانے کے مشہور فلم رائٹر اور ہدایت کار احمد عباس کی اس فلم میں اداکار اتپل دت تھے جو ادب، صحافت اور فلمی دنیا کی ایک نامور شخصیت تھے۔ ساتھ میں تھا دبلا پتلا اور لمبے قد والا ایک نیا لڑکا- نام تھا امیتابھ بچن۔ ایک ایسا نام جسے اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا۔

ہدایت کار خواجہ عباس سے امیتابھ بچن کی پہلی ملاقات کا ذکر’بریڈ بیوٹی ریولوشن- خواجہ احمد عباس’ نامی کتاب میں کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں سرکردہ سماجی کارکن سعیدہ حمید اور دستاویزی فلم سازعفت فاطمہ نے خواجہ عباس کی سوانح عمری اور ان کی تحریروں کو یکجہ کر کے ایک کتاب کی شکل دی ہے۔ کتاب میں عباس صاحب نے امیتابھ بچن سے پہلی ملاقات کے بارے میں لکھا ہے۔

خواجہ احمد عباس- آپ کا نام؟

جواب- امیتابھ

خواجہ احمد عباس- فلموں میں اس سے پہلے کبھی کام کیا ہے؟

جواب- کسی نے دیا ہی نہیں اب تک؟

خواجہ احمد عباس- کیوں کیا کمی لگی آپ میں؟

جواب- (کئی بڑے ناموں کا ذکر کرتے ہوئے) سب کہتے ہیں کہ ان کی ہیروئنیوں کے مقابلے میں بہت لمبا ہوں۔

خواجہ احمد عباس: ہماری فلم میں ایسی کوئی دقت نہیں ہے کیوں کہ اس میں کوئی ہیروئن ہی نہیں ہے۔

جب فلم فئیر نے امیتابھ بچن کو رجیکٹ کیا

عباس کو اپنی فلم کے لیے ایک ایسے نوجوان اداکار کی تلاش تھی جو اداکاری کے ہنر سے واقف ہو، دیکھنے میں دبلا پتلا ہو، خوبصورت اور پرجوش ہو۔

یہ بات 1969 سے پہلے کی ہے۔ اس وقت امیتابھ بچن کلکتہ کی ‘برڈ اینڈ کو’ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ صبح سے شام تک دفتر کا کام کرتے اور دفتر ختم ہونے کے بعد شام کوتھیٹر کرتے تھے۔ امیتابھ بچن کو اداکاری کا جنون چڑھ چکا تھا۔

امیتابھ بچن نے چند برس قبل اپنے بلاگ میں لکھا تھا ‘میں نے فلم فیئر کے مادھوری نامی میگزین کو اپنی فوٹو بھیجی تھی تاکہ مجھے فلموں میں کام مل سکے لیکن میری فوٹو ریجیکٹ ہوگئی’۔

امیتابھ بچن نے اداکاری میں اپنی قسمت آزمانے کی ٹھان لی تھی۔ وہ کلکتہ سے اپنی نوکری چھوڑ کر ممبئی آگئے۔

ان دنوں خواجہ احمد عباس فلم ‘سات ہندوستانی’ بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس فلم میں ایک کردار کے لیے ایک نئے لڑکے ٹینو آنند کو لیا تھا جو ان کے دوست اور مشہور رائٹر اندر راج کے فرزند تھے۔ ٹینو آنند کی ایک دوست تھی نینا سنگھ جو پیشے سے ماڈل تھیں۔ ساتویں ہندوسانی کے لیے نینا کو لیا گیا۔ امیتابھ بچن دور دور تک فلم کا حصہ نہیں تھے۔

https://twitter.com/SrBachchan/status/701507950808989696

پہلے کردار کے لیے 5000 روپے موصول ہوئے

ہدایت کار اور ادکار ٹینو آنند کئی بار میڈیا سے بات چیت میں یہ قصہ سنا چکے ہیں ‘ کچھ یوں ہوا کہ مجھے اس درمیان ہدایت کار ستیہ جیت رے کے معاون ہدایت کار بننے کی پیش کش ہوئی۔ ویسے بھی میں سات ہندوستانی میں وہ کردار شوقیہ طور پر کررہا تھا۔ میں نے وہ کردار چھوڑ کر کلکتہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے نینا سنگھ نے کسی دوست کی فوٹو سیٹ پر دکھائی۔ عباس صاحب تھوڑے گرم مزاج کے آدمی تھے۔ نینا نے گزارش کی میں وہ فوٹو عباس صاحب کو دکھادوں تاکہ آڈیشن ہوجائے۔ بس پھر اس نئے لڑکے کو سیٹ پر بلالیا’۔

‘بریڈ بیوٹی ریولوشن- خواجہ احمد عباس’ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں ‘میں نے امیتابھ سے ملنے کے بعد کہا میں 5000 روپے سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ امیتابھ کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ میں نے پوچھا کیا نوکری میں زیادہ رقم ملتی تھی۔ جواب آیا، ہاں 1600 روپے ماہانہ’۔

‘تو میں نے پوچھا کہ ایسی نوکری چھوڑ کر کیوں آئے۔ ابھی تو صرف ایک چھوٹی سی امید ہے کہ یہ رول تمہیں مل سکتا ہے۔ تب امیتابھ نے بے حد اعتماد کے ساتھ کہا کہ زندگی میں انسان کو ایک بار اس طرح کی بازی کھیلنی پڑتی ہے۔ میں نے اس کی خود اعتمادی کو دیکھتے ہی کہا یہ کردار تمہارا ہوا’۔

تو اس طرح امیتبابھ بچن کو سات ہندوستانی میں ایک کردار کا ملنا طے ہوا۔

جب معلوم ہوا کہ امیتابھ ‘بچن’ کے بیٹے ہیں

جب سات ہندوستانی فلم کے کردار کی پیش کش کے بعد امیتابھ بچن کے لیے کانٹریکٹ تیار کیا جارہا تھا تو امیتابھ نے اپنا پورا نام بتایا- امیتابھ بچن، والد ڈاکٹر ہریونش رائے بچن۔

اس سے قبل اب تک انہوں نے خواجہ عباس کو صرف اپنا نام بتایا تھا۔ ڈاکٹر ہریونش رائے بچن کا نام سن کر خواجہ عباس چونک گئے۔ ہریونش رائے اس وقت کے مقبول شاعر تھے اور خواجہ عباس سے ان کی جان پہچان تھی۔

خواجہ عباس یہ نہیں چاہتے تھے کہ ڈاکٹر ہریونش رائے بچن کو کوئی غلط فہمی ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر بچن کو ٹیلی گرام کیا جائے ان کا بیٹا فلموں میں کام کرنے جارہاہے۔

دو دن بعد ڈاکٹر ہریونش رائے بچن کا ٹیلی گرام آیا اور اسی کے بعد فلم کے کانٹریکٹ پر دستخط ہوئے۔

امیتابھ بچن

اس طرح 15 جنوری 1969 کو امیتابھ بچن نے اپنے فلمی کرئیر کی پہلی فلم ساتھ ہندوستانی سائن کی جو 7 نومبر 1969 کو ریلیز ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نینا سنگھ جنہوں نے امیتابھ بچن کا نام تجویز کیا تھا اور جو فلم میں ایک کردار بھی کررہی تھیں اور جو ٹینو آنند امیتابھ بچن کو لے کر خواجہ عباس کے پاس گئے تھے دونوں ہی اس فلم میں کام نہیں کر سکے۔

نینا سنگھ شوٹنگ کے ایک شیڈیول کے بعد ممبئی واپس ہی نہیں آئیں اور ٹینو آنند کلکتہ میں ستیہ جیت رے کے ساتھ کام کرنے لگیں۔

نینا سنگھ کی جگہ جلال آغا کی بہن شہناز کو لیا گیا جنہوں نے بعد میں ٹینو آنند سے شادی کی۔

ہفتہ بھر پہلے داڑھی لگانی پڑتی تھی

فلم کی شوٹنگ کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔ فلم کی کہانی ایک انقلابی خاتون کے نظریے سے دکھائی گئی ہے جو ہسپتال میں لیٹے لیٹے ان پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے جب ملک کے مختلف حصوں سے آئے مختلف مذاہب کے اس کے ساتھیوں نے مل کر گووا کو پرتاگالیوں سے آزادی دلوائی تھی۔

امیتابھ بچن بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان نوجوان انور علی کا کردار کررہے تھے۔ فلم کا بجٹ کافی کم تھا اور مشہور میک اپ آرٹسٹ پندھارا جوکر مفت میں کام کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ لیکن وہ بے حد مصروف آرٹسٹ تھے۔

خواجہ احمد عباس کی کتاب کے اجراء کی تقریب میں امیتابھ بچن نے ایک قصہ سنایا تھا ‘ فلم کی شوٹنگ ممبئی میں نہیں بلکہ گووا میں تھی۔ میک اپ آرٹسٹ جوکر جی نے کہا کہ میرے پاس شوٹنگ سے ایک ہفتے پہلے وقت ہے تو میں امیتابھ کے داڑھی ایک ہفتے پہلے لگا کر چلا جاؤں گا۔ ان دنوں میک اپ اتنا ایڈوانس نہیں ہوا کرتا تھا۔ ایک ایک بال جوڑ کر داڑھی بنتی تھی۔ میں ایک ہفتے تک داڑھی لگا کر گھومتا رہا۔ ایک ہفتے تک غسل بھی نہیں کیا کہ داڑھی اتر جائے گی’۔

فلم میں امیتابھ بچن کی اداکاری کی کافی تعریف ہوئی تھی۔ انہیں ایک ایسے مسلمان شخص کا کردار کرنا تھا جو چھ انقلابیوں کے ساتھ مل کر گووا کی آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا لیکن سات ہندوستانیوں میں وہ اکیلا ہے جس پر مذہب کی بنیاد پر شک کیا جاتا ہے کہ کہیں وہ غدار تو نہیں۔

ایک نئے اداکار کے لیے وہ ایک مشکل کردار تھا۔ فلم کا ایک منظر ہے جہاں امیتابھ کا ایک ساتھی اور ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ایک رکن یہ مان لیتا ہے کہ انور یعنی امیتابھ بچن نے جیل میں ملک سے غداری کی ہے۔

لیکن ایک دن انور کو گووا کی جیل سے باہر پھینکا جاتا ہے، اس کے پیر کے تلوے چاقو سے کٹے ہوئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اذیتوں کے باوجود انور نے ملک سے غداری نہیں کی۔ اس طرح کے چند مناظر سے امیتابھ بچن کی اداکاری کا اندازاہ ہوا تھا۔

فلم میں ایک ہی خاتون کا کردار تھا جسے شہناز نے ادا کیا تھا

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہناز نے بتایا ‘ان کی آواز ضرور شاندار تھی لیکن انہیں دیکھ کر مجھے اس وقت قطعی یہ نہیں لگا تھا کہ یہ دبلا پتلا، لمبا شخص کبھی سپر سٹار بن پائے گا۔ سیٹ پر وہ بالکل خاموش رہتے تھے۔ پھر فلم کے ایک منظر میں انہیں پرتاگالی اذیتیں دے رہے ہیں، ان کا پیر کٹ گیا ہے اور وہ زمین پر رینگ رہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ منظر کیا تو سیٹ پر موجود سبھی لوگ تالیاں بجانے لگیں تب مجھے لگا یہ شخص بہت دورتک جائے گا۔‘

سات ہندوستانی نہ صرف امیتابھ بچن کی پہلی فلم ہونے کی وجہ سے اہم ہے بلکہ ہندی سنیما میں اس کا اہم مقام ہے۔ یہ فلم قومی یکجہتی کی اہمیت اور ریاستوں اور زبان کی بنیاد پر ہونے والی تفریق جیسے مسائل کو اجاگر کرتی ہے جسے قومی اعزاز بھی حاصل ہوا۔

خواجہ احمد عباس اس فلم کے ذریعے یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ جو اداکار جس ریاست کا ہے اس سے بالکل مختلف کردار کرایا جائے۔ اگر کوئی بنگال کا ہے تو اس سے ایک بہاری شخص کا کردار کرایا۔

بنگال سے تعلق رکھنے والے اداکار اتپل دت کو پنجاب کا کسان بنایا۔ ملیالی ہیرو مودھ کو بنگالی بنایا۔ بے حد ماڈرن شخص جلال آغا کو مہاراشٹر کا دیہاتی بنایا، امیتابھ بچن کو اردو کا شاعر بنایا جو ہندی سے نفرت کرتے ہیں۔

فلم کا ایک منظر ہے جہاں امیتابھ بچن کو ایک خط موصول ہوتا ہے جو ہندی میں لکھا ہے۔ اس خط کو وہ یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کردیتے ہیں کہ جبڑا توڑ دینے والی زبان میں لکھا یہ خط وہ نہیں پڑھ سکتے۔

فلم میں ہندی سے نفرت کرنے والا یہ انور ہندی فلم انڈسٹری کا شہنشاہ بن کر لاکھوں دلوں پر راج کررہا ہے اور آج 50 برس بعد بھی ہندی فلم انڈسٹری میں شاید ہی ایسا کوئی اداکار ہو جو اس کی ہندی زبان ور اداکاری پر مہارت کا مقابلہ کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp