کرتارپور گورودوارہ: ’میرے لیے تو ایسا ہی ہے جیسے میں اپنے میکے آئی ہوں‘


پرمیندر کور اپنی ساتھیوں کے ساتھ

پرمیندر کور انڈیا کے شہر پٹیالہ سے پاکستان کا ویزہ حاصل کر کے زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان کے ضلع نارووال میں واقع کرتارپور گورودوارہ دربار صاحب آئی ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرتارپور راہداری کے باقاعدہ افتتاح نے پرمندر کور کو اپنے ’میکے‘ جانے کا موقع دیا ہے۔ وہ انڈیا کے شہر پٹیالہ سے پاکستان کا ویزہ حاصل کر کے زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان کے ضلع نارووال میں واقع کرتارپور گورودوارہ دربار صاحب آئی ہیں۔ ان کے لیے کرتارپور آنا ایسے ہے جیسے ’بیٹی اپنے میکے جاتی ہے۔ یہ ہمارے گرو کا گھر ہے اور گرو باپ کے درجے ہوتا ہے۔ میرے لیے تو ایسا ہی ہے جیسے میں اپنے میکے آئی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیئے

’کرتارپور راہداری کی تعمیر ایک معجزہ ہے‘

سکھ برادری کرتارپور بارڈر کھلنے کے لیے بیتاب کیوں؟کرتارپور لانگھا کھلنے کا مطلب ہے اب وہ بغیر ویزہ کے باآسانی جب چاہیں دربار صاحب کے درشن کو آ سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ آنے والی سرندر کور اس سے قبل زیادہ سے زیادہ دربار صاحب کے درشن سرحد کے اس پار انڈیا کے علاقے میں قائم درشن پوائنٹ ہی سے کر سکتی تھیں۔’مجھے تو وہاں سے صحیح نظر ہی نہیں آتا تھا کہ گورودوارہ ہے کدھر۔ اب یہاں آ کر پتہ چلا ہے اور دل خوش ہو گیا۔‘

کرتارپور گوردوارہ

کرتارپور گوردوارے کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا

وہ گورودوارہ میں اس دروازے سے داخل ہوئیں تھیں جو پاکستان کا ویزہ لے کر آنے والوں کے لیے مختص تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ہال کے ایک طرف جوتے جمع کروائے اور جب گرودوارے کے وسیع و عریض صحن میں داخل ہوئیں تو رک گئیں اور اپنی زبان میں تعریفی کلمات کہنے لگیں۔ دربار صاحب کی موتی کے مانند نظر آتی سفید عمارت کئی ایکڑ پر محیط صحن کے عین درمیان میں کھڑی ہے۔ اس کے اندر موجود درشن کرتے یاتریوں کی ایک بڑی تعداد پہلی مرتبہ یہاں آ رہی تھی۔ وہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ رنجیت کور امریکہ سے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ آئی ہیں۔ ’میری 62 سال عمر چکی ہے اور اتنے برسوں سے میری خواہش تھی کہ میں کبھی کرتارپور جا سکوں۔‘وہ توقع نہیں کر رہیں تھیں کہ ایسے مناظر انہیں دیکھنے کو ملیں گے۔ ’یہ بہت ہی اعلٰی ہے جی۔‘ ان کی ساتھی جگندر کور بھی سمجھتی ہیں کہ گورودوارہ دربار صاحب بہت کشادہ ہے اور ’خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔‘گورودوارے کی مرکزی عمارت کے چاروں اطراف کشادہ برآمدے تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک طرف دیوان استھان ہے تو دوسری جانب لنگر خانہ اور میوزیم بھی موجود ہیں۔

یاتری

دنیا کے کئی ممالک سے آئے ہوئے سکھ یاتریوں نے گوروروارے کی زیارت کی

یاتری جب گورودوارے میں داخل ہوئے تو زیادہ تر لوگ مرکزی عمارت کے عقب میں واقع بابا گرو نانک دور کے کنویں کی زیارت کرنے کو چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بابا گرو نانک کی قبر سے ہوتے ہوئے عمارت کے اندر چلے جاتے ہیں جہاں وہ بابا گرو نانک کی سمادھی کے درشن کرتے ہوئے پہلی منزل پر پہنچتے ہیں جہاں وہ ماتھا ٹیک کر اپنی عبادت کرتے ہیں۔ یاتری گورودوارے کی چھت پر سے انڈیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو جہان کبھی کھیت اور دریائے راوی کا پاٹ دکھائی دیتا تھا اب وہاں کرتارپور راہداری یعنی وہ پکی سڑک نظر آتی ہے جو چار کلومیٹر دور پاکستان انڈیا کی سرحد سے ہوتی انڈیا میں داخل ہو جاتی ہے۔ گورودوارہ کے صحن کے ایک چھوٹے سے حصے میں سینکڑوں یاتریوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہاں وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے منتظر تھے۔ رنگ برنگے گاؤ تکیوں کی ٹیک لیے وہ انتظار کرتے رہے اور جب وہ پہنچے تو لوگ ان کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے بیتاب نظر آئے۔سیکیورٹی کے بندوبست اس طرح کیے گئے تھے کہ گورودوارے کے اندر باآسانی گھوم پھر سکتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp