عورت اور مرد میں مکمل برابری کے بغیر جمہوریت ڈھکوسلہ ہے


پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ بظاہر تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ ان ہی کے شہر سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما عابد شیر علی بھی ناخواندہ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسے میں شریک قابل احترام خواتین کے بارے میں دونوں رہنماؤں نے جو زبان  استعمال کی ہے، وہ بغیر کسی اگر مگر کے قابل مذمت ہے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے ایسے لب و لہجے کی مذمت میں بیان دے کر مناسب کیا۔ رانا ثنااللہ نے بھی مبہم الفاظ میں اپنا بیان واپس لینے کی بات کی۔ لیکن مسئلہ محض کسی ایک یا دو رہنماؤں کی زبان پھسل جانے کا نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر ایک سے زائد بار عورتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں میں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ محترمہ آصفہ بھٹو کو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی مذمت کرنا پڑی تھی۔ راولپنڈی کے شیخ رشید تو خیر اس ضمن میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ سابق آمر پرویز مشرف بےہودہ ریمارکس دینے کی شہرت رکھتے تھے۔ ان سے بہرحال کوئی گلہ نہیں کیا جا سکتا۔ آمریت اپنی اساس میں قوم کے لئے فحش گالی ہے۔ تہذیب کی توقع سول قیادت سے کی جاتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی ثقافت صنفی مساوات کے معاملے پر حساسیت سے عاری ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اکثریت اس بنیادی حقیقت سے ناقابل یقین حد تک بے خبر ہے کہ پدرسری رویوں، اونچ نیچ کی اقدار، غیر منصفانہ رسوم اور امتیازی قوانین کی دوٹوک مخالفت کئے بغیر جمہوریت قائم کی جا سکتی ہے اور نہ اسے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کا بنیادی اصول تمام شہریوں کی آئینی، قانونی، سماجی اور معاشی مساوات ہے۔ ہم اپنے گھر، گلی محلے اور شہر میں جنس، عقیدے، ثقافت اور ذات پات کی بنیاد پر پسماندہ، از کار رفتہ اور غیر جمہوری رویوں کی حمایت کرتے ہیں اور اسمبلی میں جمہوریت مانگتے ہیں۔ جمہوریت ایک ریاستی بندوبست کے علاوہ ایک معاشرتی ثقافت بھی ہے۔ جمہوری ثقافت کے بغیر جمہوری حکمرانی کا مطالبہ محض مفاد پرستی ہے۔

کوئی چار دہائیاں قبل درویش پنجاب کے ایک قصبے کے سرکاری سکول میں پڑھتا تھا تو ہمارے کچھ اساتذہ اس قسم کی نامناسب گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم طالب علموں سے بات کرتے ہوئے مگر اساتذہ کے باہم ہنسی مذاق میں اکثر ہمارے ان بزرگوں کا لب و لہجہ پوری کائنات کو گویا ایک صنفی سازش کے طور پر بیان کرتا تھا۔ انہی دنوں میں بڑے ابا کی الماری سے ایک کتاب ‘لیڈی ڈاکٹر حلیمہ خانم‘ دریافت ہوئی۔ اسے پڑھ ڈالا۔ انیس سو بیس کی دہائی میں شدھی اور تبلیغ کی کشاکش کے دنوں کی یادگاراس فکشن نما کتاب میں عورت اور مرد کی فطرت کے بارے میں کچھ مناظرہ نما دلائل تھے۔ طبیعت ٹھکی نہیں۔ ایک خیال سا تھا کہ نصف صدی گزر گئی ، وقت بدل گیا، دنیا بدل گئی۔ ہمارے خیالات میں بھی تبدیلی آ چکی ہو گی مگر اب سیاسی زعما کی گفتگو سن کر احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم خود بھٹک کر ایک دوسری دنیا کی طرف نکل گئے تھے۔ ابنائے وطن تو ابھی اسی کوچے میں بستے ہیں جہاں جسمانی خصوصیات کی بنا پر انسان کا سماجی، معاشی، قانونی اور سیاسی مقام طے پاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عندیہ دیا کہ وطن عزیز میں غیرت کے نام پر قتل کا ناطقہ بند کیا جائے گا۔ مگر پھر ہماری قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی رگ حمیت پھڑکی اور اس نے بچپن کی شادی کے خلاف ایک ترمیمی مسودہ قانون کو خلاف شریعت قرار دے دیا۔ وزیر اعظم کی بات کسی کو یاد نہ رہی ۔ ہماری سوچ میں یہ زاویے موجود ہیں تو پھر کیا تعجب کہ گھریلو تشدد ہمارے معاشرے میں عام ہے اور اب تو ایک مدت سے اس پر اجتماعی مکالمہ بھی نہیں ہو رہا۔ گویا ہم نے تشدد کی اجتماعی نفسیات کی اس سب سے بڑی وجہ جائز رویہ تسلیم کر لیا ۔ ایک مدت سے کان ترس گئے کہ اس ملک کے کسی مہذب آدمی کی زبان سے عورتوں کے بارے میں انصاف کی آواز سنائی دے۔ کیا اب اس ملک میں منظور قادر، حمید احمد خاں، حفیظ کارداراور مبشر حسن پیدا نہیں ہوتے۔ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ہم نے کہا کہ عورتوں کو زندہ دفن کرنا ہماری روایت ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی آخری آرام گاہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر لاڑکانہ کا وہ معروف قبرستان ہے جہاں کاری عورتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ کیسے مان لیا جائے کہ بے نظیر کو شہید رانی کا خطاب دینے والے پاکستان کی عام عورت کی بے حرمتی کو بھی ایک بنیادی سیاسی معاملہ سمجھتے ہیں۔ چھ برس قبل کوہستان میں شادی کی ویڈیو کے مسئلے پر عورتوں اور مردوں کے قتل کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔ اس مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا مگر ستم ظریفی ہے کہ جن خواتین کے قتل کی خبر پر مقدمہ قائم ہوا تھا، ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں قتل کیا جا چکا۔ سوات میں بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو کے بارے میں عدالتی فیصلے سے قانونی معاملہ تو حل کر دیا گیا مگر سوات میں ذبح کی جانے والی خاتون اساتذہ اور دوسری محنت کش خواتین کے خون ناحق پر تاریخ کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔

باقی تجزیہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments