کرتار پور راہدری بمقابلہ ایودھیہ


عین اس روز جب پاکستان کرتار پور راہداری منصوبے کا افتتاح کرنے جا رہا تھا انڈین اعلی عدلیہ کی طرف سے بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کرنے کا فیصلہ یقینی طور پر ایک سیکولر عدل پسند عدلیہ کا فیصلہ نہیں بلکہ انڈین حکومت اور دفاعی اداروں کی طرف سے ایک مشترکہ فیصلہ ہے جس پر وہاں کی عدلیہ نے بہت تابعداری سے نہ صرف من وعن عمل کیا ہے بلکہ ان کی سیاسی جماعتوں سمیت انٹرنیشل میڈیا نے بھی کسی خاص شدت سے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔

اب نہ تو انڈین میڈیا، آزاد اور منصف عدلیہ کے نہ ہونے کا بین کرے گا اور نہ نیویارک ٹائمز سمیت دوسرے عالمی اخبارات کے پاس انڈیا میں عدل و انصاف کے فقدان اور اداروں کے پاس آزادی نہ ہونے پر رپورٹیں لکھنے کا وقت ہو گا۔ اور تو اور وہاں کا آزاد میڈیا بھی پوری طرح اپنی عدالت کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑا ہو کر اسے عدل و انصاف پر مبنی ثابت کرنے پر پورا زور لگا دے گا۔

سچ تو یہی ہے کہ یہ فیصلہ سو فی صد مودی حکومت اور ان کی فوج کی طرف سے جاری کیا گیا فیصلہ ہے مگر ان کی خوش قسمتی سے ان کے لبرلز کو اس سے کوئی شکایت نہیں۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہاں اقلیتوں کے حقوق کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ اور ایسا عین اس وقت کیا گیا جب پاکستان خود کو امن کا پیامبر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس فیصلے کو انڈیا کی طرف سے ایک شاطر چال کی طرح سے استعمال کیا گیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ سرحد کے دوسری طرف موجود ان کے حلیف اس ایجنڈے کو کامیاب بنائیں گے۔ کرتارپور راہدری جس کے قیام اور افتتاح کے ساتھ پوری قوم کھڑی تھی اس فیصلے سے اپوزیشن کے ہاتھ میں بجانے کے لئے ایک اور باجا تھما دیا گیا جسے وہ پوری طاقت سے بجائے۔ اور جذباتی پاکستانی عوام کے جذبات کو بھڑکاتی رہے۔

نتیجہ یہ ہو کہ عوام میں سے کرتار پور کے بارے میں بغاوت اٹھنے لگے، کچھ مزید بہتر ہو اگر ایسے موقع پر ایک آدھ احتجاج یا کوئی جذباتی حملہ اس راہداری پر ہو جائے تا کہ جہاں ایک طرف پاکستانی قوم اور حکومت کو اپنا اٹھا ہوا سر جھکانا پڑے وہیں دوسری طرف انڈیا میں پاکستان کے جھنڈے لہرانے والے سکھوں کو بھی شٹ اپ کال جا سکے اور وہ سمجھ سکیں کہ ہندو پر بھروسا کرنے کے سوا سکھوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔

ایسے وقت میں پاکستانی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے پاکستانی سیاسی پارٹیاں اور میڈیا کرتار پور کے افتتاح پر سوال اٹھانے لگے گا اور اس شور شرابے پر انڈیا کو ایک بار پھر نہ صرف عالمی منظرنامے پر یہ واضح کرنے میں آسانی ہو گی کہ پاکستان میں کتنی نفرت ہے سکھوں اور اقلیتوں کے خلاف تو دوسری طرف سکھوں کے سامنے بھی ان کا سر ایک بار پھر بلند ہو جائے۔

یہ ایک کھلی چال ہے جو کھلے عام سب کو نظر آ رہی ہے۔ یہ کوئی قاتل اور شاطر قسم کی چال نہیں جب تک کہ انڈیا کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ باڈر کے دوسری طرف موجود ان کے دوست اس چال کو قاتل بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اور پاکستان اور مسلمانوں کا المیہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اسمیں مفاد پرست غدار اور منافقین ہمیشہ سے بے تحاشا پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انڈیا کی چالیں ہمیں نقصان اس لئے پہنچاتی رہتی ہیں کیونکہ ہماری سرحد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے اور ان کو تقویت پہنچانے والے کثیر تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔

غضب یہ بھی کہ یہ کھلی کتاب کا سبق سب کو دکھائی دے رہا مگر اس کے باوجود ہمارا میڈیا اور سیاسی جماعتیں ایسی سموک وال تشکیل کرنے میں کامیاب رہیں گی جو عوام کو اس باتوں سے بے خبر رکھ سکیں۔ اس کام کے لیے ادھر ادھر سے بہت سے فرضی چڑیاں اور کوے اڑائے جاتے رہیں گے تاکہ عوام اصل چیز سے بے خبر رہ سکیں۔ بدقسمتی سے آج کے پاکستانی آزاد میڈیا میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کالے کو گورا اور گورے کو کالا کر کے دکھا سکتی ہے۔ اور طاقت جب بھی جس بھی ہاتھ میں آئی ہے اسے سچ کا پیامبر کوئی نہیں رکھ سکا۔ طاقت ہمیشہ استحصال کرتی ہے چاہے وہ جس بھی صورت میں ہو۔ یہی ہے وہ تمام فایدہ اور نقصان جو آج کے دن اس فیصلے کی اہمیت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ حاصل ہو کر رہے گا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس قوم میں دشمن کے احباب بہت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).