سارا شگفتہ کی زندہ لاش کا مقدمہ، مردہ روحوں کی عدالت میں


اکتوبر 13 1954 کو پیدا، اور 4 جون 1984 کو ٹرین کے نیچے آکر مر جانے والی سارہ شگفتہ جو زندگی کی صرف انتیس بہاریں ہی دیکھ پائی تھی۔ اس سے میری ملاقات لگ بھگ 2005 میں اس کی کتاب ”آ نکھیں“ میں ہوئی، جو میرے ایک دوست نے مجھے نثری شاعری کی طرف راغب دیکھ کر کچھ اور کتابوں کے ساتھ یہ بھی ریکمنڈ کی تھی۔ اس سے پہلے میں ذیشان ساحل کی شاعری میں چھپے اسرار میں الجھی ہو ئی تھی۔ اس وقت مجھے سارہ کی شاعری سمجھنے میں دقت ہو رہی تھی، مگر اس کی شاعری میں بے باکی، سچائی اور انوکھا پن بالکل سامنے کی چیز تھا۔ میں نے اس کا دیباچہ پڑھا تو دل دکھ سے بھر گیا اور اس کے بعد سارہ کے لفظ سمجھ میں آنے لگے۔

دیباچے میں اس کے بیٹے کے پیدا ہو نے کے پانچ منٹ بعد ہی ہو نے والی موت، سارہ کے شوہر کی بے حسی اور ہاتھ میں تھامے پانچ روپے، بچے کی لاش کو ہسپتال گروی ڈالنے، دفنانے اور نہ جانے بے بسی اور بے کسی کے کیا کیا مناظر وہاں نہ تھے، میں تو کانپ کے رہ گئی۔ سارہ کے متعلق جاننے کا شو ق بڑھا اس زمانے میں، نیٹ پر اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں تھا، آج کل گوگل سرچ کرو تو ریختہ پر ا سکی شاعری، ڈان میں کچھ مضامین اور یو ٹیوب پر اس کی انڈیا میں سٹیج کی گئی کچھ نظموں اور زندگی نامہ (جو امرتا پریتم نے لکھا ہوا ہے ) مل جا تا ہے۔ یعنی جس بوتل میں وہ اپنا پیغام ڈال کر کارک بند کر کے سمندر کے حوالے کر گئی تھی، آنے والی نسلوں تک، موت کی وجہ یا موت کے اعلان کی صورت پہنچ رہا ہے۔ سارا کے پیغام والی بوتل کا کارک کھولا جا رہا ہے۔

سارا کے متعلق کچھ اور جاننے کی لگن میں کچھ شاعر لوگوں یا ادب سے دلچسپی لینے والوں سے اس بارے پوچھا تو اس کی چار شادیوں، اور ملٹی پل افئیرز کے علاوہ اور کوئی بات پتہ نہ چل سکی۔ ایک دن حسن ِ اتفاق سے ریختہ کی سائٹ سے امرتا پریتم کی سارہ شگفتہ کی موت کے بعد اس پر لکھی گئی ایک کتاب ”ایک تھی سارہ“ پڑھنے کو مل گئی۔ گو یہ میری سارا سے دوسری ملاقات ٹھہری۔ امرتا پریتم کو میں نے ہمیشہ اپنی روح کے قریب محسوس کیا ہے اس کی بھی ایک وجہ ہے کہ جب میں نے اسے پڑھا بھی نہیں ہوا تھا تو میرے افسانوں پر بات کرتے ہو ئے ایک افسانہ نگار دوست فیصل فارانی نے بے ساختہ کہا تھا کہ تمھاری تحریر میں امرتا کی جھلک ہے (میں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھاکہ دوست ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے رہتے ہیں۔

) لیکن جب امرتا کو پڑھا تو اس کو سچ میں اپنے اندر پایا۔ کم از کم انسان کا درد محسوس کرنے کی، ہم دونوں میں ایک سی ہی حس نظر آئی۔ اس لئے جب امرتا جی کی سارا شگفتہ پر لکھی کتاب پڑھی رو حرف حرف سچی محسوس ہو ئی کیونکہ یہاں بھی امرتا نے سارا کو ایک انسان پہلے اور عورت بعد میں سمجھا تھا اور کس قماش کی عورت اس پر تو نظر تک نہ ڈالی تھی۔ میں متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکی، سارا کی ٹریجک لائف اور اس سے بھی زیادہ ٹریجک موت نے مجھے کئی دن اسے میری سوچوں کا مہمان رکھا اور کتنی ہی راتیں میں نے سارا کی زندگی کے مختلف دکھوں اور رنگوں کو کو محسوس کرتے آنکھوں میں کاٹ دیں۔

اور پھر ایک دن۔

ایک دن سانجھ کے دفتر، مزنگ، لاہور، ( 2016 میں) جانے کا اتفاق ہوا وہاں محترمہ عذرا عباس کی کتاب ”درد کا محل وقوع“ تازہ تازہ پبلش ہوئی پڑی تھی۔ میں، عذرا عباس کی ”درد کی مسافتیں“، ”میں لائینیں کھینچتی ہوں“ اور ”میز پر رکھے ہاتھ“ جیسے شاہکار پڑھ چکی تھی اور میں آنکھیں ڈال کر کیسے دیکھا۔ اس کی کمر میں کب کب اور کیسے کیسے لچک پیدا ہوئی، اس نے آپ کو پہلی دفعہ دیکھا تو اس کے چہرے پر آپ کوحسد تک نظر آگیا، کس شاعر نے اس کے کھلے گریبان کو دیکھا اور کون دیکھتا ہی رہ گیا۔

اس کی اپنے دوسرے شوہر احمد جاوید سے شادی، جو اس وقت شاعر اور اب ایک صوفی بن چکے ہیں، جنہیں اب ایک دنیا سنتی اور مانتی ہے، آپ نے انہیں ایک بزدل، بیوی کی کمائی نہ صرف خود بلکہ اس کا باپ اور بھائی بھی۔ سب خاندان، کھانے والا انسان دکھایا ہے۔

جتنے شاعر سلیم احمد، جمال احسانی، ثروت حسین، افضال احمد، فراست رضوی، جمیل قمر ا ور افتخار جالب سب کے سب آپ کے معترف اور اس سے آپ کو بچنے کی ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر افتخار جالب کا کردار ایک چغل خور کا ہے جو سارا کا ہر گناہ، ہر بات آکر آپ کو بتاتا ہے۔

افضال احمد۔ شاعر ہیں، دانشور ہیں۔ اور زندہ بھی ہیں۔ سارا کے تیسرے شوہر، ان کو آپ صاف بچا گئی ہیں کہ ان کے گھر والے فرشتہ تھے اگر سارا آکر آپ کو بتاتی تھی کہ وہ مجھے کمرے میں بند کر کے جاتے ہیں اور مارتے پیٹتے ہیں تو آپ لکھتی ہیں کہ افضال کی بہنیں بہت شائستہ ہیں۔ جب وہ کہتی ہے کہ افضال کی ماں میرا گھونگھٹ دیکھ کر کہتی ہے تم کہاں کی معصوم ہو جو گھونگھٹ نکالے بیٹھی ہو، تیسری شادی ہے تمھاری۔ تو آپ کیا اس بات پر بھی یقین نہیں کریں گی کہ اس کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہو گا۔ اگر آپ ججمنٹ کی تلوار لئے کھڑی ہیں تو باقی عام عورتوں سے اور معاشرے سے کیا بعید؟

آپ کی بددیانتی اس بات سے ظاہر ہو تی ہے کہ آپ جو سارا شگفتہ کی نظروں اور جسم کے زوایوں کو تو فراموش نہ کر سکیں اور ایک ایک تفصیل لکھ دیں، مگر جب مرد شعرا کا ذکر آیا تو نام ہی بھول گئیں، افضال کا وہ دوست جو سارا سے شادی کا خواہش مند تھا، اس کا نام آپ کو یاد ہی نہیں آرہا۔ ہر دوسری لائین میں آپ یہ لکھ رہی ہیں کہ جیسے ہی نام یاد آیا آپ لکھ دیں گی۔ آپ کو نام بھول گیا تو کیا آپ کے شوہر انور سن رائے کو بھی بھول گیا؟

جو ایک ایک لمحہ آپ کے ساتھ ہو تے تھے اور آپ ان سے ایک ایک بات شئیر کیا کرتی تھیں اور جو ان سب شعرا کے نہ صرف دوست تھے بلکہ خود بھی مانے تانے شاعر، ناقد اور ڈرامہ نگار تھے اور ابھی تک تا حیات ہیں تو ان سے ہی پوچھ لیتیں۔ انہوں نے تو اسی بدکردار، دو کوڑی کی شاعرہ کے اوپر پورا ایک ناول ”ذلتوں کے اسیر“ بھی لکھ مارا تھا، گو کہ شروع میں وارننگ دیتے ہیں کہ اس ناول کے تمام کردار فرضی ہیں مگر پڑھتے ہو ئے ایک ایک کردار انہی شاعروں شگفتہ سمیت (جسے نام بھی سارا آپ نے ہی دیا تھا) ، آپ کا اور ان کی زندگی کا سامنے پڑا ہے۔

عذرا صاحبہ! آپ دونوں میاں بیوی کی لو میرج کا آپ دونوں کی سچی اور فرضی کتابوں میں ذکر موجود ہے، اور شادی سے پہلے ہی آپ کا یونیورسٹی سے ان کے فلیٹ میں آجانا اور سارا دن وہیں گزارنا۔ ہر وقت مرد شعرا کی صحبت میں رہنا۔ آپ کی حد تک سب حلال نظر آتا ہے مگر جیسے ہی سارا شگفتہ نے شاعر احمد جاوید سے شادی کے بعد وہی بیٹھک اپنے گھر لگا لی اور اس کی نظموں کو پذیرائی ملنے لگی تو آپ کی کتاب میں وہی ادبی ماحول اور اعلی علم و دانش کی باتیں ایک عامیانہ، ولگر ماحول میں بدل گئیں؟

انور سن رائے کا ناول ”ذلتوں کے اسیر“ بھی ادبی اور اخلاقی لحاظ سے ایک انتہائی بے کار ناول ہے۔ اس میں بھی سوائے سارا شگفتہ کو ایکسپوز کرنے کے اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ کہانی کی بنت انتہائی بورنگ طریقے سے ہے کہ ہر کردار انور صاحب کے پاس سارا کی زندگی کے مکروہ حصے سنانے پہنچ جا تا ہے اور ایسی ایسی تفصیل سے سناتا ہے کہ کہانی کا لطف بھی جاتا رہتا ہے۔

عذرا عباس انتہائی بولڈ لکھنے والی نثری نظم کی شاعرہ ہیں، ان کی بولڈنیس کی جھلک دیکھنی ہو تو ان کی نظمیں ”فیمیل بل ڈاگ“، ”تم ہنستے کیوں ہو“، ”مجھے تقسیم کر دو“، ”لے جاتے ہو کہاں“، ”جب رات آتی ہے“، ”کام کرتے ہو“ میں دیکھیں۔ اور عورت کی مظلومیت کی جب بات کرتی ہیں تو ان سے ”سویرا اپنی مرضی سے کب جیتی ہے؟ “ اور ”اے عورت“ جیسی شاہکار نظمیں کہتی ہیں۔ مگر کیا یہ سب باتیں کاغذی ہیں؟ اور کیا سارہ انہی کاغذی لوگوں کے دوغلے رویوں اور طے کیے ہو ئے معیارات کو عبور کرتے کرتے خدا سے بھی زیادہ خاموش ہو گئی تھی؟

نہ عذرا عباس کی چھوٹی سی کتاب میں (لکھتی ہیں ”عجلت میں ہوں“، بتایا نہیں کہ کیا عجلت ہے ) اور نہ ان کے شوہر نامدار کے 366 صفحوں کے ناول میں سارا شگفتہ کے پاگل پن، 42 الیکڑک شاکس، پاگل خانے میں داخل ہونے، ہسپتال میں بار بار ایڈمٹ ہو نے کے متعلق، اور نہ 4 دفعہ خود کشی کی کوششوں کے بارے کچھ لکھا ہے کیوں۔ کہ کہیں اس نمانی کے لئے قارئین کا جذبہ ہمدردی نہ بیدار ہو جائے؟ عام لوگ تو اسے دو کوڑی کی شاعرہ اور آوارہ عورت کہیں مگر کیا ”ایک روٹی تک پہنچنے کے لئے“ اور ”حرامزادی“ جیسی نظمیں لکھنے والی کو یہ زیب دیتا ہے؟ عورتوں کے حقوق کی علمبردار عذرا عباس یہی لکھے تو بندے کا دل کرتا ہے کہ وہ انسانوں کے اس جنگل میں ایک انسان کی کھوج میں نکلے یا کہ کسی جانور کو انسانیت کا تاج پہنا کر ایسے جنگل کا بادشاہ بنا دیا جائے؟

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2