حضورِاکرمﷺ اور سندھ


سندھ کو ”باب الاسلام“ کہہ کر جان چھڑانے والے یہ نہیں جانتے، یا دوسروں کو نہیں جاننے دینا چاہتے، کہ اس خطّے میں اسلام کا ظہور عربوں کے حملے سے بہت پہلے ہی ہو چکا تھا، جس کی متعدد دلیلوں میں سے ایک واضح دلیل بھنبھور میں واقع ایشیاء کی سب سے پرانی مسجد ہے، جو عربوں کے سندھ پر حملے سے کافی عرصہ پہلے نہ صرف تعمیر ہوئی، بلکہ اُن کے یہاں آ چکنے کے بعد تک بھی بسی رہی۔ حضورِ اکرم حضرت محمدِ مصطفیٰ احمدِ مُجتبیٰﷺ کے دور میں سندھ پر راجا داہر کے والد ”چچ“ کی حکومت تھی۔

آقاﷺ کے دور اور اُن سے پہلے والے ادوار سے ہی سندھ برگزیدہ اور پرہیز گار بندوں کی آماجگاہ رہی ہے۔ روہڑی، سیوستان (جسے آج سیوہن شریف کے نام سے پکارا جاتا ہے ) اور ٹھٹہ، زمانہء قدیم سے علم و ادب، دانش و عرفان کا محور و مرکز رہنے والے شہر تھے۔ یہ بات مستند کتابوں سے ثابت ہے کہ آقاﷺ کی جانب سے دعوت ِاسلام دیے جانے کے بعد دُنیا کے جو خطّے سب سے پہلے ”لبیک“ کہہ کر اسلام کے پیغام کو قبول کر کے اُس کی ترویج میں پیش پیش رہے، اُن میں سندھ، سرِ فہرست ہے، اِسی لئے تاریخ کے اوراق سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے کہ حضورﷺ کی سندھ کے ساتھ خاص رغبت اور محبّت تھی۔

اس ضمن میں متعدد احادیث بھی مروی ہیں۔ تاریخِ اسلام کی مشہور کتاب ”جمع الجوامع“ جو علامہ سیوطیؒ کی تصنیف ہے، میں آیا ہے کہ سرزمینِ سندھ وہ عظیم خطہ ہے، جس کی طرف حضور اکرمﷺ نے اپنی انگشت مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا کہ ”مجھے سندھ سے ہوا کے رستے خوشبو آتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ “ ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے اپنی جانب سے ایک خط صحابہء اکرام کے ہاتھوں سندھ کے باشندوں کی طرف ارسال کیا۔ صحابہ کی وہ جماعت اُس وقت سندھ میں نیرون کوٹ (موجودہ حیدرآباد) میں اسلام کا پیغام لے کر پہنچی، جن کی دعوت اور رسول خداﷺ کے پیغام پر وہاں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔

پانچ صحابہ کے اس وفد میں سے دو صحابہء اکرام اپنے اس دورہء سندھ سے واپسی پر کئی سندھی میزبانوں کو ساتھ لے کر مدینے پہنچے اور آقائے نامدارﷺ کے ساتھ اُن کو شرفِ ملاقات سے سرفراز کر کے صحابی کے رتبے پر فائز کیا اور سندھ کے وہ متعدد اللہ کے پیارے لوگ، اسلام کی دولت کے ساتھ ساتھ صحابی کے رُتبے کو بھی پانے کامیاب رہے۔ ان پانچ میں سے باقی تین صحابی سندھ میں رہ کر ہی تبلیغِ اسلام کرتے رہے اور انہوں نے اپنی آخری سانسیں سندھ ہی میں لیں۔ ایک روایت کے مطابق اُنہیں نیرون کوٹ کے قلعے میں ہی سُپردِ خاک کیا گیا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ سرزمینِ سندھ میں نیرون کوٹ (حیدرآباد) اور اُس کے گرد و نواح کے لوگ صحابہء اکرام کے کردار اور عظمت سے اس خطّے میں سب سے پہلے رُوشناس ہوئے۔

سندھ کے عظیم عالم اور تاریخِ اسلام کے عظیم محقق، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹویؒ اپنی کتاب ”بیاض ِہاشمی“ میں سند ہ کے دو صحابہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اُن کے علاوہ آج تک شکار پور کے قریب ”محبوب گوٹھ“ میں تین صحابہ، حضرت عمرو بن عبسہؓ، حضرت معاذ بن جہنیؓ اور حضرت عمرو بن عقتبہؓ کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ اُسی گوٹھ میں اُن تین صحابہ کے گھروں کے آثار بھی موجو د ہیں، گوکہ وہ گھر اب اپنی سالم حالت میں باقی نہیں رہے۔

یہ تین صحابہ، دس صحابہء اکرام کے اُس جماعت کا حصّہ تھے، جو افغانستان کے راستے سندھ میں تبلیغِ اسلام کی غرض سے آئی۔ حضرت معاذؓ (جو ان تین صحابہ میں سے ایک ہیں ) سے مروی حدیث، تاریخِ اسلام کی مشہورِ زمانہ کتاب ”فضائلِ اعمال“ کے اہم باب ”فضائلِ قرآن“ میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ جس امر سے حضرت معاذؓ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

سندھ کے ایک اور فاضل عالم، علامہ غلام مصطفی قاسمی نے مولانا حاجی احمد ملاح کی جانب سے کیے گئے قرآنِ پاک کے منظوم سندھی ترجمے کے مقدمے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ: ”میں دربارِ رسالت مابﷺ میں موجود تھا کہ وہاں پر دو وفود آئے۔ ایک افریقا سے اور دوسرا سندھ سے، جو دونوں حلقہء اسلام میں داخل ہوئے۔ “ معروف سندھی محقق مامُور یوسفانی نے اپنی ایک کتاب میں ضلع میرپورخاص کے تعلقہ جیمس آباد (جسے آج کل ”کوٹ غلا م محمّد“ کہا جاتا ہے۔ ) میں ایک صحابی کے مرقد کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے، جہاں ”اصحابُو“ نامی ایک دیہہ بھی ریوینیو ریکارڈ میں موجود ہے، جو اسی صحابی کے نام سے منسُوب بتائی جاتی ہے۔

یہ بھی ایک مضبوط روایت ہے کے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ایک خادمہ بھی سندَھن تھیں، جو صحابی کے رُتبہ پر فائز ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ”جندان“ نامی ایک زوجہ بھی سندھ سے تھیں۔ حضرت اسماء بنتِ ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ ”میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے محمدؒ کی ماں کو دیکھا، جو سندھن تھیں۔ “ اس کے علاوہ اُم المومنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہؓ کے سخت بیمار ہونے پر سندھ کے طبیب سے علاج کروانا، جس کا ذکر تاریخِ اسلام کے معروف تاریخ دان، امام محمدؒ کی کتاب ”موطا محمّد“ میں بھی آیا ہے، سندھ سے آقاﷺ کے مضبوط تعلق کی دلیل ہے۔ شہرِ علم کے دروازے، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا مستند قول ہے کہ: ”علم اور عرفان کا سورج سرزمینِ سندھ سے اُبھرا۔ “

معروف مورخ، ابنِ حبیب اپنی کتاب ”تصنیف المحبر“ میں لکھتے ہیں کہ آقاﷺ جب حضرت بی بی خدیجہ الکبریٰؓ کے بیوپار کی غرض سے ”دبا“ نامی ایک میلے میں پہنچے، تو وہاں آپﷺ نے سندھی لباس کو خاص دلچسپی سے دیکھا۔ یہ بھی ایک مضبوط روایت کے طور پر تمام صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ آقاﷺ کے دربارِ اقدس میں حاضر ہونے والے، سندھ سے تشریف لانے والے صحابیوں نے آپﷺ کے لیے سندھ کی مخصوص ثقافتی چادر ”اجرک“ کا تحفہ پیش کیا، جس کو آقائے نامدارﷺ نے اپنے شانوں مبارکوں پر رکھنے کا شرف بھی بخشا، بلکہ یہ بات بھی روایت میں آئی ہے کہ ”اجرک“ آپ کا مرغوب اوڑھاوا رہا۔

اُس دور میں یمن اور دیگر عرب ممالک میں سوتی کپڑا اور چادریں وغیرہ سندھ سے برآمد ہوتی تھیں، کیونکہ دریائے سندھ کا وجود صدیوں سے ہے اور اُس کے رستے سابقہ ”بحیرہء سندھ، (جس کو آج کل“ بحیرہء عرب ”کہاجاتا ہے ) ، کے توسط سے سندھ کا عراق، مشرقِ وُسطے ٰ اور مشرقِ بعید سے یورپ تک تجارت کا سلسلہ کم و بیش 7000 سال سے جاری ہے۔

ایک بار حضرت خالد بن ولیدؓ کی سربراہی میں بنو حارث قبیلے کا ایک وفد قبولِ اسلام کے لئی آپﷺ کے پاس آنے لگا تو آ قاﷺ نے اُنہیں دیکھ کر فرمایا:

”کانھم رجال الہند اوالسند“

(یعنی: ”یہ لوگ (شکلوں سے مشابہہ) جیسے ہند سے ہوں، یا پھر سندھ سے۔ “ )

حضرت محمّدﷺ اور اُن کے اہلِ بیت کی سندھ سے نسبت کے بیشمار حوالوں میں سے حضرت امام حسین ؑکا یہ حوالہ عالم آشکارہے، جس کا ذکر مصر سے شایع شدہ اہم کتاب ”معارف ابنِ قتیبیہم“ کے صفحہ نمبر 95 پربھی آیا ہے، کہ حضرت امام حسین ؑ کوجب ظالموں نے عراق آنے سے روکا تو آپؑ نے اُن سے فرمایا:

”ان لستم براضین بورود العراق فاتر کونی لاذہب الیٰ السند“

(یعنی: ”تم لوگ اگر میرے عراق میں آنے پر راضی نہیں ہو، تو پھر مجھے چھوڑ دو کہ میں سندھ چلا جاؤں۔ “ )

ایک بار صحابہ نے آنحضرتﷺ سے دریافت کیا کہ: ”کیا آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھاہے؟ “ تو آپﷺ نے فرمایا: ”جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام (دیکھنے میں ) ایسے ہیں، جیسے کوئی سندھ کا باشندہ۔ “ مشہور کتاب ”فقہائے ہند“ کے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ آقاﷺ کے دور میں ہند اور سندھ میں مجموعی طور پر 25 صحابہ تشریف لائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سندھ کے مختلف علاقوں میں متعدد صحابہ کے مراقد موجود ہیں۔

حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹویؒ اپنی کتاب ”قوۃ العاشقین“ کے صفحہ نمبر 2 پر تحریر فرماتے ہیں کہ (مفہوم) آپﷺ نے سندھ کے ساتھ اپنی رغبت اور محبّت کا اظہار ایک مختصر سندھی جملہ اپنی زبانِ اقدس سے ادا کر کے بھی کیا۔ وہ جملہ تھا: ”ادا! اورے آء! “ (ترجمہ: ”بھائی! یہاں آؤ! “ ) ۔

اس موضوع کے حوالے سے آقاﷺ، صحابہ اکرامؓ اور اہلِ بیتِ اطہار کے اتنے کثیر تعداد میں واقعات اور حوالہ جات ہیں، کہ اس موضوع پر ایک نہیں، متعدد کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، بلکہ سندھ کے حوالے سے ایسے اذکار، جو مختلف مستند کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں، یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے، جو اس دور کا تقاضا بھی ہے اور اسلام کی ترویج میں اہم کردار ادا کرنے والے خِطّوں کو ان کا صحیح مقام دینے کے حوالے سے ضروری بھی۔

سرزمینِ سندھ ہمیشہ سچ کی طرفدار رہی ہے، اسی لیے جب انسانیت کا علمبردار اور امن کا حامی مذہب اسلام پھیلا، تو سرزمینِ سندھ اُس کی تائید کرنے والے خطوں میں سرِ فہرست رہا، اسی لئے آقاﷺ اور سندھ کے تعلق کو نہ ہی جھٹلا یا جا سکتا ہے، اور نہ شاید مکمل گہرائی کے ساتھ اُس کا ادراک ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).