یہ جو نامعلوم ہیں۔ سب کو معلوم ہیں!


کچھ روز قبل۔ کل کی صحافت کے عنوان پر منعقد کی گئی ایک پینل ڈسکشن میں سوال کرنے کا موقع ملا۔ بچپن سے ہی ایک عادت رہی ہے کہ جہاں اختلافِ رائے ہو اس کا اظہار وہیں کردیتا ہوں۔ پینل میں نامور صحافی حضرات موجود تھے اور بطور ایک طالبعلم میں نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھ دیا۔ سوال تھا اس صحافتی معیار پر جو بلوچوں کے حقوق پر کچھ نہیں لکھتا، جو مسخ شدہ لاشوں پر کچھ نہیں لکھ پاتا، جو وزیرستان کے مسائل کو قلم کے دزیعے اجاگر نہیں کرپاتا۔ درحقیقت یہ سوال ان نامعلوم افراد پر مبنی تھا جو سب کو معلوم ہیں۔ جن کا علم ایوان میں بیٹھے تمام باشعور لوگوں کو بھی تھا اور پینل میں بیٹھے صحافیوں کو بھی۔

بہر حال خدا خدا کر کے صحافیوں نے اپنا جواب مکمل کیا۔ 01 گھنٹہ طویل پینل ڈسکشن ختم ہوئی اور ایک شخص جو ایوان میں موجود تھا میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے اور میں ایسے تمام تر حقائق سے واقف ہوں جن کا تذکرہ ابھی آپ نے کیا لیکن یہ سب کو نہیں معلوم۔ میں کیونکہ ان حضرت کو نہیں جانتا تھا تو ایسے سنگین موضوع پر گفتگو کس طرح کرتا؟ میں نے بس اتنا کہہ کر بات ختم کردی کہ جناب یہ جو نامعلوم ہیں، سب کو معلوم ہیں۔

ٓاس ملک کو وجود میں آئے 72 برس بیت گئے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک جو نامعلوم افراد ہیں وہ معلوم نہیں ہوسکے۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک، حسن ناصر کی پراسرار موت سے لے کر نواب اکبر بگٹی تک، ماما قدیر سے لے کر صبا دشتیاری تک، فرزانہ بلوچ سے لے کر پروین رحمان تک، حامد میر کے قتل کے سازش سے لے کر سلیم شہزاد تک اور سبین محمود سے لے کر عدیلہ سلیمان کی آرٹ ایگزیبیشن کو روکنے تک، ہمیشہ ایک ہی بیان سامنے آتے رہا ہے کہ ان تمام تر چیزوں کے ذمہ دار نامعلوم افراد ہیں۔

یہ تمام تر لوگ جن کا نام ابھی میں نے لیا رضیہ بھٹی کی طرح سچ کے ایسے جوگی سپیرے تھے جن کا کام صبح سے شام تک ساپنوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنا تھا شاید یہ سانپ وہی نامعلوم افراد ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہزاروں ایسے افراد ملیں گے جو رات کی تاریکی میں اندھی گولیوں کا شکار بنے۔ ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن پر پہلے تشدد کیا گیا اور پھر ان کی لاشوں کو مسخ کر کے پھینک دیا گیا۔

اب آپ صبا دشتیاری کو ہی لے لیں ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ صبا دشتیاری کوئٹہ یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے اور اکثر بلوچوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہتے تھے۔ 2011 میں وہ صبح سویرے سیر کے لیے نکلے اور اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہی نہیں جب حامد میر نے ماما قدیر کو اپنے پروگرام میں دعوت دی اور وہ پروگرام جب نشر ہوگیا تو اس کا انجام حامد میر کو لگنے والی 6 گولیوں کی صورت میں سامنے آیا۔

ایسے ہزاروں واقعات ہیں اور ہر بدلتے دن ایک نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ سبین محمود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے ماما قدیر کو اپنے کیفے t 2 f میں دعوت دی۔ گمشدہ بلوچوں کے حقوق پہ طویل گفتگو ہوئی لیکن انجام تھا اندھی گولیاں۔ سبین محمود باہر نکلیں اور ان کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ ہمیشہ کی طرح نام لگا نامعلوم افراد پر۔

ٓآخر یہ نا معلوم افراد کون ہیں؟ کیا یہ نا معلوم افراد وہ ہیں جنہوں نے لیاقت علی خان کو قتل کیا تھا؟ کیا یہ نا معلوم افراد وہ ہیں جنہوں نے حسن ناصر کو قتل کیا یا وہ جنہوں نے ایوب کرمانی کو قتل کیا جو افسر ِ اطلاعات تھے اور جن پر حسن ناصر کے قتل کی خبر لیک کرنے کا ا الزام تھا۔ کیا یہ نا معلوم افراد وہ ہیں جنہوں نے اکبر بگٹی کو قتل کیا یا وہ جنہوں نے نذیر عاسی اور صحافی سلیم شھزاد کو قتل کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مقصود قریشی کو زندہ جلایا تھا۔ دراصل یہ سانپ ہیں وہ سانپ جسے ان کے مالک نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا تھا لیکن سانپ کی فطرت ہوتی ہے ڈسنا اور ان سانپوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔

ان نامعلوم افراد کا پیغام ہمیشہ سے واضع رہا ہے کے ہم سے مقابلہ مت کرو۔ ہماری غیر قانونی سرگرمیوں پر آواز مت اٹھاؤ ورنہ لقمہ اجل بن جاؤ گے۔ جب جب ان نا معلوم افراد کے خلاف کسی نے آواز بلند کی ہے یا ان کی سرگرمیوں پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے تو اس کا انجام ایک ہی ہوا ہے۔

کچھ دن قبل عدیلہ سلیمان کی آرٹ ایگزیبیشن کو بھی محض اس لیے روک دیا گیا کے وہ ان 444 قتل عام کے واقعات کو اجاگر کر رہیں تھی جو ماورائے عدالت کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر قتل ملک و قوم کے بہادر بچے راؤ انوار نے کیے۔ جب عدیلہ سلیمان نے یہ جرت کی اور ان سانپوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالا تو نامعلوم سانپوں نے اس آرٹ ایگزیبیشن کو روک دیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ عدیلہ سلیمان نے جو علامتی قبریں بنائی تھیں وہ درحقیقت اس بیانیہ کو دفن کرنے کے لئے تھیں جو سچ کو اجاگر کرنے سے روکتا ہے۔

افسوس کہ اس ملک کے اندر یہ نامعلوم افراد اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے اور یہ اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک ان کو ان کے برابر کی قوت کا سامنا نہیں ہوتا پھر چاہے وہ قوت عوام کی ہو یا حکمرانوں کی، سول سوسائٹی کی ہو یا انسانی حقوق کی تنظیموں کی۔ اس تمام تر میں ایک بات تو بہت واضع ہے کہ یہ تمام لوگ بھی خائف ہیں پھر چاہے اس کی وجہ ڈر ہو یا ذاتی مفاد۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن ایک بات تو اب بالکل واضع ہے کہ ان کا علم سب کو ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس بلاگ کے بعد میرے ساتھ کیا ہوگا۔ میری لاش بوری میں بند ملے گی یا مسخ کرکے پھینک دی جائے گی۔ اندھی گولیوں کا نشانہ بنوں گا یا اغواء کر لیا جاؤ ں گا۔ ہوسکتا ہے مجھے اٹھاکر کہیں باڈر کے قریب پھینک دیا جائے اور کوئی صاحب آکر کہیں کے۔ توسی لکھدے ہو، لکھو ہون لکھو! انجام چاہے کچھ بھی ہو سچ کا سفر جاری رہی گا اور پھر جب میرے قتل کا الزام بھی نامعلوم افراد پر لگے گا تو کوئی اور سچ کا راہی یہ لکھنے پر مجبور ہوجائے گا کہ یہ جو نامعلوم ہیں! سب کو معلوم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).