سندھی کہانی:مُجاور


تخلیق : حسن منصور

ترجمہ: شاہد حنائی (کویت)

اسے شہر کی روشنیاں اچھی لگتی تھیں۔ وہ یہاں بہت خوش تھی جب اس کے خیرخواہوں نے خبردار کیا کہ شہر پر خطر ہو چکا ہے اور اس کی زندگی کے لیے خطرات بڑھ چکے ہیں۔ تو وہ ششدر رہ گئی اسے گمان تک نہ تھا کہ اس کی زندگی خطرات سے کیوں دوچار ہے۔ وہ تو بس اپنی ایک عزیز ترین شے کھو بیٹھی تھی اور اسی کی تلاش میں مصروف تھی۔ گم شدہ شے جو اس سے اَن جانے میں چھن گئی تھی وہ اس شے کی تلاش میں تھی۔ عین اسی وقت محافظوں نے اسے بتایا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے اور اس کی زندگی ملک و قوم کے لیے انتہائی قیمتی ہے۔

اسے اپنی عزیر ترین شے کی تلاش تھی اور وہ چاہتی تھی کہ وہ اس وقت تک شہر نہ چھوڑے، جب تک وہ مطلوبہ شے کو پا نہ لے۔ ایک روز چند محافظ اس کے پاس آئے، ان میں وہ بھی شامل تھا جس پر اسے شک تھا کہ اس نے ہی اس کی عزیز ترین شے چھینی ہے۔ ایک محافظ آگے بڑھتے ہوئے بولا : ”یہ شہر آپ کے واسطے خطرناک ہو گیا ہے۔ ہم آپ کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ “

وہ خاموش، چپ سادھے ان کو تکتی رہی۔ پھر وہ محافظ جس نے اس کی عزیز ترین شے چھینی تھی اس کے سامنے آکر بولا: ”یہ ضروری ہے کہ آپ کو شہر کے بڑھتے ہوئے خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ “ وہ دانت بھینچتے ہوئے انھیں گھورتی رہی، محافظ کہنے لگا: ”آپ کی زندگی قوم کے لیے نہایت اہم ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ قوم کے عظیم تر مفاد میں محفوظ رہے۔ “

وہ محافظ کو دیکھتی رہی اس کی آنکھیں بولیں : ”جو چیز تم نے چرائی ہے وہ میرے واسطے نہایت بیش قیمت تھی۔ “

وہی محافظ کہنے لگا: ”آپ قوم کا سرمایہ ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ قوم اس سرمائے سے محروم نہ ہو۔ “

اس نے دل میں سرگوشی کی: ”مَیں سرمایہ ہو ں اور تم سرمایہ دار! “ اس کی آنکھوں میں سوالیہ نشانوں کے انبار تھے وہ محافظ کو تکتی رہی۔

” ہم آپ کو کسی محفوظ مقام پر لے جانا چاہتے ہیں۔ “ محافظ نے کہا۔

” مَیں اپنی ایک عزیز ترین شے کی تلاش میں ہوں۔ “ اس کے ہونٹ پہلی دفعہ بولے۔

محافظ کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ عود کر آئی: ”مَیں اپنی عزیز ترین شے کی تلاش میں ہوں جو مجھ سے میری بے خبری میں چھین لی گئی ہے۔ “ اس نے اپنا مدعا پھر دہرایا۔ اس نے غصیلی نگاہوں سے محافظوں کو دیکھا جو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ محافظ اس کی بات سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھ رہے۔

”کیامَیں انکار کر سکتی ہوں۔ “ اس نے محافظوں کی آنکھوں میں جھانکا: ”کیا مجھے یہ حق حاصل ہے کہ مَیں نہیں کہوں اور وہ مان لیں۔ “

”آپ کو پتا ہے اگر کہیں سب سے زیادہ شہری آزادی کا تصور ہے تو ہمارا ملک ہے۔ “ پہلے محافظ نے کہا۔

”بلا شبہ! “ دوسرے محافظ نے تائید کی: ”کوئی شک! خدا کا شکر ہے کہ ہم دنیا کے سب سے زیادہ آزاد شہری کی حیثیت میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہمیں آزادی کی نعمت دلانے کی خاطر ہمارے اکابرین نے کتنی لازوال قربانیاں دی ہیں۔ “

قربانی کا لفظ سنتے ہی جانے کیوں وہ چونک پڑی۔

محافظ نے مزید کہا : ”ا ورہماری یہ بے مثال آزادی اس وقت تک برقرار ہے، جب تک ہمیں قوم کا عظیم تر مفاد ہر چیز سے زیادہ مقدم ہے۔ “

”کیا مَیں انکار کر سکتی ہوں؟ “ اس نے پھر جاننا چاہا۔

”جی ہاں! بالکل! کیوں نہیں۔ “ محافظ نے مژدہ سنایا: ”آپ ضرور انکار کر سکتی ہیں لیکن قوم کے ان دُشمنوں سے جو ہمارے عظیم تر مفادات کے خلاف ہیں۔ “

”قوم کے عظیم تر مفادات کی مخالفت کرنا گویاقوم کے دیگر افراد کی آزادی سے کھیلنا ہے اور یقینا آپ ایسا نہیں کریں گی۔ “

” مَیں اپنی ایک عزیز ترین گم شدہ شے کی تلاش میں ہوں۔ “

”آپ کو ہماری عظیم قیادت پر ایمان لانا چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ آپ کی شے ڈھونڈ نکالنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھے گی۔ “

اس کی آنکھیں مکڑی کا جال بن گئیں۔ وہ بولی: ”مَیں نہیں سمجھتی کہ میری زندگی کو کوئی خطرہ درپیش ہے۔ “

” یہ آ پ نہیں سمجھ سکتیں۔ “ محافظ نے وضاحت کی: ”لیکن ہم ایساسمجھتے ہیں اور آپ کو ہم پر اعتماد کرنا چاہیے۔ “

وہ چپ ہو گئی اور پھر کئی روز خاموشی اوڑھے رہی۔ وہ جان ہی نہیں پائی کس طرح وہ شہر سے ایک غار میں آپہنچی تھی۔ کئی دن گزر گئے وہ اسی غار میں تھی جس میں کوئی دریچہ تھا نہ کوئی روشن دان دکھائی دیتا تھا۔ آمد ورفت کے لیے ایک دروازہ تھا جو اکثر بند رہتا اور باہر ہر وقت وہی محافظ موجود رہتے۔ غار کے اندر بلب کی روشنی اور ائر کنڈیشنر کی ٹھنڈک تھی۔ نرم و گداز قالین اور ایک عدد ٹیلی ویژ ن بھی تھا۔ جس پر ہمیشہ بڑے گائیکوں کے ملی نغمے سنائی اور دکھائی دیتے۔

ٹیلی ویژن کا کوئی بٹن نہیں تھا اور ریموٹ محافظوں کے پاس رہتا۔ ٹیلی ویژن ہمیشہ آن ہی رہتا۔ آج جب ایک محافظ میوہ جات اور ناشتے سے بھری ٹرے لے کر آیا۔ اس نے پوچھا : ”کیا یہ ٹیلی ویژن بند نہیں ہو سکتا؟ “ محافظ نے چونک کر اسے دیکھا اور کہنے لگا: ”آپ کو دل میں قومی ولولہ پیدا کرنے والے یہ گلوکار پسند نہیں ہیں؟ “

وہ بوکھلا کر بولی: ”پسند ہیں۔ “

” پھر سنتی رہیے نا! “

” مَیں کچھ سوچنا چاہتی ہوں۔ “

” آپ فکر کیوں کرتی ہیں؟ ہم ہیں نا سوچ بچار کے لیے۔ “

محافظ ٹرے رکھ کر چلا گیا وہ ٹرے کو دیکھتی رہی اور کافی دیر اپنی گم شدہ شے کی بابت غور کرتی رہی۔ پھر وہ اچانک اُٹھی اور ٹرے ٹیلی ویژن کی سکرین پر دے ماری۔ سکرین ایک دھماکے کے ساتھ چکنا چور ہو گئی۔ سکرین کے ریزے اور ٹرے میں پڑے خوردونوش کے لوازما ت کمرے میں بکھر گئے۔ بند دروازے کے باہر دوڑتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ کچھ ہی دیر میں دھڑسے دروازہ کھل گیا۔ چار محافظ اندر گھس آئے۔ انھوں نے ٹوٹا ہوا ٹیلی ویژن اور بکھری ہوئی اشیا دیکھ کر اسے گھورا۔ وہ پلنگ پر سمٹی بیٹھی تھی اور سہمی سہمی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ایک محافظ اس کے رُو بہ رُو کھڑے ہو کر پوچھنے لگا : ”آپ نے اس قدر قیمتی ٹیلی ویژ ن توڑ ڈالا! آخر کیوں؟ “

”اس میں کوئی بٹن نہیں ہے، جس سے آف کیا جا سکے۔ “

”لیکن آپ اسے آف کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ اتنے بڑے بڑے گلوکاروں کو سننا کیوں نہیں چاہتیں؟ “

” مَیں کچھ سوچنا چاہتی ہوں۔ “

”یہ کام آپ کا نہیں ہے، اس کے لیے ہمارے پاس کافی لوگ موجود ہیں۔ “

دوسرا محافظ جس پر اسے شک تھا کہ اس نے اس کی عزیز ترین شے چرائی ہے۔ وہ اس کے سامنے آکر کہنے لگا: ”آپ کی اس حرکت سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو ملک کا عظیم تر مفاد عزیز نہیں ہے۔ “ وہ دانت بھینچے اسے دیکھتی رہی۔

” ہم نے آ پ کی زندگی بچا کر اتنی آرام دہ جگہ پر رکھا مگر آپ نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ “

پھر اسے پتا ہی نہیں چلا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ کتنا وقت اپنے آپ سے بے خبر رہی اور کہاں رہی؟ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ہڈیوں کی شکل میں قبر میں موجود پایا۔ اسے گمان گزرا کہ اس کا دکھائی دینے والا وجود قبر پر پڑی منوں مٹی سے باہر نکل سکتا ہے۔ وہ ہڈیاں قبر میں چھوڑ کر باہر نکلی تو اس کی چیخ نکل گئی۔

اس نے دیکھا کہ وہی محافظ جس نے اس کی عزیز ترین شے چھین لی تھی۔ وہی اس کے مقبرے کا مُجاور بنا بیٹھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).