کرتار پور کے بعد مزید راہ داریوں کے نامراد منصوبے


چلیے ایک راستہ کھلا۔ ایک راہداری ہے جو خاردار سرحد کے آر پار ہے۔ دو طرف دشمن بندوقیں اور توپیں لیے کھڑے ہیں پر راہداری میں دمکتے چہروں والے سکھ بے خوف ہیں۔ ستر سال پہلے ہوئے کتنے ہی قتل عام ، کتنی ہی عورتوں کا ریپ، کتنی ہی املاک کی تباہی سب اس راہداری میں پھیلی محبت میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا ہے، سب کی نگاہیں آگے کا منظر دیکھنے میں محو ہیں۔  اچھا ہے کہ یہ پرامن ، پر سکون ، دل جو اور دلکش راہداری نفرتوں کی زمیں پر ایک جزیرے کی صورت بن گئی ہے۔

لگے ہاتھوں کچھ اور راہ داریاں بھی بنا دی جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

ایک راہداری ایسی ہونی چاہیے جس پر سفر کرتے خاندان کو یہ یقین ہو کہ راہ میں انہیں روک کر جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی نہیں کر دیا جائے گا

ایک راہداری وہ ہونی چاہیے جس پر قدم دھرنے کے بعد پطرس مسیح مطمئن رہے کہ کوئی اسے اپنے ہی عم زاد سے بدفعلی پر مجبور نہیں کرے گا

ایک وہ راہداری بھی ہونی چاہیے جس پر کوئی ایسا بھٹہ نہ ہو جہاں ایک جوان جوڑے کو محض الزام پر بھڑکتی ہوئی بھٹی میں جلا دینے کی روایت ہو۔

ایک راہ داری وہ جس پر رمشا مسیح کو قاری خالد کا ڈر نہ ہو اور آسیہ مسیح کو قاری سالم کا خوف نہ ستاتا ہو۔ جنید حفیظ کو اپنے ہی شاگردوں سے اندیشہ نہ ہو۔  جہاں کوئی سلمان تاثیر کسی قاری حنیف کی شعلہ بیانی پر جان نہ کھوتا ہو۔  جہاں الزام لگانے والا بھی اسی کٹھالی سے گزرے جس سے ملزم کو گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں سر اتارنے کے نعرے کو محبت کی تمثیل نہ بتایا جاتا ہو

ایک ایسی راہ داری جس میں مقدمے کا فیصلہ ہونے کا وقت ملزم کی عمر سے زیادہ نہ ہو۔ جہاں منصف سہمے ہوئے نہ رہتے ہوں۔ جہاں وکیلوں کو قتل کرنے کی کوئی تاریخ نہ ہو

اس راہداری کے بارے میں کیا خیال ہے جہاں طالب علم محض علم کے متلاشی ہوں، اپنے ہی ساتھ پڑھنے والے کی زندگی چھیننے اور لاش کی بیحرمتی کے دلدادہ نہ ہوں

کیوں نہ ایک راہداری ایسی ہو جہاں قتل، ریپ اور غفلت سے ہوئے حادثوں کی قیمت لگانے کا رواج نہ ہو

ایک راہداری ٹیٹوال کے آر پار ہو۔ سنا ہے عمارت سے زیادہ محبت انسانوں سے کرنی چاہیے۔ ادھر کے کشمیر اور ادھر کے کشمیر کے بیچ ایک ملاپ کی راہداری ہو تو اس محبت کا کوئی فسانہ لکھا جائے۔ ورنہ تو بس “ٹیٹوال کا کتا” ہی کشمیر کی کہانی بیان کرتا رہے گا۔

ایک راہ داری رواداری کی بھی ہو جس پر بنے مسجد ، مندر اور کلیسا کو کسی توڑ پھوڑ کا خدشہ نہ ہو۔ کہیں اور ہوئے ایک غلط قدم کی قیمت اس راہ داری پر بنی عبادت گاہیں نہ چکائیں

اس کے ساتھ ساتھ وہ راہ داری بھی ہو جہاں عقیدے کی پرکھ کی بنیاد پر طرز تعمیر کے فیصلے نہ ہوں۔ جہاں قبر کے کتبے پر سیاہی نہ پھیری جائے ۔ جہاں عمارت کی پیشانی پر لکھے کلمے کو کوئی نہ مٹائے اور جہاں عقیدے کا اختلاف روز نفرت کی فصل نہ اگاتا ہو۔

ایک راہداری ایسی بھی ہو جس پر کوئی ایسا گونر فارم نہ ہو جہاں مسافروں کو بسوں سے اتار کر ان کی کمر کے نشان دیکھ کر گردن اتارنے کی کوئی مثال نہ مل سکے

ایک راہداری صرف ان بچیوں کے لیے ہو جہاں کوئی زورآور انہیں اٹھا کر اپنے مذہب کا کلمہ پڑھنے پر مجبور نہ کرے

ساتھ ساتھ وہ راہداری بھی ہو جس پر کچھ اور بچیاں اپنا بچپن جی سکیں۔ جوان ہونے سے پہلے ہی کوئی ان کا سودا کبھی سوارہ ، کبھی ونی اور کبھی شادی کے نام پر نہ کرسکے۔ کوئی تو ایک جزیرہ ہو جہاں ایک لڑکی کی زندگی اس کی اپنی زندگی ہو

ایک راہ داری وہ ہو جہاں بات بات پر شناخت پوچھنے کا رواج نہ ہو۔ جہاں زبان کی بنیاد پر تفریق کرنے کی رسم نہ ہو اور جہاں خدوخال سے کسی کی نیت کا تعین نہ ہو۔

ایک راہداری وہ ہو جہاں عورت کی مرضی کا وزن اتنا ہی ہو جتنا مرد کی مرضی کا

ایک راہ داری ایسی بھی جہاں تاریخ کے نام پر جھوٹ، مذہب کے نام پر نفرت اور سائنس کے نام پر عقیدہ نہ پڑھایا جاتا ہو

بلوچستان میں ایک راہ داری ہو جہاں پنجابی مزدور بھی اتنا ہی محفوظ ہو جتنا بلوچ قوم پرست۔ جہاں کسی کو اٹھائے جانے کا خطرہ نہ ہو ، کسی کو بے گناہ مارے جانے کا خدشہ نہ ہو۔ اسی بلوچستان میں ایک اور راہداری ہو جہاں ہزارہ کھلی فضا میں زندہ رہ سکیں۔ جہاں کبھی کسی ماں کو ٹھندی سڑک پر اپنے بیٹے کے لاشے کے ساتھ احتجاج کی رات نہ گزارنی پڑے

خیبر پختونخوا میں ایک راہداری ہو جہاں جیٹ طیارے کبھی بمباری نہ کریں۔ جہاں عقیدے کی تشریح کے نام پر سروں سے فٹ بال نہ کھیلا جاتا ہوں۔ جہاں گھروں کے مکین گھروں سے دربدر نہ ہوتے ہوں، جہاں سب کو بات کرنے کی برابر آزادی ہو، جہاں سب کی بات سننے کا حوصلہ ہو

سندھ میں ایک راہداری ہو جہاں ایسے جوہڑ نہ ہوں جن پر انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور ہوں۔ جہاں کسی نے گیسٹرو کا نام نہ سنا ہے۔ جہاں سندھو دریا میں اب بھی پانی بہتا ہو ۔ جہاں سمندر زمین کو نہ کاٹتا ہو اور جہاں زبان کی تفریق پر دل سیاہ نہ ہوتے ہوں۔ جہاں سیاست انسان کے لیے ہو، انسان سیاست کے لیے نہ ہوں

پنجاب میں تو ایک راہداری بن گئی ہے پر کتنی اور راہ داریوں کی ضرورت ہے۔ ایسی راہ داری جس میں سرائیکی وسیب بھی اتنا ہی اہم ہو جتنا تخت لاہور ہے، جنوب میں ایسی  راہداری جس میں دہشت گرد تیار کرنے کی کوئی فیکٹری نہ ہو۔ ایسی راہ داری جس میں زمین اس کی ہو جو اس میں محنت کرے۔ ایسی راہ داری جہاں قانون کی وردی خوف کی علامت نہ ہو۔ ایسی راہ داری جہاں سیاسی شعور کی آبیاری ہو ۔ ایسی راہ داری جہاں سجدے اور قیام کے وقت کا درست تعین کرنا ممکن ہو۔

کشمیر کی ایک راہداری کی تمنا تو بیان ہو گئی پر بات کیا اتنی سی ہے۔ ایک راہ داری وہ بھی بنا دیجیے جہاں دریاؤں کا پانی سوکھتا نہ ہو۔ ایک راہ داری وہ بھی جہاں کشمیریوں کی بات کشمیر کی بات سے زیادہ اہم ہو۔ ایک راہداری وہ بھی جہاں آزادی کا مطلب آزادی ہی ہوتا ہو

گلگت بلتستان میں پہاڑوں کے بیچ درے راستہ بناتے ہیں ۔ انہی راستوں میں ایک راہ داری وہ ہو جہاں منہ کھول کر بات کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے بڑا تحفہ انہیں دینا ممکن نہیں ہے۔ دل کرے تو ایک راہداری وہ بھی بنا دیجیے جہاں حقوق کی تعریف گلگتی، ہنزائی اور بلتستانی خود طے کر سکیں

آخر میں بس ایک راہداری ایسی ضرور بنا دیجیے جہاں ہر ایک وہ کام کرے جو اس کے کرنے کا ہے۔ جہاں حدود آرڈیننس ہوں یا نہ ہوں پر حدود متعین ضرور ہوں۔ جہاں لوگ “جس کا کام اسی کو ساجھے، دوجا کرے تو ٹھینگا باجے” کا ورد کرتے ہوں۔ تاکہ سچ مچ اس ملک میں عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور  عوام سے ہی ہو۔

خواہشیں اپنی جگہ پر آخر میں ن م راشد کے تین مصرعے سن لیجیے کہ اس سے بہتر اپنی حالت کا بیان ممکن نہیں

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

ریگ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے

سایہ ناپید تھا سائے کی تمنا کے تلے سوتے رہے

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad