دو دھرنوں کا تہذیبی تضاد


بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک نوجوان راولپنڈی میں چوری چکاریوں کی وارداتوں میں ملوث تھا اور دوسرا نوجوان پشاور میں ایک لوکل ویگن کا کنڈیکٹر تھا جب کہ ان کے باقی ساتھی بھی اوّل الذکر کی مانند کسی کار آمد کام کی بجائے معاشرے کا بوجھ ہی تھے ان کی تعداد درجن بھر تھی اور ان کے عقب میں چند ماڈرن لڑکیاں پارٹی کی ٹوپیاں پہنے اور چہروں پر مختلف رنگوں کی پینٹنگز بنائے تالیاں اور سیٹیاں بجاتی رہیں۔ جوں ہی پولیس کا انتہائی پروفیشنل اور ایماندار افسر عصمت اللہ جونیجو آگے بڑھا اور انہیں مہذب انداز میں کہا کہ روڈ کو خالی کردیں تاکہ ٹریفک کی روانی میں خلل نہ پڑے۔

یہ الفاظ ابھی اس کی زبان پر ہی تھے کہ چوری چکاریوں اور کنڈیکٹر کے پیشوں سے وابستہ معمارانِ تبدیلی اس شخص پر ٹوٹ پڑے جس نے اپنی شاندار اکیڈیمک ریکارڈ اور شدید محنت کے بعد سی ایس ایس کے امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کی تھی اور پھر ڈنڈے لاتیں اور مُکّے چلتے رہے اور پیچھے کھڑی ٹوپی پوش لڑکیاں تالیاں اور سیٹیاں بجا کر داد دیتی رہیں اس موقع پر ہر لڑکا ہیرو بنے کے چکر میں تھا اس لئے سب کی ”کارکردگی“ انتہائی شاندار رہی اور یہی وہ کارکردگی تھی جس نے نہ صرف ہماری تہذیب کے بخئیے اُدھیڑ کر رکھ دیے بلکہ آج پاکستان جس حالتِ نزع میں ہمارے سامنے موجود ہے وہ اسی چوری چکاری، کنڈیکٹر اور ٹوپی پوش تہذیب ہی سے پھوٹا۔

پھر کون سا مخالف تھا جس کے خاندان کو بد ترین گالیاں نہیں دی گئیں؟ کون سا حریف تھا جسے بے غیرت، چور، ڈاکو اور لٹیرا نہیں کہا گیا۔ کون سا فرض شناس تھا جسے بخشا گیا، کون سا ذمہ دار تھا جسے پھانسی تک کی دھمکی نہیں دی گئی حتٰی کہ ایک مشہور ٹی وی چینل سے وابستہ ایک نہتی رپورٹر (مزدور ) لڑکی کو گھیر لیا گیا اور اس پر پتھروں اور بوتلوں کی بارش کے ساتھ ساتھ غلیظ گالیاں بھی دی گئیں، اس لڑکی کے آنسو ٹی وی سکرینوں پر ان لوگوں نے ایک بے بسی کے ساتھ دیکھے جو صدیوں سے چلے آتے تہذیب اور روایتوں میں ماں بہن کے مقام سے واقف تھے۔

کنٹینر کے اُوپر کھڑا اس مجمعے کا لیڈر ایک اجنبی تہذیب کا پروردہ اور عجیب پس منظر کا حامل تھا وہ ایچی سن جیسے ایلیٹ کلاس ادارے میں پڑھا اور انگلستان کی راہ لی جہاں ساری عمر کرکٹ کھیلتا اور شہرت سمیٹتا رہا وہ زندگی بھر اپنے بزرگوں کے غصے اور پیار کے ذائقوں سے محروم رہا کسی چوپال اور حجرے میں بیٹھ کر بڑوں کی گفتگو سننے اور سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ کوئی جنازہ پڑھا، نہیں؟  اور کسی کو قبر میں اُتارا، نہیں؟ کبھی ناراضگی یا گلے شکوے سے واسطہ پڑا، نہیں؟ بچوں کی شکایت دروازے پر کبھی آئی، نہیں؟ ہمسائے سے کبھی تعلق بنایا، نہیں؟ ناراض دوست کو کبھی منایا، نہیں؟ سو جوں ہی اسے ایک نادان خلقت اور ”سازگار حالات“ میّسر آئے اور وہ کنٹینڑ پر چڑھا تو اپنی بے خبری اور لا پرواھی کے سبب صدیوں سے چلے آتے روایات کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔

اور پھر سماج سے لے کر سیاست اور پارلیمنٹ سے لے کر پولیس تک کوئی بھی اس کے دست برد سے محفوظ نہیں رہا، تاہم جو اس کا ساتھی بنتا اس کے سو گناہ پل بھر میں معاف ہو جاتے۔ بدقسمتی سے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا تاریخ اپنی اوراق میں محفوظ کرچکا جس نے نہ صرف ایک شائستہ تہذیب پر غلاظت انڈیل دی بلکہ اس جمہوریت پر شب خون بھی مارا جسے آگے چل کر اس وطن کے کروڑوں خاک نشینوں کے دروبام پرثمر بار موسم لانے تھے۔ اور ہاں ایک دھرنا یہ بھی ہے!

لیکن سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نہ تو سیاسی حوالے سے کبھی میرے لئے کوئی دیوتائی کردار ہے اور نہ ہی اُمید کا استعارہ بلکہ وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی مانند محض ایک سیاستدان ہی ہے جو ہمیشہ اپنے اختیار اور اقتدار کے لئے ہی لڑتا ہے۔ یہ الگ بات کہ حالات کے جبر نے اسے قدرے باغیانہ سیاست کی طرف دھکیل دیا۔ تاہم اس وقت چونکہ دھرنا ہی ہمارا موضوع ہے اس لئے اسی طرف پلٹتے ہیں۔ مولانا فضل الزحمٰن کا تعلق پختون خواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے وہاں ان کا ایک بڑا مدرسہ بھی ہے اور وہاں مختلف علاقوں سے آئے طالبعلم دینی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مولانا اور اس کے گھر کے دوسرے افراد ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں سے انتخاب میں حصہ بھی لیتے ہیں اور مولانا بذات خود عام لوگوں سے رابطے میں بھی رہتے ہیں اسی سبب وہ اس معاشرے کی روایات اور سماجی مزاج سے گہری واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ عام لوگوں کے ہاں جنازہ اور فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں اور ولیمے میں شرکت بھی کرتے ہیں، عزیز و اقارب کے گھروں میں بھی جاتے ہیں، بیمار پرسی بھی کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں اور ووٹروں کے حجروں، دکانوں اور دفتروں میں بھی حاضری دیتے ہیں، ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا کے دھرنے میں وہ زبان اورکلچر دکھائی نہیں دیتے جسے عمران خان اس معاشرے میں ایک اجنبیت کے ساتھ متعارف کرا چکے تھے بلکہ مولانا کے دھرنے پر وہ تہذیب ایک تفاخر کے ساتھ حاوی ہے جو صدیوں سے ہماری سماجی زندگی کا لازوال حسن ہے۔ پچھلے دنوں اسی طرح کی ایک مزدور لڑکی (صحافی ) جو ایک ٹی وی چینل سے وابستہ ہے اپنی رپورٹنگ کے لئے دھرنے میں پہنچی تو شدید بارش اور تیز ہوا کے سبب اس کا دوپٹہ سر سے بار بار سرک رہا تھا کہ دھرنے میں موجود مولانا کا ایک کارکن بھاگتا ہوا آیا اور ایک بھائی کی مانند بڑی سی چادر اس لڑکی کو اوڑھا کر چلا گیا۔

میں نے قدرے جذباتی انداز میں وہ ویڈیو دیکھی تو اس کے عقب سے صدیوں پر پھیلی ایک شاندار لیکن جانی پہچانی تہذیب جھانک رہی تھی۔ ایک اور منظر میں ڈیوٹی پر مامور پولیس والے دھرنے میں موجود ایک کارکن کے پیچھے با جماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ نہ ان پر ڈنڈے اور مکے برس رہے ہیں نہ ان کے جسم لہو لہان ہیں۔ اس دھرنے میں عمران خان کے دھرنے کی نسبت کئی گنا زیادہ لوگ موجود ہیں لیکن نہ شائستگی چھوٹی اور نہ نظم و ضبط ٹوٹا یہاں تک کہ کٹر مخالفین بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

مولانا حسب معمول عمران خان کی مانند سر شام کنٹینر پر نمودار ہوتا ہے اور مائیک ہاتھ میں لیتا ہے لیکن نہ زبان وہی نہ طعنہ و دشنام وہی نہ کسی کو چور، ڈاکو بولا نہ کسی کی پگڑی اُچھالنے پر آئے گو کہ ان کا سیاسی سٹینڈ سخت گیر اور غیر لچکدار ہے لیکن اس نے نہ کسی ”ایمپائر“ کو اپنے سیاسی بیانئے میں شامل کیا نہ توڑ پھوڑ کو اپنے ایجنڈے میں رکھا۔ اور یہی وہ سارے عوامل ہیں جس نے مولانا کی حمایت اور ہمدردی میں ایک توانا لہر اُٹھا دی ہے۔

مولانا کی سیاست سے اتفاق اور اختلاف ہوتا رہے گا لیکن اس کا یہ احسان ہمیشہ یاد رہے گا کہ جس تہذیب کو عمران خان ایک وحشت انگیز دھرنے کے ذریعے اُدھیڑ چکا تھا۔ مولانا نے بہت حد تک اس کی رفو گری کر لی ہے کیونکہ گالیوں کی جگہ دلیل اور طعنہ و دشنام کی جگہ سوال و منطق نے لے لی ہے جبکہ اب کسی نہتی لڑکی کے سر پر پتھر اور بوتلیں برسانے کی بجائے چادر ڈالی جاتی ہے اور وہ بھی ایک احترام کے ساتھ۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).