ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب: ادھورے خواب


کہتے ہیں کہ زندگی قدرت کا حسین تحفہ ہے اور اس حسین تحفے کی گہرائیوں میں بے شمار راز پنہاں ہیں۔ لاتعداد پراسرار پرتوں میں لپٹی یہ زندگی سب کے لئے حسین ہوتی ہے یا صرف چند لوگوں کے لئے مخصوص؟ کیا زندگی کے حسین راز سب ذہنوں پر ایک جیسے ہی کھلتے ہین یا مختلف؟ کیا ہر دیکھنے والی آنکھ وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہے جو زندگی کے گہوارے میں ہر رنگ کھلا دے؟ ان سب سوالوں کا جواب ہم ایک امریکن مصنفہ سے جاننے کی کوشش کریں گے جو اپنی ابتدائی عمر میں ہی اندھی اور بہری ہو گئی تھی۔

اس عظیم عورت کا نام ہیلن کیلر ہے۔ اپنے ایک مضمون میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوش کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ (دیکھنے والے بہت تھوڑا دیکھتے ہیں ) ۔ کیلر کہتی ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے کے بعد اپنی ایک ایسی سہیلی سے ملنے گئی جو کہ کافی عرصہ سے جنگلات کی سیر کر کے واپس لوٹی تھی۔ میں نے بڑے تجسس کے ساتھ اپنی سہیلی سے پوچھا کہ تم نے جنگلات کی سیر کے دوران کوئی خاص چیز دیکھی یا کوئی خاص مشاہدہ کیا؟ تو میری سہیلی نے جواب دیا کہ (کچھ خاص نہیں دیکھا) ۔

کیلر کو یہ جواب سن کر دھچکا لگا کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ گھنٹوں جنگلات کی سیر کے بعد کچھ بھی قابل توجہ نہ تھا۔ اس کے بعد ہیلن کیلر کہتی ہے کہ اب وہ اس بات کی قائل ہو چکی ہے کہ (دیکھنے والی آنکھیں بہت تھوڑا دیکھتی ہیں ) ۔ میں آج آپ کو ایک ایسی ہی نایاب کتاب سے متعارف کرواؤں گا جس کے اندر زندگی کے بے شمار حسین خوابوں کو ایک ایسے خوبصورت ادبی شاہکار کی صورت میں ترتیب دیا گیا ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہے۔

یہ کتاب پانچ بہترین ذائقوں پر مشتمل ہے۔ پہلا ابتدائی ذائقہ افسانے پر مشتمل ہے، دوسرا نثر پارے پر، تیسرا ادبی مضامین اور چوتھا تراجم پر، جبکہ آخری حصہ ادیب دوستوں کی آراء پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا ادبیپیکج ہے جو پڑھنے والوں پر بصیرتوں کے در کھولتا چلا جاتا ہے۔ اس ادبی شاہکار کا نام (ادھورے خواب) ہے اور اس شاہکار کو زندگی کے مختلف رنگوں سے اور اپنی زندگی کے ذاتی تجربات کی کسوٹی پر پرکھ کر پیش کرنے والے کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے۔

آپ ایک سائیکاٹرسٹ ہیں اور زندگی کے مدوجزر پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہی اپنے اندر ایک گہری معنویت کا جہاں لیے ہوئے ہے۔ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا ہم ادراک نہیں رکھتے یا ان کا اظہار کرنے کے لئے مناسب اور ہم آہنگ الفاظ نہیں ملتے۔ یہ ایک بڑی بے بسی کی کیفیت ہوتی ہے کہ زندگی کے تجربات کو الفاظ کا ساتھ نہ ملے اور یہی کیفیت ایک تخلیقی آدمی کو بے چین کر دیتی ہے۔ یہ کتاب انہی لمحوں کی نمائندہ ہے اور ان لمحوں کو امید کے وسیع استعاروں کے ساتھ جوڑ کر تخلیقیت کے راستے کو ہموار کرتے ہوئے ایک ایسے موڑ پہ لے آتی ہے کہ جہاں تخلیقیت کے قمقمے جگمگانے لگتے ہیں اور شعوری در کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل نے اپنی زندگی کے شعوری سچ کو نفسیات، سائنس، فلسفہ اور دیگر علوم کے ساتھ جوڑ کر خیالات کی ایسی مالا بن دی ہے، جس میں زندگی کا ہر رنگ پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ کتاب کے ابتدائی حصہ میں ان کی ایک پیاری محبوبہ خط کی صورت میں گلوں اور شکایات کا ایک ایسا راگ چھیڑ دیتی ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ یہ پیار میں نفرت کا اظہار ہے یا نفرت میں پیار کا اظہار۔ اس پیاری محبوبہ کا نام اردو ہے۔

ایک ایسی محبوبہ جو کہ مصنف کی ابتدائی شعوری زبان ہے جس کی گھنی چھاؤں میں مصنف نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا اور اپنے خیالات سے نبرد آزماء ہونا سیکھا تھا۔ اب چونکہ مصنف کینیڈا میں آباد ہے اور اس کی سنگت ایک ایسی زبان سے قائم ہو گئی ہے جو اس کی محبوبہ اردو کے لئے اجنبی ہے۔ اب اس کے محبوب نے اپنے خیالات کا اظہار انگریزی میں کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس پر مصنف کی محبوبہ تھوڑی بے چین ہو گئی کہ کہیں اس کا محبوب اسے ہمیشہ کے لیے نہ چھوڑجائے رفاقت انسیت اور اپنائیت کے لبادے میں لپٹاہوا یہ خط ایک ادبی فن پارہ ہے جو قلبی تعلق کی پرتوں کو گہری معنویت عطا کرتاہے پہلا حصہ افسانوں پر مشتمل ہے اور پہلے افسانے کا نام ادھوراخواب ہے یہ افسانہ ایسے لوگوں کی نمائیدگی کرتا ہے جو اس کا ئنات کو حسیں بنانے کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجاکر رکھتے ہیں اور جب بھی اور کہیں بھی امید کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو یہ لوگ جگمگا اٹھتے ہیں اور اپنے حسیں خوابوں کے نغمے گنگنانے لگتے ہیں یہ لوگ اس بات سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ہمیں ان حسیں خوابوں اور نغموں کی کیا کیا قیمت چکانا پڑے گی یہ افسانہ اک کا مریڈ دوست کے گر د گھومتاہے جو کہ چاہتا ہے کہ دنیا سے آمریت ختم ہو جائے اور جمہوریت کا بول بالا ہو جہاں امیر غریب کا فرق مٹ جائے اک اور افسانہ جس کا عنوان میٹھا زہر ہے یہ ایسا شاہکار افسانہ ہے جو اپنے اندر ایک گہری معنویت کا جہاں لیے ہوئے ہے یہ زہر ایک ایساخطرناک زہر ہے کہ جس کی بنیاد پر انسانیت تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی مختلف قبائل اور گروہوں میں بٹ گئی ایک ہی دھرتی ماں کے بچوں نے اس دھرتی ما ں کو مذہب کے نام پر خون میں نہلا دیاجس کی واضح مثال بر صغیر کی تقسیم ہے کہ جس کے نیتجے میں پوری کی پوری تہذیب ملیامیٹ ہوگئی اور مذہب کے نام پر بننے والے ملک کی حالت ہمارے سامنے ہے اس افسانہ میں ڈاکٹر سہیل مذہب کی آڑ میں ہونے والی تباہی کو انتہائی فکر انگیز انداز میں پیش کرنے کی کو شش کرتے ہیں ایک اور خوبصورت افسانہ جس کا عنوان مقدس ہے یہ افسانہ بھی شعورکی بے شمار پر تیں لیے ہوئے ہے۔

اس افسانہ میں مصنف یہ بات بتانے کی کو شش کرتا ہے کہ سماجی جڑت کے حقیقی پیمانے کون سے ہوتے ہیں کہ جن کے وجہ سے معاشرے آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ کچھ سچ زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کچھ سچ معاشروں میں طے شدہ درجہ حاصل کرلیتے ہیں جنہیں معاشرہ مقدس جان کر بغیر کو ئی سوال اٹھاے ساتھ ساتھ لے کر چلتاہے اور آگے چل کر انہی طے شدہ سچاییوں کے مختلف مفا ہیم سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہی طے شدہ مقدس سچ معاشروں میں مختلف فرقوں کے نام پر تقسیم کا سبب بن جاتے ہیں اور اِن مقدس سچایؤں کے نام پر لڑایئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

تاریخ انسانیت اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اس افسانے میں ڈاکٹرخالد سہیل بطورماہر نفسیات یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا یک رنگی نہیں ہے بلکہ رنگا رنگی ہے اور اس بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دنیا کے انسان سمجھ جا یئیں کہ وہ سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں کیو نکہ وہ ایک ہی دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ اس کتاب کے حصہ دوم میں ایک ساہکار نثری پارہ بعنوان (قصہ پانچویں درویش کا) بہت ہی لا جواب نثرپارہ ہے کہ جس میں آگہی کا ایک سیلاب ہے جو ہماری خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے گزر جاتا ہے۔ اس میں چاردرویش گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اپنے پانچویں درویش دوست کے بارے میں کہ جس نے کافی عرصہ سے لکھنا ترک کر دیاہے

یہ چاروں درویشوں کو تشویش ہو تی ہے اور پھر مل کر پانچوں درویش کی کٹیا میں چلے جاتے ہیں یہ چاروں درو یش مل کر پانچویں درویش سے سوال کر تے ہیں کہ آپ کی تحریریں تو زندگی کی آئینہ دار ہو تی ہیں اور ہم سب آپ کی تحریر وں سے بہت کچھ سکھیتے اور حا صل کرتے ہیں مگر یا درویش آ پ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ پانچواں درویش نہ لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے

1۔ سچی بات یہ ہے کہ میرالفظوں سے اعتماد اور تحریروں سے اعتبار اٹھتاجا رہا ہے

2۔ بات صرف میری تحریر وں کی نہیں مجھے احساس ہورہا ہے کہ الفاظ سراب ہیں چاہیے وہ سب میرکی شاعری ہو یا غالب کی چاہے وہ منٹو کے افسانے ہو ں یا عصمت چغتائی کے سب کا ایک ہی حشر ہوا ہے۔ سب کے الفاظ اپنی معنویت کھوچکے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی انسان نے سچ کہناچاہا تو اسے یاتو سولی چڑھا دیا گیا یا قید میں ڈال دیا گیا میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ازل سے ہورہا ہے اور ابدتک ہوتا رہے گا انسانوں نے تو آسمانی کتابوں کو بھی نہیں چھوڑا اور ان سے اپنی شدت کا تشددپسندی کا جواز نکالاہے

اس پیراگراف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا دلچسپ نثرپارہ ہے یہ تحریر مقدس ہیولوں کی گرد ہٹا کر حقیقت کے روبرو کرتی ہے۔ اس میں ڈاکٹر سہیل یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسانی رشتہ سب سے مقدس ہوتا ہے اور کوئی بھی سچ اتنا مقدس نہیں ہو تا کہ جس کے نام پر انسانیت کو تقسیم کر دیاجائے بدھا اور سقراط نے ہمیں یہ بتایا کہ سچ آسمانوں سے نہیں اتراکرتے وہ انسانوں کے دلوں میں پرورش پاتے ہیں۔ اس کتاب کا حصہ سوم بہت دلچسپ ہے جو کہ ادبی مضامین پر مشتمل ہے اس حصہ میں ڈاکٹر سہیل نفسیات کی روشنی میں مختلف ادبی شخصیات کا جائزہ لیتے ہیں ان مضامین میں وہ ہماری ملاقات میرتقی میر، فیض احمد فیض، محمد اقبال، جون ایلیا، حبیب جالب اور محمد مظاہر سے کرواتے ہیں۔ ان مضامین میں وہ بتانے کی کو شش کرتے ہیں کہ بڑے لوگ انسان ہوتے ہیں اور انسانیت کا ہی اثاثہ ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم ان بڑے لوگوں کو رحمتہ اللہ علیہ کا لقب عطا کر کے ان کے گرد تقدس کا ایک ایسا جال بن دیتے ہیں

ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ اوتار یا دیوی دیوتا ہوں۔ ایسے تقدس زدہ ماحول میں تنقید کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔ تنقید کی راہ ہموار کرنے کے لیے تقدس کی ا ٓ ہنی دیوار کو گرانا پڑتا ہے تاکہ حقیقی صورتحال پر دیکھنے والی آنکھ پر واضح ہو سکے۔ آنکھوں کے گرد بنے ہوے تقدس کے جالے تصویر کی اصل خو بصورتی کو دھندلا کر دیتے ہیں۔ ان تحریروں میں ڈاکٹرسہیل یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے لوگ مختلف ذہنی امراض کا شکارہوتے ہیں مثلاً وہ میر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میر کونوجوانی ہی میں اتنی آزمایئشوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنی زندگی کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں ذہنی توازن کھو بیٹھے۔

انہیں عنفوان شباب میں ہی پاگل پن کے شدید دورے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد فیض احمد فیض کا تذکرہ ملتا ہے فیض کے حوالہ سے ڈاکٹر سہیل بتاتے ہیں کہ فیض کی زندگی میں ایک ایسی عورت داخل ہوتی ہے جو اس کی زندگی کو چار چاند لگا دیتی ہے جس کا نام ایلس فیض ہے۔ یہ ان کو زندگی کے کسی بھی موڑ پر تنہا نہیں چھوڑتی۔ آگے چل کر ڈاکٹر سہیل فیض کی زندگی کے دو بحرانوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ نوجوانی کے دو بحرانوں میں سے ایک ان کے والد کی

موت اور دوسرا عشق کی ناکامی تھا۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے ایک فقرہ لکھا تھا ”تمہارا فیض یتیم ہو گیا“۔

ان حشر سامانیوں کو کون سمجھے جو اس ایک فقرہ کی تہہ میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ زندگی کے حادثوں کے دوران فیض کو دو شخصیات ایسی ملیں کہ جنہوں نے ان کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ پہلی شخصیت ڈاکٹر رشید جہاں تھیں جنہوں نے مارکسی نظریات اور ترقی پسند تحریک سے تعارف کروا کے ان کی سوچ کو نئی ڈگر پر ڈال دیا اور دوسری شخصیت ایلس ہے۔ اقبال کی شخصیت کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر سہیل یوں رقمطراز ہیں ”وہ حساس دل، ذہین دماغ اور پر کشش شخصیت رکھنے کے باوجود بہت سے رومانوی تضادات کاشکارر ہے۔ ایسے تضادات جو ان کی خوشیوں کی راہ میں کانٹے بوتے رہے اور وہ عمر بھر ایک داخلی کرب اور اذیت کو برداشت کرتے رہے۔ “

ڈاکٹر سہیل اس تحریر میں مشرقی گھٹن کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جس سے اقبال جیسا ذہین انسان بھی فرار حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ یہ گھٹن اتنی بڑھی کہ 1908 ؁ء میں جب اقبال تعلیم ختم کر کے ہندوستان لوٹے تو انہیں ایک نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر سہیل ان کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہیں جو کئی حوالوں سے بعد میں اقبال کا مشہور ترین اور بدنام ترین خط ثابت ہوا۔

”اس خط میں اقبال نے اپنی زندگی سے بیزاری اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے کہا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام دکھوں کو شراب میں گھول کر پی جائیں کیونکہ شراب خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ “

یہ خط اقبال نے عطیہ فیضی کو لکھا مگر وہ اقبال کی مداح تو تھیں مگر سادہ لوح نہیں تھیں۔ جون ایلیا کے بارے میں ڈاکٹر سہیل یوں رقمطراز ہیں۔

”کہ جو لوگ جون ایلیا سے تنہائی میں ملاقات کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس نیم ڈرامائی، نیم دیوانی شخصیت کے پس پردہ ایک قد آور فلسفی بھی چھپا ہوا تھا جو زندگی ادب، محبت، معاشیات، روحانیات اور سماجیات کے بارے میں سنجیدہ رائے رکھتا تھا۔ “

ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جون ایلیا شاعر سے تو محظوظ ہوتے رہے لیکن ان کی جون ایلیا دانش ور تک رسائی نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر سہیل نے ان ادبی شخصیات کے بارے میں تقریباً ہر گوشہئی زندگی کو آشکارکرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اچھائی برائی کا مجموعہ ہوتے ہیں اور ان بڑے لوگوں کی شخصیات کو پرکھنے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ اس خوبصورت کتاب کا حصہ چہارم مختلف تراجم پر مشتمل ہے۔

حصہ پنجم ادیب دوستوں کی رائے پر مشتمل ہے۔ اس حصہ میں ڈاکٹر بلند اقبال نے اپنے خوبصورت الفاظ میں ڈاکٹر خالد سہیل کی شخصیت اور ان کے فلسفہ حیات پر بڑے ہی عمیق اور خوبصورت نپے تلے الفاظ میں اظہار کیا ہے اور انہی کے ایک خوبصورت جملے پر اختتام کیا ہے۔ یہ جملہ اپنے اندر معنویت در معنویت کا جہاں لیے ہوئے ہے۔

”دنیا میں اتنی ہی سچائیاں ہیں جتنے خود انسان اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی ان انسانوں کی دانشمندانہ نگاہیں۔ “

اس کے بعد گوہر تاج نے ڈاکٹر خالد سہیل کی پوری زندگی کے بہت سارے گوشوں کو بڑی تفصیل اور جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ آسان اور عام فہم انداز میں لکھی گئی ہے۔ بصیرت پر مبنی لاجواب جملوں نے اس کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ میں ڈاکٹر سہیل کی ایک نثری نظم کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں سوچنے والے لوگوں کے لئے بہت کچھ ہے، جس کا عنوان ہے (خالی صراحیاں )

ہماری زندگیاں

بے رنگ

خالی صراحیاں ہیں

جنہیں ہم

عمر بھر

اپنی خواہشوں،

اپنی آرزوؤں،

اپنی تمناؤں،

اپنی عداوتوں

اور اپنی محبتوں سے

بھرتے رہتے ہیں

لیکن اکثر اوقات

بھول جاتے ہیں کہ

در حقیقت

ہماری زندگیاں

بے رنگ صراحیاں ہیں

اس نظم میں زندگی کا ہر رنگ موجود ہے۔ پوری زندگی کا نچوڑ چند جملوں میں سمو دیا گیا ہے۔ طلباء کے لئے یہ کتاب ایک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ادبی شخصیات کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھا گیا ہے بحوالہ لکھا گیا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر سہیل کی ایک خوبصورت نظم جو انہوں نے نوجوانوں کے لئے لکھی ہے، جو اپنے خوابوں اور اپنے آدرشوں کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ نظم بہت ہی معنی خیز ہے۔

نئی کتاب، مدلل جواب چاہیں گے

ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے

روایتوں کے کھلونوں سے دل نہ بہلے گا

بغاوتوں سے منور شباب چاہیں گے

دیار ہجر کی اس بے حسی کے موسم میں

رفاقتوں کے معطر گلاب چاہیں گے

سب سیاہ سے سورج تراشنے والے

ہر ایک صبح نیا انقلاب چاہیں گے

حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا

ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے

(یہ کتاب سنگ میل پبلشر ز لاہورنے شائع کی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).