ماہا وجاہت: اسلام آباد کی پہلی کامیاب خاتون فوٹو گرافر جن کے انسٹاگرام پر دس لاکھ سے زائد فالورز ہیں


ماہا وجاہت

خاتون ہو کر آغاز میں مجھے اپنے آپ کو منوانے میں بہت وقت لگا۔ میری فیملی اور والدین اس بات کو نہیں مان رہے تھے کہ میں باہر جا کر لوگوں کی شادیوں میں فوٹو گرافی کروں’

‘خاتون ہو کر آغاز میں مجھے اپنے آپ کو منوانے میں بہت وقت لگا۔ میری فیملی اور والدین اس بات کو نہیں مان رہے تھے کہ میں باہر جا کر لوگوں کی شادیوں میں فوٹو گرافی کروں۔’

یہ کہنا ہے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی مشہور فوٹو گرافر ماہا وجاہت کا۔

ڈیزائنر ملبوسات، مہنگے میک اپ آرٹسٹ، برینڈیڈ جیولری، سٹیج اور ہال کی سجاوٹ سمیت کئی دوسری چیزیں کسی بھی شادی کو یادگار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر ان تمام چیزوں کو یادگار بنانے میں سب سے اہم کام اچھے فوٹو گرافر کا ہوتا ہے اور ایک ایسے فوٹو گرافر کو تلاش کرنا ہے جو آپ کی پسند کے مطابق آپ کے اہم دن کو ہمیشہ کے لیے اپنے کمیرے میں محفوظ کر سکے، اتنا آسان کام نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ہدیٰ بیوٹی‘ کی مالکن ہدیٰ قطان کون ہیں؟

’جیسے کچن میں کام کرتے ہوئے ایک نظر بچوں پر ہو‘

کائیلی جینر 20 سال کی عمر میں کروڑ پتی کیسے ہو گئیں؟

اور جب ہم بہترین فوٹوگرافرز کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں آنے والا پہلا نام ماہا وجاہت کا ہے۔

ان کا اصل نام ہما وجاہت ہے۔ ماہا نے پاکستان کی مشہور سلیبرٹیز کی شادیوں کی فوٹوگرافی کی ہے، جن میں عائشہ خان، ایمن منیب اور حمزہ علی عباسی سہرِفرست ہیں۔

ماہا کے بارے میں لوگوں کا شکوہ ہے کہ ‘ماہا فوٹو گرافی’ متوسط طبقے کے لیے کیوں نہیں ہے؟ اس حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ایسا ان کے کام کے معیار کی وجہ سے ہے۔

‘مارکیٹ میں بہت سے فوٹو گرافر ایسے ہیں جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں، بس ایک کیمرا ہے اور وہ فیلڈ میں کام کر رہیں ہیں۔ میں نے اس فیلڈ کو پڑھا ہے تب جا کر میں نے اسے شعبے کے طور پر اپنے لیے منتحب کیا۔ ہم اپنے گاہکوں کو کوالٹی اتنی اچھی دیتے ہیں جس سے وہ مطمئن ہوتے ہیں۔’

ماہا نے بتایا کہ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو آج کل میک اپ آرٹسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ صرف ایک دن تیار کرنے کے وہ 50 سے 60 ہزار لیتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ آج کل دلہن کا ایک دن کا لباس جتنا قیمتی ہوتا ہے اتنا تو وہ چار دن فوٹو گرافی کرنے کے پیسے نہیں لیتیں۔

‘زیادہ تر جب دلہنیں ہمارے پاس بکُنگ کروانے کے لیے آتی ہیں تو ہم باتوں باتوں میں یہ پوچھ لیتے ہیں کہ اپنی شادی کا لباس اُنھوں نے کہاں سے اور کتنے میں بنوایا ہے۔ جب وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن کا لباس آٹھ سے نو لاکھ کا ہے تو پھر ہمیں لگتا ہے کہ ہم فوٹو گرافی کے جتنے پیسے لے رہے ہیں وہ تو کچھ بھی نہیں۔’

اگر شادیوں پر اخراجات کی بات کی جائے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ لوگ بے جا چیزوں پر بےتحاشہ پیسے خرچ کرتے ہیں۔

انگنت شادیاں کور کرنے کے بعد ماہا کا کہنا ہے کہ لوگ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسا کر رہیں ہیں۔ اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے لوگ مختلف ڈیزائنرز کو ٹیگ کرتے ہیں تاکہ اُن کی تصویر وائرل ہو جائے۔

کسی بھی تقریب کی عکس بندی کرنے کے بعد ایک فوٹو گرافر کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اپنے گاہک سے تصویریں منتخب کروانا ہے جو وہ اپنی شادی کی البم میں لگوانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ تصویروں کا انتخاب کر کے واپس بھجوانے میں لوگ اکثر تاخیر کر دیتے ہیں اور فوٹوگرافر کو ان کے پیچھے پڑ کر اُن سے تصویریں منگوانی پڑتی ہیں۔

ماہا نے بتایا کہ اس کے بعد اگلا مرحلہ ان کی البمز لے کر جانے کا ہے، جو بعض اوقات وہ وقت پر لے جانا ہی بھول جاتے ہیں۔

ماہا کے آفس میں ایک ایسی الماری بھی ہے جو اُن البمز سے بھری پڑی تھی جو گاہک لے کر نہیں گئے۔ اور ماہا کے مطابق ان میں سے کئی البمز کو پڑے پڑے کئی سال ہو چکے ہیں۔

اُن کے آفس میں مردوں کی اتنی بڑی ٹیم کو کام کرتے ہوئے دیکھا اُن سے پوچھا کہ اکیلی خاتون ہو کر مردوں کی اتنی بڑی ٹیم کو لے کر چلنا کتنا مشکل ہے؟

‘شروع میں مشکل تھا۔ لیکن نو برسوں میں میری ٹیم نے مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں ایک خاتون ہوں اور وہ سب مرد۔ اُن سب نے مجھے ہر جگہ بہت اچھا سپورٹ کیا۔ میری ٹیم میں صرف میں ایک خاتون ہوں باقی سب مرد ہیں۔’

ماہا نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کی پہلی خاتون فوٹوگرافر ہیں جن کے انسٹاگرام پر دس لاکھ فالورز ہیں۔ ماہا کی کامیابی جہاں اُن کی ٹیم کے بغیر ممکن نہیں تھی، وہیں اُن کے شوہر وجاہت اور اُن کے والد کا بھی اس میں اہم کردار رہا ہے۔

کسی بھی خاتون کے لیے شادی کے بعد کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر ماہا نے نہ صرف اپنے دو بچے ہونے کے باوجود کام جاری رکھا بلکہ دوسری خواتین کے لیے مثال بھی قائم کی۔

ماہا کے آفس کے میز پر موجود البمز کو کھول کر دیکھا تو خوبصورت اینگل اور پوزز دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک فوٹوگرافر کا کام کس قدر مشکل ہے۔ ماہا نے بتایا کہ ایک شاندار شوٹ کے لیے اُن کو ایک ہی پوز میں کئی تصویریں لینی پڑتی ہیں۔

تصویریں ایڈیٹ کرنی ہوں یا ویڈیوز، ماہا ہر چیز اپنی نگرانی میں کرواتی ہیں۔

ماہا نے بتایا جب اُن کے پاس ٹیم نہیں تھی تو وہ سارے کام خود کرتی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف پاکستان کے کئی مشہور اداکاروں کی شادیوں کی فوٹوگرافی کی ہے بلکہ بیرون ملک بھی شادیوں کو کور کیا ہے۔

ماہا نے بتایا کہ یہ کامیابی اُن کو ایک دم نہیں ملی ،انھیں یہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگا۔ اُنھوں نے بتایا کہ کیرئیر کے آغاز میں وہ ساری رات تصویریں ایڈیٹ کرنے کے بعد صبح البم بنوا کر گاہک کو خود پیدل دینے بھی جاتی رہی ہیں۔

‘مجھے بہت وقت لگا یہ سب کچھ بنانے میں۔ سب کچھ ایک دم سے نہیں ہوتا۔ ہماری نوجوان نسل اس فیلڈ میں آ کر چاہتی ہے کہ وہ ایک دم سے مشہور ہو جائیں۔ مگر کسی مقام تک پہچنے کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔’

عام طور ہمارے معاشرے میں خواتین سمجھتی ہیں کہ اگر اُن کی شادی ہو گئی ہے تو اُن کا کیرئیر ختم ہو گیا ہے اور وہ اس کے بعد کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔

ماہا نے ایسی خواتین اور نئی نسل کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے اندر خود اعتمادی تھی، اُن کو یقین تھا کہ اُنھوں نے کچھ کرنا ہے، اپنا نام بنانا ہے، اور اس خود اعتمادی نے آج اُن کو یہاں پہنچایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp