کیا معاشرے کی خدمت صرف ڈاکٹر اور افسر ہی کرتے ہیں؟


ہمارے ملک میں روزگار کے سلسلے میں مختلف پیشے اختیار کرنے میں ذات پات کی طرز کا ایک امتیازی رویہ رائج ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ آرمی افسر، ڈاکٹر یا بیوروکریٹ ہیں تو آپ کا شمار برہمنوں میں ہو گا۔ آپ کا کام زیادہ معزز تصور کیا جائے گا اور اس بنا پر آپ ایک اونچے معاشرتی مقام کے حقدار ہوں گے۔ اِسی طرح اگر آپ کوئی دفتری ملازم یا استاد ہیں تو آپ برہمن سے بہرحال کم ہی تصور کیے جائیں گے۔ یہ وہ کام ہیں جو اوپر بیان کیے گئے کاموں کے لیے نا اہل ہونے کی بِنا پر آپ کے حصے میں آئے ہیں۔ باقی معمولی نوعیت کے کام شاید اس سے بھی کم درجے میں آتے ہیں۔

مختلف پیشوں کے ساتھ جڑے ہوئے عزت اور معاشرتی مقام کے تصورات نے والدین کو اِس خبط کا شکار کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وہ بنانا چاہتے ہیں جس کی نا ہی ان کے اندر کوئی صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اِس جبر کے نتیجے میں بچے نفسیاتی دباٶ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیکل کالجز میں داخلے کے دِنوں میں اِس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ داخلہ حاصل نہ کر سکنے والے طلبا جن کے ذہن میں بچپن سے یہ بٹھایا گیا ہے کہ شاید ڈاکٹر بن کر ہی وہ کامیاب کہلا سکتے ہیں اور اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، لاشعوری طور پر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس طرزِفکر کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کو ہمارے ہاں صرف معاش حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایسی نوکری یا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں جس میں ”وہ“ اور ”نوکری“ یا پیشہ دونوں ایک دوسرے کے لیے مناسب نہیں ہوتے۔ بعض ڈاکٹر آپ کو ایسے ملیں گے جِن سے بات کرنے کے بعد تکلیف میں کمی ہونے کی بجائے اِضافہ ہوتا محسوس ہو گا۔ صاف ظاہر ہے ایسا مزاج ہی نہیں کہ مریض سے بات کر کے ہی اس کی آدھی تکلیف دور کر دی جائے جو ایک ڈاکٹر کا خاصہ ہونا چاہیے۔ ایسی مثالیں قریب قریب ہر شعبے میں مل جائیں گی۔

کیا معاشرے کی خدمت صرف افسر یا ڈاکٹر ہی کرتے ہیں؟

کیا قومی ترقی ہر شعبہ زندگی میں ترقی اور ان کی شراکت کے بغیر ممکن ہے؟

اپنے بچوں کو اِس محدود سوچ کا قیدی نہ بنائیے۔ انہیں زندگی میں اپنے راستے متعین کرنے دیں تا کہ وہ فخر اور دلی اطمینان کے ساتھ اپنی شناخت بنا سکیں، جی سکیں اور اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).