عدالت، جمہوریت اور بادشاہت


\"anwar-zaheer-jamali\"

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملک میں جمہوریت کو بادشاہت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ جس حکومت کو انہوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا تھا، اسے ہٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ پاکستان کے چیف جسٹس کا یہ بیان لاہور کی اورینج لائن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران سامنے آیا۔ ملک میں جمہوریت کے حوالے سے یہ بیان اس قدر حساس اور نازک نوعیت کا تھا کہ چیف جسٹس کو میڈیا پر اس کے رپورٹ ہونے کے بعد یہ وضاحت جاری کرنا پڑی کہ انہوں نے ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی بات کی تھی۔ اسی وضاحت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کل کمرہ عدالت میں چیف جسٹس نے جو گفتگو کی، وہ کسی طرح ان کے منصب کے شایان شان نہیں تھی۔

پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ سیاست دان اور مبصر اس پر کھلے دل سے اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ملک کی عدالت سے سب لوگ، سب سیاسی لیڈر اور سارے طبقے انصاف کی امید کرتے ہیں اور کسی اختلاف یا مشکل کی صورت میں اس سے رجوع کرتے ہیں۔ اس لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کو کسی بھی حال میں سیاسی بیان دینے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ایک تو یہ ان کے منصب کے خلاف ہے اور اگر کوئی جج اور خاص طور سے چیف جسٹس ملک کے سیاسی جمہوری معاملات پر کسی حتمی رائے کا اظہار کرے گا تو اس کی غیر جانبداری متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ ملک کے انتظام اور سیاسی حالات کے بارے میں دو ٹوک اظہار خیال سے ملک کے عام لوگوں پر کسی نہ کسی طرح اس کا اثر بھی مرتب ہوگا۔ اس حوالے سے تیسرا پہلو یہ ہے کہ جب چیف جسٹس ملک کے جمہوری نظام کے بارے میں واضح رائے کا اظہار کرتے ہیں تو وہ براہ راست پارلیمنٹ کے اختیار کو چیلنج کرنے کا سبب بنتے ہیں جو ان کے آئینی اختیار سے باہر ہے۔

پارلیمنٹ اس ملک میں قانون سازی اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس طرح ملک کی پارلیمنٹ ہی سپریم کورٹ کے لئے دائرہ کار اور حدود کا تعین کرتی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کو مختلف قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنے کا حق حاصل ہے کہ وہ آئین کی روح اور شقات سے متصادم نہ ہوں لیکن اگر کوئی چیف جسٹس ملک کے جمہوری نظام کو ناقص اور ووٹروں پر غلط لوگوں کو منتخب کرنے کے شبہ ظاہر کرے گا تو یہ متعین آئینی اختیار سے تجاوز کرنے کے مترادف ہوگا۔ جمہوری نظام میں لوگوں کی رائے سے پارلیمنٹ کے ارکان منتخب ہوتے ہیں اور اگر منتخب نمائیندے عوام کی توقعات پر پورا نہ اتریں تو آئیندہ انتخاب میں وہ ووٹ ہی کے ذریعے انہیں اقتدار سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ملک کا جمہوری کلچر نقائص سے پر ہو سکتا ہے لیکن اسی طریقہ جمہوریت میں لوگوں کی اکثریت نے 2013 کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محروم کرکے مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سونپا تھا۔ اس تجربہ کی روشنی میں بھی چیف جسٹس کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے۔

ملک میں حکمران جماعت اور لوگوں کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نواز شریف کو جمہوری لیڈر کی بجائے بادشاہ اور بدعنوان قرار دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کو عرصہ دراز سے تخت پنجاب قرار دے کر اپنے اختلاف کا اظہار کرتی رہی ہے۔ ان سیاسی اختلافات کی وجہ سے بہت سی درخواستیں بھی سپریم کورٹ کے زیر غور ہیں۔ تحریک انصاف وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ پاناما پیپرز کے حوالے سے بھی درخواستیں حتمی فیصلہ کے لئے سپریم کورٹ کے پاس ہی آئیں گی۔ اگر اس عدالت کے چیف جسٹس کی نظر میں ملک میں جمہوری لیڈر کی بجائے ایک بادشاہ کی حکمرانی ہے تو وہ اس شخص کو کس طرح انصاف فراہم کرسکے گی۔ چیف جسٹس کی گزشتہ روز کی آبزرویشن عدالت عظمی کے مستقبل کی کارکردگی کے حوالے سے شبہات کو جنم دے سکتی ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اس ملک کے عوام نے تاریخی مہم چلا کر اپنے عہدے پر بحال کروایا تھا۔ بحال ہونے کے بعد وہ اپنے سیاسی نظریات ہی کی وجہ سے بطور چیف جسٹس اس عہدے سے انصاف کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ ان کے فیصلوں کے بارے میں ملک کے سیاسی لیڈر اور قانونی ماہرین علی الاعلان اختلاف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے جوڈیشل ایکٹو ازم کو سیاسی مقاصد سے متاثر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تجربہ کی روشنی میں ملک کے ہر چیف جسٹس کو انتہائی احتیاط سے اپنے فرائض ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے جمہوری نظام کی حفاظت کے بارے میں جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں ، وہ پوری ہو سکیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments