ذہنی امراض کے ساتھ ماں بننے کا تجربہ


اپنی نوزائدہ بچی سے ملنے کا تجربہ میرے لیے کسی فلمی ستارے سے ملنے سے کم نہیں تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اسے پہلے سے جانتی ہوں۔

اس کی آنکھوں میں جھانکنے سے پہلے ہی مجھے اس سے پیار ہو چکا تھا۔ اس وقت مجھے صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ میں اس بچی کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ حالانکہ میں یہ نہیں جانتی تھی کہ آیا میں خود کے لیے بھ کچھ کر پاؤں گی یا نہیں۔

جب 2010 میں مجھے اور میرے بوائے فرینڈ کو پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوں تو ہم دونوں حیران تھے، ہم یہ توقع نہیں کر رہے تھے۔

ہم ایک ساتھ بھی نہیں رہتے تھے اور میں اپنے گزارے کے لیے ہی بہت کم کما پاتی تھی۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں دو برس سے ذہنی امراض سے لڑ رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

حمل ضائع ہونے سے اعصابی تناؤ کا خطرہ

’میں ماں نہیں بننا چاہتی، اس میں غلط کیا ہے؟‘

ماں یا باپ کی دوسری شادی اور بچے

حمل کے بارے میں پتہ چلنے کے بعد جب ہم دونوں تھوڑا سنبھلے تو ہم نے بچے کو رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم گھبرا بھی رہے تھے اور جذباتی بھی تھے۔

بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر

ایک برس قبل، 26 برس کی عمر میں مجھے اپنی بیماری، بارڈر لائن پرسنالٹی ڈس آرڈر کے بارے میں پتہ چلا۔ اسے ’اموشنل اسنٹیبلیٹی پرسنالٹی ڈر آرڈر‘ (جزباتی طور پر عدم توازن کا شکار ہونا) بھی کہتے ہیں۔

بی پی ڈی کا تعق اکثر منفی خیالات اور دوسروں کے ساتھ جذباتی لیکن غیر مستحکم تعلقات سے ہوتا ہے۔

میں باہر سے بہت پر سکون لگتی ہوں لیکن میرے اندر بہت بڑی جذباتی جنگ چل رہی ہوتی ہے۔

میری زندگی میں جیسے ہی کچھ اچھا ہوتا ہے تو میرے دل میں منفی خیالات آنے لگتے ہیں۔ جیسے کہ میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ میرے ساتھ کچھ اچھا ہو۔ مجھے خیالات آنے لگتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اتنا بھی اچھا نہیں ہے، خود کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

جس سال مجھے بی پی ڈی کے بارے میں پتہ چلا اسی سال میرے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تھی۔ میں پندرہ برس کی عمر سے خود کو نقصان پہنچاتی رہی ہوں۔ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد میں خود کو کاٹنے اور جلانے لگی تھی۔

میں نے بری یادوں کو بھلانے کے لیے غیر سنجیدہ تعلقات بنانا شروع کر دیے تھے۔ میں نے بہت زیادہ شراب پینی بھی شروع کر دی اور میں کسی بھی طرح کی پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے سے دور بھاگتی رہی۔

اتار چڑھاؤ سے بھرے تجربات

جب مجھے حاملہ ہونے کا پتہ چلا تو مجھے اس بات کا زیادہ صدمہ ہوا کہ اسی جسم سے ایک نئی جان پیدا ہوگی۔

جب میں پہلی مرتبہ اپنے بوائے فرینڈ سے ملی تو میں مردوں سے نفرت کے بارے میں مزاق کیا کرتی تھی۔ ان باتوں کا سہارا لیکر میں خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

مانع حمل گولیاں، لیکن مردوں کے لیے

ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

آخر کار اس نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ اس کڑواہٹ کی وجہ کیا ہے۔ یہ سن کر جیسے میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا ہو۔ مجھے پتہ تھا کہ میں اس شخص پر یقین کر سکتی ہوں۔ میں نے اسے اس واقعے کے بارے میں بتایا۔

جیسے جیسے میرا حمل کا سفر آگے بڑھا مجھے اصل اتار چڑھاؤ کا احساس ہوا۔ کئی بار میں بہت خوشی محسوس کرتی تھی۔ میرے بوائے فرینڈ نے مجھے بہت محبت دی اور میرا خیال رکھا۔ اس نے میرے بدلتے موڈ کے ساتھ بھی ہمارے زندگی میں ایک توازن قائم کیا۔

پھر ایک دن ایک کام کے ساتھی نے مجھ سے کہا کہ حمل کے لحاظ سے میرا پیٹ بہت چھوٹا ہے۔ یہ سن کر میں باتھروم میں جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

میں سوچنے لگی کہ کیا میرا جسم بچے کو محفوظ نہیں رکھ سکتا؟ کیا یہ ایک بری ماں ہونے کی علامت ہے؟

آپ کو یہ بیوقوفانہ خیال لگ سکتا ہے، لیکن میرا دماغ عام دماغوں کی طرح نہیں سوچتا۔

میں ان خیالات میں الجھ گئی اور لوگوں کو بتانے لگی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے شرمندگی ہونے لگی کہ میں ویسی ماں نہیں بن سکتی جیسی میں نے سوچا تھا۔ ایک پُرجوش، جذباتی اور خوش رہنے والی ماں۔

تقریباً چھ ماہ بعد میری حالت بگڑتی چلی گئی۔ ہسپتال کی دائی کے ساتھ میں یا تو گھٹن محسوس کرتی تھی یا اپنی تمام فکروں کو ختم کر دیتی تھی۔

ذہنی امراض سے متاثر خواتین

ایسا نہیں ہے کہ صرف میری جیسی مائیں ہی حمل کے دوران اور بچے کی پیدائش کے بعد ذہنی امراض سے متعلق مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ بی بی سی لائو فائو کے 2017 کے سروے کے مطابق ایک تہائی سے زیادہ نئی مائیں ذہنی امراض سے متعلق دشواریوں کا سامنا کرتی ہیں۔

لیکن، جیسے ہی میں نے اپنے پارٹنر کی مدد لی، سب کچھ بدل گیا۔ میں نے لوگوں سے ملنا، اپنے ارد گرد سپورٹ نیٹورک بنانا اور اپنے جیسی دوسری ماؤں سے ملنا شروع کیا۔

بچی کی پیدائش کے بعد شروعاتی چند ہفتے بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ میں بہت کم سو پاتی تھی۔ میں بار بار دیکھتی رہتی تھی کہ میری بیٹی سانس لے رہی ہے یا نہیں۔

ہم نے ہسپتال سے واپسی میں ایک ٹیکسی لی تھی۔ جتنی بار ٹیکسی اچھلتی تھی مجھے بچی کی جان کا خطرہ پریشان کرتا تھا۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا ہوتا تھا، دودھ پلانا، کمرے کا درجہ حرارت صحیح رکھنا، یہ طے کرتے رہنا کہ وہ جھولے میں ٹھیک سے لیٹی ہے۔ بچی کے بارے میں مسلسل پریشان کرنے والی فکروں کا ایک ہی حل تھا کہ میں چوبیسوں گھنٹے اسی کے ساتھ رہوں۔

پیار کا احساس

آہستہ آہستہ میرے اور میری بیٹی کے درمیان محبت بڑھنے لگی۔ میں نے اسے جاننا تب شروع کیا جب اس کے بارے میں گھبرانا چھوڑ دیا۔

تنہائی کو دور کرنے کے لیے میں نے گھر کے باہر نکلنے کے طریقے ڈھونڈے جیسے پلے گروپ جانا، سوپر مارکیٹ یا پارک میں سیر کرنے چلے جانا۔

میں نے نئے دوست بھی بنائے، جن میں سب سے خاص روزی اور مریم تھیں جو مجھے انسٹاگرام پر ملی تھیں۔

میرے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھی میرا تعلق بہتر ہوتا چلا گیا۔ ہم ایک مضبوط ٹیم بن گئے۔ لیکن کبھی کبھی جب دونوں بہت تھکے ہوئے ہوتے تھے، بحث کو روک پانا مشکل ہو جاتا تھا۔

ایک بار پارک میں ایک چھوٹی سی بات پر ہماری لڑائی ہو گئی۔ میں چلا کر وہاں سے چلی گئی اور میں نے بچی کو اسی کے پاس چھوڑ دیا۔

تھوڑی دیر بعد مجھے لگا جیسے میرے پیچھے کوئی آ رہا ہے۔ دیکھا تو میرا بوائے فرینڈ تھا۔ اس نے کہا کہ ’تم نیپی والا بیگ لے کر چلی گئی۔‘ یہ سن کر ہم دونوں ہی ہنس پڑے کہ ہماری نئی دنیا کتنی مختلف ہے۔ ہم دونو ہی بھول گئے کہ ہم لڑ رہے تھے۔

ماں بننے کے دس ماہ بعد میں نے یہ سب کچھ لکھا۔ لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے خود کو اس طرح دیکھنا سیکھا جو پہلے کبھی ممکن نہیں لگتا تھا۔

اب زیادہ چیزوں کی فکر رہتی ہے کیوں کہ میرا ایک خاندان ہے۔ میں نے سنا تھا کہ ذہنی امراض جلدی ٹھیک نہیں ہوتے۔ یہ زندگی بدلنے کے ساتھ بدلتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب میرا مرض ہی میری شناخت بن گیا تھا۔ لیکن ماں بن کر میں نے سیکھا کہ آپ بدل سکتے ہیں، چیزوں کو قبول کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی سنبھال سکتے ہیں۔

اپنی بیٹی کی محبت میں میں نے خود کو ایک نئی روشنی میں دیکھا۔ میں صرف خود کو نقصان پہنچانے والی اور زخموں سے بھری شخص نہیں ہوں۔ مجھ میں قابلیت ہے۔ میرے پاس دینے کے لیے بہت ساری محبت ہے۔ اس سب سے اوپر، میں ایک ماں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp