ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کا لطف


مولانا فضل الرحمن کا دھرنا جاری ہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ دھرنے کے مقاصد حاصل کرپائیں گے یا کہ نہیں۔ میں اس بحث میں بھی الجھنے کوتیار نہیں کہ دھرنے کے احداف کی قانونی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت کیا ہے۔ مجھے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ موجودہ دھرنا 2014 ء کے دھرنے سے کیونکر مختلف ہے۔ میں تو میلوں کوسوں دور سے ہانک کر لائے گئے لشکر کو دیکھتا ہوں۔ دانشوورں کو جب کہتے سنتا ہوں کہ مخصوص حئیت و ساخت کا یہ ہجوم پوری قوم کا ترجمان ہے توقف ِ افسوس ملتا ہوں۔

یہ ’عصبیت‘ سے پھوٹنے والی جہالت ہے، یا کہ اسے ’دانستہ فکری بددیانتی‘ کہا جائے ’؟ وہ جو کل تک انتہا پسندمذہبی رویوں اور ناموس رسالتؐ جیسے مقدس نعروں کے سیاسی استعمال کی مذمت فرماتے، جہادی جتھوں کی آبیاری اور ماضی کے دھرنوں کی پشت پناہی کے لئے اسٹیبلشمنٹ پر الزام دھرتے تھکتے نہیں تھے، آج لبرلز ملا گٹھ جوڑ کو جائز ثابت کرنے کے لئے لبرلز کی نئی نئی تعریفیں اور اقسام ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہے ہیں۔

اتوار کے روز اسلام آباد کے اندر سے گزرتے ہوئے مولانا کے لشکر کے کچھ سپاہیوں کو ٹولیوں کی صورت شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت اور تفریح گاہوں میں جھولے جھولتے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے میرا دل بے اختیارپسماندگی کے مارے ان سادہ لوح پردیسیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ مولانا ؤں کی آتشین تقریروں کی آنچ پرہفتوں سے سلگتے، اسلام کے محبت رکھنے والے ان مسلمانوں اور قا نون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین کسی متوقع ٹکراؤ کا محض سوچ کر ہی مگر اندیشہ ہائے دوردراز جھرجھری کی صورت میرے جسم سے گزر گئے۔ میرے دل میں ہزار وسوسے بے جا تو نہیں ہیں۔

سال 2002 ء کا ذکر ہے۔ پاک افغان سرحد کے قر یب چلغوزے کے قدیم جنگلوں میں گھری وادی شوال کے کھلے سرسبز میدانوں کے بیچوں بیچ پاک فوج کا ایک کمپنی ہیڈکوارٹر واقع تھا۔ اس کمپنی ہیڈکوارٹرکی کمان ایک باریش، دیندار اور نیک سیرت میجر صاحب کے پاس تھی، کہ جن کا نام میں بوجہ نہیں لکھ پارہا۔ یہ وہ زمانہ تھاکہ امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں افغانستان سے فرار ہوکر لاتعداد غیر ملکی دہشت گرد ہمارے قبائلی علاقوں میں پھیل چکے تھے۔

مقامی قبائلی کچھ اپنے قدیم رسم و رواج اور کچھ ان درندہ صفت غیر ملکیوں کی سفاکی کی بنا پر ان کے ہاتھوں تقریباً یرغمال ہوکر رہ چکے تھے۔ پاک افغان سرحد پر افغان اور مقامی عسکریت پسندوں کی آمدورفت پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ علاقے میں تناؤ عروج پر تھا، امریکہ کو ایک طاغوتی قوت کے طور پر دیکھا جارہا تھا اور علاقے میں پاک فوج کی آمد کی بناء پر فضا بداعتمادی اور بے یقینی سے مکدّر تھی، کسی بھی لمحے کوئی ایک چنگاری بھڑک کر سب جلا کر راکھ کرسکتی تھی۔

قبائلی عوام فطری طور پر مذہب سے شدید لگاؤ رکھتے ہیں، چنانچہ مخصوص گروہ ان سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات کو خوب ابھار رہے تھے۔ علاقے میں اعلانیہ جنگ نہ ہونے کے باوجود پاک فوج کے ”سرچ اینڈ کارڈن“ آپریشنز کی بناء پر متوقع جوابی ردعمل سے نمٹنے کے لئے پاک فوج کو سخت حفاظتی اقدامات کے احکامات موصول ہوچکے تھے۔ وادی شوال میں واقع کمپنی ہیڈکوارٹر میں مگر ماحول نسبتاً پرسکون تھا کہ جس کی بنیادی وجہ خودمیجر صاحب کی ذات تھی۔

ان کا ظاہری حلیہ اور دینداری پر مبنی معمولات مقامی قبائلیوں کو متاثرکرنے کو کافی تھے۔ قبائلیوں کو تو بتایا گیا تھا کہ پاک فوج مظلوم مسلمانوں کے خلاف طاغوتی امریکیوں کی اتحادی ہے، اور یہ کہ ان کے افسر انہی جیسا لباس پہنتے اور دینی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ میجر صاحب تو مگر ان تصّورات کے برعکس نکلے تھے۔ کچھ ہی روز میں مقامی قبائلیوں کی ان کے ہاں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ کمپنی میں ایک عارضی مسجد بنادی گئی تھی، جہاں پانچ وقت نمازوں کی امامت خود میجر صاحب کرتے۔

ہر نماز کے بعد میجر صاحب مختلف مذہبی مسائل پر گفتگو کرتے اور حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبائلیوں کے دلوں میں ان کا احترام اور ان کی اقتداء میں نمازیوں کی تعدادمیں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ باہمی اعتماد بڑھا تو مقامی لوگ نمازکے اوقات کے علاوہ بھی کمپنی ہیڈ کوارٹر میں بلا روک ٹوک آنا جانا شروع ہو گئے۔ میجر صاحب ان سے خوش دلی سے ملتے اور ذاتی مسائل اور تصفیہ طلب امور بھی زیر بحث آنے لگے۔

میجر صاحب کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کیا جانے لگا۔ اسی دوران ایک روز ایک معروف مذہبی سیاسی جماعت کے مقامی رہنما جو علاقے کی مسجد کے پیش امام بھی تھے، میجر صاحب کے پاس آئے اور ان کو قبائلیوں سے میل ملاقات میں مضمر خطرات سے آگاہ کیا۔ میجر صاحب نے مولانا کو احترام سے رخصت کیا، مگر اپنے معمولات کو تبدیل نہ کیا۔

آنے والے دنوں میں میجر صاحب کو چند ایک مقامی افراد نے بتایا کہ مولانا قبائلیوں کو میجر صاحب سے اس بناء پر دور رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر دین داری کے باوجودامر یکی طاغوت کے جرائم میں شریک فوج کا حصّہ تو ہیں۔ میجر صاحب اُڑتی پڑتی کسی بات کو اب بھی خاطر میں لانے کو آمادہ نہ تھے۔

کچھ ہی دنوں کے بعد ایک روز عشاء کی نماز میں معمول سے ہٹ کرصرف اِکّادُکّا قبائلی شامل ہوئے۔ اُسی رات، نصف شب کے بعد کمپنی ہیڈکوارٹر ہولناک دھماکوں سے لرز اٹھا۔ ماسوائے ڈیوٹی پر موجود چند سنتریوں کے حملہ آوروں نے گہری نیند سوئے اہلکاروں کو اچانک آن لیا تھا۔ اندھیرے کے اندر جس کو جو راہ سوجھی وہ اُدھر کو بھاگا۔ دوسری طرف، کامل یکسوئی کہ جس سے حملہ آوراندھیرے میں اپنے احداف کو تاک تاک کر نشانہ بناتے رہے، اس امر کی غمّاز تھی کہ ان کو نا صرف تمام سنتری پوسٹوں سے مکمل آگاہی حاصل تھی بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میجر صاحب اُن کو کہاں ملیں گے۔

چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں تین سے چار حملہ آور کمپنی ہیڈ کوارٹرکے ایک سرے پرواقع ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئے جہاں میجر صاحب ایک ڈاکٹر کے ہمراہ رہتے تھے۔ مسلح افراداندر داخل ہوئے تو میجر صاحب کمرے کے بیچ شلوار قمیص میں ملبوس کھڑے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل موقع پا کر اپنی چارپائی کے نیچے سرک چکے تھے۔ بدقسمتی سے بالا ہیڈ کوارٹر کی سخت ہدایات کے باوجود دونوں افسر نہتے تھے۔ ایک حملہ آور نے میجر صاحب کو دیوار کے ساتھ ٹیک کرکے بیٹھنے کا حکم دیا۔ حملہ آوروں میں ایک نے، جو بظاہر ان کا لیڈر معلوم ہوتاتھا، میجر صاحب کو کلمہ طیبہ پڑھنے کو کہا۔ آخری وقت دیکھ کر میجر صاحب نے کلمہ طیبہ پڑھا اور حملہ آوروں سے پوچھا، ”تم مجھے کیوں مار رہے ہو؟ کیا میں تمہارا مسلمان بھائی نہیں ہوں؟ “

اس افسوس ناک سانحے سے متعلق شہادتیں قلمبند کرنے کی ذمّہ داری مجھے تفویض کی گئی کہ جس کے دوران معجزانہ طور پر بچ جانے والے ڈاکٹر صاحب عینی شاہد کے طور پیش ہوئے۔ ان کی شہادت سے ایک بات تو عیاں ہوئی کہ قاتلوں کو میجر صاحب کے علاوہ کمرے میں موجودکسی اور فردکے قتل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

میجر صاحب کی شہادت اور اس جیسے چند ایک اور واقعات کے بعد قبائلی علاقے جو کہ اب تک بارود کا ڈھیر بن چکے تھے، آگ اگلنے لگے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں امریکہ کے خلاف اعلانِ جہاد کے ساتھ سڑکو ں پر آچکی تھیں۔ فتویٰ بازوں نے ہمارے شہداء کے جنازے پڑھنا بھی حرام قرار دے دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبائلی علاقوں میں بھڑکنے والی آگ ہمارے شہروں اور قصبوں تک پھیل گئی۔ شہروں میں ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعددہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعتیں ایک طرف واقعے کو امریکی جنگ میں ہماری شمولیت کا ردّعمل ٹھہرا کر ہمیں اس جنگ سے نکل آنے کی نصیحت بخشتیں، تو اسی سانس میں سانحے کی ذمہ داری ’ایجنسیوں‘ کے سر منڈھ دیتیں۔ دوسری طرف ہمارے لبرلز بھی حالتِ طیش میں فوج کو دہشت گردوں کی سرپرستی کے لئے موردِ الزام ٹھہرا کر ہمہ وقت اس کی پیٹھ پر تازیانے برساتے رہتے۔

دو عشروں پر جنگ اور ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے بعدکم از کم مذہبی انتہا پسندی کے باب میں قوم کو ایک حد تک یکسوئی نصیب ہوئی تھی کہ دوردراز سے گھیر گھار کر لائے جانے والے جتھے درالحکومت کے عین وسط میں ایک بار پھر خیمہ زن ہیں۔ کنٹینر سے ایک بار پھر سادہ لوح مسلمانوں کا لہو گرمایا جارہا ہے۔ آج ہی مولانا نے جب کنٹینر پر کھڑے ہو کر پوچھا کہ کیا سب ناموس رسالتؐ کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہیں، تو آسمان نعروں سے لرز اٹھا۔

آج پھرانہیں بتایا جارہا ہے کہ ملک میں امریکی و صیہونی حکومت قائم ہے جس کا گرانا عین مذہبی فریضہ ہے۔ ہر گزرتے دن کی بے آرامی، راتوں کی نیم بسری اور میلوں کی مسافت سے اکتائے ہوئے ہزاروں انسانوں کے اعصاب کو کب تک آزمایا جائے گا؟ میں یہ کیسے مان لوں کہ مولاناؤں اور مولاناؤں کی پشت پر کھڑے اچکزئیوں اور اس گٹھ جوڑ کی تائید میں دور کی کوڑیاں لانے والے دانشوروں کوصورتحال کی نزاکت کا ادراک نہیں؟ باربارایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے میں ہم لطف پاتے ہیں کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).