بابری مسجد کا تنازع: ایودھیا میں مسجد کے لیے زمین کہاں مل سکتی ہے؟


انڈیا کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کی متنازع اراضی کا فیصلہ سنیچر کو آيا جس میں حکومت کی جانب سے اکوائرڈ (قبضے میں لی گئی) تمام 67 ایکڑ زمین ہندوؤں کو دینے کی بات کہی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی کسی نماياں مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم ہے۔

لیکن سرکاری اہلکاروں کی جانب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ زمین ایودھیا شہر سے باہر کہیں دی جائے گی اور اس صورت میں ایودھیا کے مسلمانوں کو مسجد کے لیے مجوزہ زمین کو قبول کرنے میں تحفظات ہیں۔

ایودھیا میں جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا بادشاہ خان بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمے میں مسلمانوں کی جانب سے ایک فریق تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم لوگ بابری مسجد کی زمین کے لیے مقدمہ لڑ رہے تھے نہ کہ کسی دوسری زمین کے لیے۔ ہم کسی دوسری جگہ مسجد کے لیے زمین نہیں چاہتے۔ اس کے بجائے ہم وہ پانچ ایکڑ زمین بھی رام مندر کو پیش کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

بابری مسجد کی کہانی، تصویروں کی زبانی

بابری مسجد کیس: کب کیا ہوا؟

ایک مقامی عالم مولانا جلال اشرف کہتے ہیں کہ ’اگر مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کی ضرورت ہے تو ہم اپنی مسجد کے لیے زمین خرید سکتے ہیں، ہم حکومت پر منحصر نہیں ہیں۔ اور اگر حکومت ہمارے جذبات پر کچھ حد تک مرہم رکھنا چاہتی ہے تو وہ حاصل کی گئی زمین میں سے پانچ ایکڑ زمین دے کیونکہ اس میں 18 ویں صدری کے صوفی بزرگ قاضی قضوہ کے مزار سمیت بہت ساری درگاہیں اور قبرستان ہیں۔‘

اقبال انصاری نے جو کہ بابری مسجد کیس میں اہم مدعی تھے، کہتے ہیں کہ ’اگر وہ ہمیں زمین دینا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری سہولت کے حساب سے حکومت کی حاصل کردہ 67 ایکڑ اراضی میں سے ہی دیں تو ہم لیں گے ورنہ ہم اس پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چودہ کوس (میل) دور جاکر مسجد بناؤ۔’

ایودھیا کے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر یونس خان کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں مسجد بنانے کے لیے زمین نہ تو حاصل شدہ 67 ایکڑ کے اندر اور نہ ہی کہیں ایودھیا میں اس کے باہر ہی چاہیے۔ ایودھیا میں ہماری مذہبی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی مساجد ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اسی کے ساتھ مسئلہ ختم ہوتا ہے۔’

آل انڈیا ملی کونسل کے رہنما اور بابری مسجد مقدمے کے ایک فریق خلیق احمد خان نے کہتے ہیں کہ ‘اگر وہ ہمارے جذبات پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں زمین حکومت کی حاصل کردہ ارضی میں سے دیں۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘حاصل شدہ اراضی میں 16 پلاٹ ہیں جن میں بابری مسجد والی جگہ اور شیلانیاس کی جگہ بھی ہے جہاں قبرستان ہیں، چار قناتی مسجد اور 18ویں صدی کے صوفی بزرگ کا مزار بھی ہے۔’

ایودھیا مقدمے کے ایک فریق حاجی محبوب نے کہا کہ ‘ہم لالی پاپ کو قبول نہیں کریں گے۔ انھیں یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں زمین کہاں دینا چاہتے ہیں، مسلمان اتنے غریب بھی نہیں کہ ایک مسجد کے لیے زمین کا انتظام نہیں کر سکیں۔’

ایودھیا میونسپل کارپوریشن کے کارپوریٹر حاجی اسد احمد نے کہا ‘ہم بابری مسجد کے بدلے کوئی زمین نہیں چاہتے۔ اگر عدالت ہمیں زمین دینا چاہتی ہے تو وہ ہمیں 67 ایکڑ زمین میں سے ہی دے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں زمین کا عطیہ نہیں چاہیے۔’

مسلمانوں کا خیال تھا کہ ایودھیا ایکٹ 1993 اور دیگر عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر انھیں اگر زمین ملتی ہے تو وہ حاصل شدہ 67 ایکڑ میں ہی ہوگی۔

لیکن ایودھیا میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں اتنا بڑا زمین کا ٹکڑا موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ زمین سریو دریا کے پار ہو سکتی ہے کیونکہ اترپردیش حکومت دریا پار ایک نیا شہر بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یا پھر شہر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر مسلم اکثریتی گاؤں شاہنوان میں دے سکتی ہے جہاں ایک مزار ہے جسے میر باقی کا مزار کہا جاتا ہے۔ میر باقی بابر کی فوج میں اہم عہدے پر فائز تھے اور انھوں نے ہی 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر کروائی تھی۔

بہر حال اترپردیش سنی وقف بورڈ نے 26 نومبر کو دارالحکومت لکھنؤ میں میٹنگ طلب کی ہے جس میں مجوزہ زمین کے بارے میں بات ہوگی۔

دریں اثنا اترپردیش حکومت نے ایودھیا کے قرب و جوار میں مسجد کی مجوزہ تعمیر کے لیے زمین کی نشاندہی شروع کر دی ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک افسر نے بتایا کہ ‘ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم نمایاں اور اچھی جگہ پر مسجد کے لیے زمین کی تلاش کریں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp