ماورائے سوچ کرپشن، احتساب و تبدیلی


All Posts

پاکستان کی عوام حکمرانوں کی رسہ کشی کے باعث ہمیشہ انہی کی منشاء کا ایندھن بنتی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ برس سے حکمرانوں کی عنایتوں میں پسی ہوئی بچاری عوام اپنے پیٹ گزر کے لئے اس حد تک پریشان رہی ہے کہ سیاسی طور پر اس کا ذہن منتشر ہی ہو کے رہ گیا ہے۔ ماضی کے ادوار میں جب سیاست کے میدان میں عوامی سیاستدان ہوا کرتے تھے جن کی رہنمائی کے سائے تلے ان کے کارکنان کی ذہنی و نظریاتی نشونما بھی یقینی بنتی تھی ان ادوار میں عوام کا سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ بہت دیرینہ تعلق ہوا کرتا تھا تاہم ان دنوں جب نظریاتی سیاست سیاستدانوں اور سیاسی کارکنان کے ذاتی مقاصد کے بھینٹ چڑھ چکی ہے تو ان تمام تر حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنے میں کوئی ہچکھچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ حکمراں نامی ایک مخلوق تو عوام کی پہنچ سے دور ہی ہے لیکن سیاستدان (منتخب ہونے سے قبل) اور عوام کا محظ ایک ہی رشتہ رہ گیا ہے اور وہ ہے ”ربط برائے سیلفی“ جبکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں سے اکثر و بیشتر کارکنان کا اپنی قیادت کے ساتھ تعلق کی بنیاد نوکری یا پھر کوئی چھوٹے ٹھیکہ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ناہموار سیاسی حالات کی بنا پر عوام کا سیاست سے اعتبار اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اس حوالہ سے یہ کہنے میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سیاست کو غلاظت بنانے کی خاطر یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا بھی نتیجہ ہے جس کے باعث عوام کی مجموعی سوچ محظ ایک ہی طرف جھک چکی ہے اور ہم بحیثیت اشرف المخلوقات اپنی سوچ و سمجھ کو بروئے کار لانے سے گریزاں ہوکر ایک بنی بنائی سکرپٹ پر عمل پیرا ہونے پر ایمان لا چکے ہیں جس کے باعث سیاست کو ناقابلِ تلافی تقصان پہنچا ہے تاہم اس عمل نے غیرسیاسی و غیر جمہوری حلقوں کی ”مینوفیکچرڈ“ سوچ کو تقویت بخشی ہے اور سیاست کو غلاظت کا نام دینے میں کامیابی بھی حاصل کی گئی ہے جو ایک جمہوری ملک کے لئے انتہائی تشویشناک بات ہے۔

خیر، یہاں بات ہو رہی تھی عوام کی سکڑ جانے والی سوچ کی جو ملکی حالات پر سوچنے سے گریزاں ہے اور ایسی ہی کیفیت میں سیاسی طور پر میرا نافرمان ذہن سوچنے سے منع کرنے کے باوجود بھی یہی کچھ کرنے میں مصروف ہے کہ جس کی اس ملک میں اجازت نہیں ہے۔ چونکہ ذہن کھل کر اپنے اظہار میرے ساتھ بھی نہیں کر پارہا لیکن باوجود اس کے مجھے یہ لگتا ہے کہ سیاست سے ناآشنا اس دماغ کو اپنے ملک کے حکمرانوں کی جانب سے اس حد تک محروم رکھا گیا ہے کہ اس کو اس وقت سیاستدانوں کی تقاریر اور ان کے ذاتی مقاصد کے بارے میں سننے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔

ہاں البتہ اسی کیفیت میں کم از کم حکمرانوں کی ستائی عوام میں سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں ایک عام شہری ہونے کے ناتے ملکی معیشت، بین الاقوامی تعلقات، ٹیکس معاملات جیسے دیگر مسائل کی اصطلاح سے بھی واقف نہیں رہا کیونکہ میرے یعنی ایک عام آدمی کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کا پیٹ گزر کرنا ہے جس کی غرض سے مسلسل محنت و لگن کے لئے مجھے اپنے ملک کی حکومت نے کون کون سی سہولیات دے رکھی ہیں؟ یہ سوال میری سوچ کا محور ہے اور اگر مجھے اس سے فرصت ملے گی تب ہی میں باقی تمام عوامل پر سوچنے کے لئے اپنے ذہن کو آمادہ کر سکوں گا جو کم از کم موجودہ صورتحال میں تو ممکن نہیں ہے۔

ایسی کیفیت میں مجھ جیسا ایک عام پاکستانی یہ ضرور سوچتا ہے کہ اپنے بچوں کی روزی روٹی کی خاطر دن رات محنت کرنے والے متوسط طبقہ کے لئے کون سا حکمران کچھ بہتر تھا کہ جس کے دور میں کسی حد تک سہولیات فراہم ہوئی تھی۔ دیہی سندھ سے تعلق ہونے کے باعث میں پیپلزپارٹی کی بدترین حکومت کا وہ اثیر ہوں کہ جس کے لئے روزگار کے مواقع ”نقدی کمیشن“ سے منسلک تھے۔ اس دیس کا باسی ہوں کہ جس کے حاکم نے بینظیر کارڈ کے نام پر میرے دیس کی خواتین کو بینک کی دہلیز پر خوار کرنے کی تو راہ بتائی لیکن اس نے انہی خواتین کے بچوں کو برسرِ روزگار بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔

ایک ایسے بدنصیب حکمراں کے سلطنت کا رہائشی ہوں کہ جس کے دورِ حکومت میں میرے سانس لینے کا حق بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کے پاس گروی تھا اور اپنے حلقہ کے منتخب اسمبلی میمبر سے سوال کرنے پر مجھے مارنے کی دھمکیاں برداش کرنی پڑی۔ ایسی کیفیت میں ملک کی بدلتی صورتحال پر ذہن سوچنے سے قاصر ہے۔ حکمرانوں کے دفاع میں ”چونکہ چنانچہ“ کا وقت تو ہوگا لیکن ذہن میں سوچ کی سکت بالکل بھی نہیں ہے۔

جس تبدیلی کا سبزباغ دکھا کر مہنگائی اور ٹیکس کے بوجھ سے دوچار کیا گیا اور پھر شکوہ کرنے پر میڈیا پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ آگے آگ اور پیچھے پانی کی اس صورتحال میں نہ جانے کیوں ایک ایسی چیز گذشتہ کچھ ماہ سے مسلسل ذہن پر دستک سے رہی ہے کہ اقرباپروری اور کسمپرسی جیسی زندگی کے آسماں سے مہنگائی اور صداؤں پر پابندی کی کھجور میں اٹکتے وقت ایک ایسی حکمرانی بھی یاد آرہی ہے کہ جس کے دورِ حکومت میں ایک عام شہری جب بیروزگار تھا تو اسے کالی پیلی اور پھر ہری ٹیکسی عطا کی گئی، اسی حکومت میں دورانِ تعلیم حکومت کی جانب سے طلباء کو نہ صرف مفت لیپٹاپ دیے گئے بلکہ ان کو ماسٹرز کے دوران تعلیمی اخراجات بھی واپس کیے گئے، ایک عام آدمی کراچی یا حیدرآباد سے اسلام آباد یا لاہور کی طرف سفر کرتا تھا تو ناقص سڑکوں کے باعث راستے میں گھنٹوں تک خوار ہونا اس کا مقدر بن چکا تھا جس کے بعد اسی حکومت کی جانب سے بنائے گئے موٹروے کے باعث سفری سہولیات آسان بن چکی تھیں، ایک عام شہری کے لئے کراچی میں جانا اپنی جان کے ساتھ کھیلنے کے مترادف تھا لیکن اسی حکومت نے کراچی کی حالات کو عام عوام کی امنگوں کے عین مطابق بنایا کہ آج لوگ کراچی میں بلا خوف و خطر پھرتا ہے تو اس بات پر سوچتا ضرور ہے۔

اس کے علاوہ عام آدمی کے لئے اس حکومت سے قبل ملک میں ریل گاڑی ایک خواب بن کر رہ گئی تھی لیکن اسی حکومت میں ریل گاڑی جو ایک عام آدمی کے ساتھ ہی منسلک ہے، اس نے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں اور عوام اسے مستفید ہوا کرتی تھی۔ میرا قطعی طور پر اس حکمراں کی جانب کوئی دانستہ یا غیر دانستہ اشارہ ہے اور نہ ہی کوئی ہمدردی لیکن یہاں بات حکومتوں کی ترجیحات کی ہے کہ عوام کے مشکل وقت میں کون سی حکومت عوامی حکومت کہلانے کا اخلاقی حق رکھتی ہے؟

چونکہ حکمرانوں کے کھوکھلے وعدوں کے ہاتھوں پامال ہونے والی بچاری اس قوم کو محظ اپنے جینے کے حق یعنی ان کی زندگی میں سہولیات سے ہی ان کو غرض ہے تو عوام یہ بات نہ چاہتے ہوئے بھی سوچ ضرور رہی ہے کہ بھلا گذشتہ کئی دہائیوں سے کرپشن اور حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے شکنجہ میں پلنے والی اس قوم کو حکمراں اپنی ذات کے لئے استعمال ہونے والے سرکاری ذرائع میں سے کوئی حصہ تو چاہیے ہی نہیں تو اس صورت میں عوام محظ یہ سوچ رہی ہے کہ کس کے دورِ حکومت میں ہمیں سہولیات میسر ہوئیں کہ جسے ہم یاد رکھ پائیں؟

چنانچہ، سرکاری خزانہ پر بوجھ کو جواز بنا کر عوام کے لئے مشکلات میں اضافہ کرکے انہیں یہ بتانا کہ ہمارے وزیرِ اعظم نے دورہِ امریکہ کے دوران شلوار قمیض پہن کر نئی تاریخ رقم کرلی اور محض کرپشن کی سنی سنائی ٹیپ کو چالو کردینا، یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک عام آدمی ہونے کی غرض سے مجھے اپنی زندگی میں ملنے والی سہولیات سے زیادہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کیونکہ بھوک، افلاس، مہنگائی، ٹیکس کے بوجھ اور اس طرح کے تمام مسائل میں کرپشن، احتساب و تبدیلی وغیرہ عوام کے ذہن سے ماورا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).