مجاہدین خلق کے البانیہ میں مقیم ارکان واپس ایران کیوں جانا چاہتے ہیں؟


ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

البانیہ گذشتہ چھ برس سے ایرانی حزبِ اختلاف کے ایک گروپ مجاہدین خلق کا اڈہ رہا ہے تاہم اس گروپ کے سینکڑوں اراکین اسے چھوڑ چکے ہیں۔

ان میں سے کچھ کو یہ شکایت رہی کہ گروپ کے سخت ضابطے انھیں شادی نہ کرنے اور خاندان سے دور رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس گروپ کے کئی درجن افراد البانیہ کے دارالحکومت تِرانہ میں میں بدظنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رہے ہیں۔ وہ ایران واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں۔

مجاہدینِ خلق کے ان بدظن اراکین میں سے ایک نے بی بی سی کو اپنی دکھ بھری کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ میں نے’اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ 37 سال تک بات نہیں کی۔ میرے گھر والے سمجھتے تھے کہ میں مر چکا ہوں لیکن جب میں نے انھیں بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، میں ابھی بھی زندہ ہوں اور یہ کہ میں البانیہ میں رہ رہا ہوں تو یہ سن کر وہ زار و قطار روئے۔‘

غلام میرزئی کے لیے بھی کئی سال بعد پہلی بار اپنے خاندان سے فون پر رابطہ کرنا ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔ غلام میرزئی اب 60 سال کے ہو چکے ہیں اور دو سال پہلے وہ تِرانہ کے نواح میں واقع مجاہدین خلق کے فوجی طرز کے کمپاؤنڈ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اب وہ شہر میں بہت پریشانی کی حالت میں رہ رہے ہیں اور انھیں اپنے ساتھیوں کی طرف سے اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ وہ ان کی ازلی دشمن یعنی ایران کی حکومت کے لیے جاسوسی کر رہے ہیں۔

مجاہدینِ خلق کی اپنی ایک خونریز لڑائی کی تاریخ ہے۔

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

غلام میرزئی جو البانیہ میں مجاہدینِ خلق کے کیمپ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے

اسلامی اور مارکسی نظریے کے حامل شدت پسندوں کے اس گروپ کے ارکان نے 1979 میں انقلاب ایران کی حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں شاہ ایران کی بادشاہت ختم ہوئی تھی لیکن آیت اللہ خمینی سے بھی ان کے تعلقات جلد ہی خراب ہو گئے۔

جب حکومت نے ان مجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کی تو انھیں ملک سے فرار ہونا پڑا۔

مجاہدینِ خلق کو 1980-88 تک ایران عراق جنگ کے دوران عراق نے پناہ دی اور یہ صدام حسین کے ساتھ مل کر اپنے ملک کی فوج کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔

غلام میرزئی کو عراقی فوج نے اُس وقت جنگی قیدی بنایا تھا جب وہ ایران کے ایک فوجی کے طور پر عراق کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ انھوں نے عراق میں آٹھ سال تک جنگی قیدی کے طور پر گزارے۔ میرزئی جیسے جنگی قیدیوں کو ایران مخالف گروپ مجاہدین خلق میں شامل ہونے کی ترغیب دی گئی۔ انھوں نے قید سے نکلنے کے لیے ایسا ہی کیا۔

میرزئی اب اس گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ وہ اب ان ایسے سینکڑوں ایرانیوں کی طرح ہیں جو مجاہدینِ خلق کے البانیہ منتقل ہونے کے بعد اس سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ غلام میرزئی کی طرح اپنے خاندان کی کچھ مالی مدد کے ذریعے مقامی سمگلروں کی بدولت یہ لوگ البانیہ سے باہر یورپ میں کہیں اور متنقل ہورہے ہیں جبکہ ان میں سے دو ایسے ہیں جو واپس اپنے وطن ایران واپس پہنچ چکے ہیں۔ لیکن درجنوں ایسے ہیں جو ترانہ میں کسی بھی ملک کی شہریت کے بغیر اور کام کرنے کے حق سے محروم زندگی گزار رہے ہیں۔

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

سنے 1982 میں ایرانی حکومت نے مجادہین خلق کے ارکان کی پکڑ دھکڑ شروع کردی تپی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنگ لڑنے کا طویل تجربہ رکھنے والی یہ امریکہ اور یورپ کی نظر میں سابقہ دہشت گرد تنظیم مشرقی یورپ کے ایک دور دراز خطے تک کیسے پہنچے۔

امریکہ کی طرف سے 2003 میں عراق حملے کے بعد اس گروپ کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ اس تنظیم کو حفاظت فراہم کرنے والے صدام حسین کے بعد اس گروپ پر حملوں میں اضافہ ہوا جس سے ان کے سینکڑوں اراکین مارے گئے یا زخمی ہو گئے۔

ایک بڑے انسانی المیے کے خدشہ کی وجہ سے امریکی حکومت نے البانیہ کی حکومت سے سنہ 2013 میں رابطہ کیا اور راضی کیا کہ وہ مجاہدینِ خلق کے 3000 اراکین کو ترانہ میں کسی جگہ پناہ دے دے۔

ترانہ کے سابق میئر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما لُلزِم باش جو اُس وقت حکومت میں تھے اور اب حزبِ اختلاف میں ہیں، کہتے ہیں کہ ’ہم نے انھیں پناہ دی تاکہ ان پر کوئی حملہ نہ کرے، انھیں ہراساں نہ کرے اور جس جگہ پر اب ہیں وہاں انھیں ایک معمول کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا۔‘

البانیہ کی سیاست میں بہت زیادہ دھڑے بندی ہے، بلکہ آپس میں سخت لڑائی بھی ہے۔ لیکن مجاہدینِ خلق کے معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی بظاہر اپنے ایرانی مہمانوں کے حامی ہیں۔

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

سنہ 1984 میں ایران-عراق جنگ کے دوران مجاہدینِ خلق کی خاتون ارکین عراق میں فوجی تربیت لیتے ہوئے۔

مجاہدین خلق کے لیے یہ ایک اجنبی ماحول ہے۔ البانیہ میں مجاہدین خلق کے کئی اراکین کو شہر کے مضافات میں واقع فلیٹوں میں بسایا گیا تھا اس لیے تنظیم کا ان پر کنٹرول عراق کی نسبت کمزور تھا۔ عراق میں تو ان اراکین کی زندگی کا ہر پہلو کنٹرول میں ہوتا تھا لیکن ترانہ میں چاہے عارضی طور پر ہی سہی، ان کے پاس قدرے ایک آزاد زندگی گزارنے کا زیادہ موقع تھا۔

مجاہدین خلق سے منحرف ہونے والے ایک اور ایرانی حسن حیرانی نے بتایا کہ ’ان فلیٹوں کے پیچھے ایک غیر آباد زمین تھی جہاں ہمارے کمانڈرز ہمیں جسمانی مشق کے لیے بلاتے تھے۔‘

حیرانی اور ان کے ساتھی اس غیر آباد رقبے سے چوری چھپے کھسک جایا کرتے تھے اور قریبی انٹرنیٹ کیفے میں چلے جاتے تھے جہاں وہ اپنے اہلِ خانہ سے رابطہ کرتے تھے۔

جب ہم عراق میں تھے اور اپنے گھر فون کرنا چاہتے تھے تو تنظیم ہمیں کمزور کہتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا اپنے اہلِ خانہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن جب ہم ترانہ منتقل ہوئے تو ہمیں ذاتی استعمال کے لیے انٹرنیٹ مل گیا۔‘

حسن حیرانی

حسن حیرانی کے مطابق ان کے کمانڈر فلیٹوں کے پیچھے ایک غیر آباد زمین پر جسمانی مشق کے لیے بلاتے تھے

تاہم سنہ 2017 کے اواخر میں مجاہدینِ خلق تنظیم ایک نئے ہیڈکوارٹر میں منتقل ہوگئی۔ نیا کیمپ دارالحکومت ترانہ سے 30 کلو میٹر دور شہر سے باہر ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر تعمیر کیا گیا تھا۔

کیمپ میں داخلے کے لیے لوہے کے بڑے بڑے دروازے ہیں، اس پر ایک بہت شاندار قسم کی محراب ہے جس پر ببر شیر بنائے گئے ہیں۔ اس میں ایک سڑک جس کے دونوں جانب درختوں کی قطاریں ہیں جنھیں ان ہزاروں ایرانیوں سے منسوب کیا گیا ہے جو ایران کی حکومت کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے ہیں۔

بغیر دعوت کے پہنچنے والے صحافیوں کا یہاں خیر مقدم نہیں کیا جاتا لیکن اس برس جولائی میں ہزاروں افراد یہاں مجاہدین خلق کی ’ایران کو آزاد کرو‘ کے نام سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شریک تھے۔ دنیا بھر کے اہم رہنماؤں سمیت، البانیہ کی اہم شخصیات اور کیمپ کے قریبی گاؤں منزے کے لوگوں نے مجاہدین خلق کے اراکین اور ان کی رہنما مریم رجاوی کے ساتھ اس رنگا رنگ تقریب میں شرکت کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی نے بھی اس تقریب سے خطاب کیا تھا۔ انھوں نے تقریب کے اس ہال میں مرد اور عورتوں کی الگ قطاروں میں یونیفارم میں ملبوس مجاہدین خلق کے ان اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں آزادی کے لیے وقف کر دی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر آپ انھیں ایک اندھا دھند اپنے لیڈر کی پیروی کرنے والا سمجھتے ہیں تو پھر آپ کی سوچ میں کچھ خرابی ہے۔‘ جولیانی جیسے امریکہ کا بااثر سیاستدان مجاہدین خلق کے ایران میں حکومت کی تبدیلی کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے منشور میں انسانی حقوق کا احترام، جنسی برابری اور شراکتی جمہوریت شامل ہے۔

لیکن حسن حیرانی اب اس تنظیم سے متنفر نظر آتے ہیں۔ تنظیم میں لیڈرشپ کے ان کی نجی زندگی پر ظالمانہ کنٹرول کی وجہ سے انھوں نے اس سے گذشتہ برس علیحدگی اختیار کی۔ حیرانی مجاہدین خلق کی تکثیریت پسندی سے متاثر ہو کر بیس برس قبل اس کے رکن بنے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ان کا پروگرام بہت جاذب تھا۔ لیکن اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر آپ اپنے اراکین کی روح کو کچل نہیں سکتے ہیں۔‘

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

Hassan Heyrany
حسن حیرانی سنہ 2006 میں عراق کے ایک کیمپ میں۔

وہ بتاتے ہیں ’ہمارے پاس ایک چھوٹی سے نوٹ بک تھی اور ہمیں کہا گیا تھا کہ اگر آپ میں کسی وقت بھی کوئی جنسی خواہش پیدا ہو تو آپ اسے نوٹ کرلیں۔ مثال کے طور پر میں نے آج صبح ایستادگی محسوس کی۔‘

مجاہدین خلق میں عشق محبت اور شادی وغیرہ پر پابندی عائد ہے۔ ایسا ہمیشہ نہیں تھا۔ بچے اور والدین بھی مجاہدین خلق میں شامل ہوتے تھے۔

پھر ایک مرتبہ ایران کے ایک بڑے حملے میں شکست کے بعد مجاہدین خلق کی قیادت نے کہا کہ اس شکست کی وجہ اراکین کا اپنی نجی زندگیوں میں دلچسپی لینا تھا۔ اس کے بعد طلاقوں کا تانتا بندھ گیا۔ بچوں کو کیمپ سے الگ کردیا گیا اور انھیں یورپ کے مختلف شہروں میں لوگوں نے گود لے لیا اور اس طرح مجاہدین خلق کے اراکین نے یکسوئی کے ساتھ اپنی تنظیم کے ساتھ وفاداری کا حلف لیا۔

حسن حیرانی نے مزید بتایا کہ انھیں یہ بھی ہدایت تھی کہ وہ اپنی نوٹ بک میں اپنے ذہن میں آنے والے خیالات بھی درج کریں۔

’مثال کے طور پر جب میں نے ٹیلی ویژن پھر ایک بچے کی شکل دیکھی تو میں نے خواہش محسوس کی کہ میرا بھی کوئی بچہ ہو، میرا اپنا کوئی خاندان ہو۔‘

حیرانی کہتا ہے کہ ’مجاہدین خلق کے کمانڈر اس نوٹ بک میں درج باتیں روزانہ کے اجلاس میں دوسرے اراکین اور ساتھیوں کے سامنے پڑھتے۔ اسے برداشت کرنا کافی مشکل تھا۔‘

اب وہ منزے میں مجاہدین خلق کے کیمپ کا جورج اورول کے ناول ’اینیمل فارم‘ کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اینیمل فارم ڈکٹیٹر سٹالِن کے دور کے روس کی شکل پر تنقید تھی۔ حیرانی کہتا ہے کہ ’یہ ایک مسلکی تنظیم لگتی تھی۔‘

ایک سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ مجاہدین خلق کا ترانہ کا کیمپ ایک ’منفرد ثقافتی گروپ‘ لگتا ہے نہ کہ ایک مسلکی ادارہ۔

بی بی سی ان تمام باتوں کی مجاہدین خلق سے وضاحت نہ حاصل کرسکا کیونکہ انھوں نے سرے سے بات ہی کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن البانیہ جو کہ ایک ایسا ملک ہے جس نے کئی دہائیوں تک کمیونسٹ دور کی بدترین آمرانہ نظام کا سامنا کیا تھا، وہاں مجاہدین خلق کی قیادت کے اس سخت گیر رویے کے لیے ایک ہمدردی ہے، کم از کم وہ ذاتی تعلقات کی ممانعت کو مناسب سمجھتے ہیں۔

حکمران جماعت سوشلسٹ پارٹی کی سابق رکنِ پارلیمان اور حقوقِ نسواں کی حامی ایک ناول نگار ڈیانا کولی کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات مشکل ترین حالات میں آپ کو مشکل ترین فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‘

’انھوں نے اپنے ملک کو آمریت سے آزاد کرانے کی زندگی بھر جنگ لڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ بعض اوقات ہم ایک مشکل مقصد پر یقین کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک ذاتی قربانی ہے اور میں اس ذہنیت کو سمجھ سکتی ہوں۔‘

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

مجاہدین خلق کے البانیہ کے ہیڈ کوارٹر میں حاتون گارڈز۔

اس کے باوجود البانیہ کے کئی شہریوں کا خیال ہے کہ مجاہدینِ خلق کا وجود ان کے ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔

دو ایرانی سفارتکاروں کو مجاہدین خلق کے خلاف تشدد آمیز منصوبہ بندی بنانے کے الزام میں ملک سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے ایرانی حکومت پر ہالینڈ اور فرانس میں مجاہدین خلق سمیت اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی سازشوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔ (ترانہ میں ایرانی سفارت خانے نے ان الزامات پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔)

حکمران سوشلسٹ پارٹی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ایک ذریعے نے تشویش کا اظہار کیا کہ انٹیلیجینس سروسز کے پاس مجاہدین خلق کے تربیت یافتہ ڈھائی ہزار فوجی اراکین پر نگرانی رکھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ’جس کے پاس بھی دماغ ہے وہ ان کا یہاں وجود قبول نہیں کرے گا۔‘

ایک سفارت کار کا کہنا ہے کہ منحرفین میں سے کچھ تو یقینی طور پر ایرانی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ غلام میرزئی اور حسن حیرانی پر بھی مجاہدین خلق نے تہران کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیے ہیں۔ تام وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

اب دونوں ہی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ایران میں اپنے خاندان کی مدد کی بدولت حیرانی اب ایک کافی شاپ کھول رہے ہیں اور ان کا ایک البانیہ کی ایک خاتون کے ساتھ معاشقہ چل رہا ہے۔ چالیس برس کے حیرانی مجاہدین خلق کے اپنے کئی سابقہ ساتھیوں سے عمر میں چھوٹے ہیں اور وہ بہت پُرامید ہیں۔

غلام میرزئی کی حالت زیادہ تشویشناک ہے۔ ان کی صحت بہتر نہیں ہے، عراق کے کیمپ میں جب بمباری ہوئی تھی تو وہ زخمی ہوئے تھے تب سے وہ لنگڑا کے چلتے ہیں اور اب ان کے پاس پیسے کی بھی کمی ہے۔

وہ اپنی زندگی میں کی گئی غلطیوں کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ان غلطیوں کا اُنھیں اُس وقت احساس ہوا جب اُن کا اپنے خاندان کے ساتھ رابطہ قائم ہوا۔

جب وہ عراق کے خلاف جنگ میں لڑنے کے لیے ایرانی فوج میں شامل ہوئے تھے تب اُن کا بیٹا ایک ماہ کا تھا۔ جب ایران اور عراق کی جنگ کا خاتمہ ہوا تو ان کی بیوی اور خاندان کے دوسرے افراد عراق میں مجاہدین خلق کے کیمپ میں میرزئی کو تلاش کرنے آئے تھے لیکن مجاہدین نے انھیں واپس بھیج دیا اور اُسے ان کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

ایران مجاہدینِ خلق البانیہ

Hassan Heyrany
ترانہ میں غلام میرزئی۔

60 برس کے میرزئی کو یہ اس وقت پتہ چلا کہ اس کا بیٹا اور اس کی بیوی اسے کتنی شدت کے یاد کرتے ہیں اور اس کے منتظر ہیں جب اس نے ان سے سینتیس برس کے بعد ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

‘انھوں نے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا کہ میرے خاندان والے مجھے تلاش کرنے آئے تھے۔ انھوں نے مجھے میری بیوی اور بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘

’میں اس جدائی کے پورے عرصے میں اپنی بیوی اور بیٹے کے بارے میں سوچتا رہا۔ کبھی سوچتا کہ شاید وہ مر گئے ہوں۔ مچھے کچھ معلوم نہیں تھا۔‘

جس بچے کو اس نے ایک ماہ کی عمر کے بعد کبھی نہیں دیکھا وہ اب چالیس برس کا ہے۔ اور اب میرزئی نے بڑے فخر کے ساتھ اس کی تصویر واٹس ایپ پر اپنی ڈسپلے تصویر کے طور پر لگایا ہوا ہے لیکن خاندان سے دوبارہ رابطہ بحال ہونا اس کے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ بھی ہے۔

’میں اس ساری صورت حال کا ذمہ دار ہوں، اس علیحدگی کا۔ میں رات کو سو نہیں پاتا ہوں کیونکہ میں ان کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ میں ہر وقت اعصابی تناؤ کا شکار رہتا ہوں اور غصے میں رہتا ہوں۔ میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔‘

شرم کے ساتھ جینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اور اب ان کی ایک ہی خواہش ہے۔ ’میں اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ رہنے کے لیے ایران واپس جانا چاہتا ہوں۔ اب میری یہی خواہش ہے۔‘

غلام میرزئی واپس جانے کے لیے ترانہ میں ایرانی سفارت خانے میں بھی جا چکے ہیں اور ان کے خاندان والے ایران میں ان کی واپسی کے لیے اپنی سطح کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔

تاہم ابھی کوئی پیش رفت سننے میں نہیں آئی ہے۔ لہٰذا وہ انتظار کر رہے ہیں۔ بغیر شہریت کے، بغیر پاسپورٹ کے وہ گھر واپس جانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp