بابری مسجد اور رام مندر تاریخ کے آئینے میں


تو بابری مسجد کا بالآخر فیصلہ سُنا دیا گیا۔ فیصلہ غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ ردّعمل بھی کچھ اسی نوع کا ہی ہونا تھا جو سُن اور پڑھ رہے ہیں۔ پہلی بات کہ کیا یہ فیصلہ منصفانہ ہے۔ اگر آرکیالوجیکل سروے انڈیا کی رپوٹس کو دیکھا جائے تو وہاں متنازع زمین پر صدیوں قدیمی مندر کی باقیات کے کوئی آثار نہیں ملتے ہیں۔

اس ضمن کا دوسرا بڑا حوالہ ہندوستان کی مشہور تاریخ دان رومیلا تھاپر Romila Thaparکا ہے جس کے مطالعے کا میدان ہی ہندوستان کی قدیم تاریخ ہے جس کے ہاں مندر کی باقیات کی نفی ہے۔ اب یہ دونوں اہم حوالے بابری مسجد کی تعمیر مندر کی باقیات پر ہوئی کے سوال کی خودبخود نفی کرتی ہے۔ دراصل قومیں جب رواداری اور برداشت جیسی صفات سے محروم ہونے لگیں تو اسی طرح کے کھیل تماشے اُن کے اندر شرو ع ہوجاتے ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل اگر پاکستان میں ہورہا ہے تو خیر سے ہندوستان بھی اسی راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔

گو اس وقت صدیوں پرانی یہ مسجد باقاعدہ عبادت گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہوتی تھی۔ ہاں البتہ مسلمانوں کا حق ملکیت اس پر قائم تھا۔ گو شیعہ اور سنی وقف بورڈوں میں اِس پر جھگڑا بھی تھا۔ اب ایسے میں وہاں رام جی کی پیدائش کا شوشہ چھوڑ کر اُس کے بیرونی صحن کو بتوں سے بھر کر تعصب اور انتہا پسندی کے عفریت کو کھل کھیلنے کا موقع تو فراہم ہوگیا ہے نا۔

موجودہ تناظر میں ایسی کھلم کھلا ڈھٹائی اسرائیل کی ہمارے سامنے آتی ہے کہ یروشلم جیسے مقدس شہر کو جو تین مذاہب عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک بے حد معتبر ہے اُسے جس طرح اسرائیل سمولچا نگل جانا چاہتا ہے۔ وہ سب پر عیاں ہے۔

صدیوں پہلے کے عرب دنیا میں آبسنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان جو اپنی عرب شناخت پر مطمین اور نازاں تھے انہیں گھروں اور عبادت گاہوں سے بے دخل کرکے اُن کی صدیوں پرانی تاریخی اور تہذیبی شناحت کو جس جس بھونڈے انداز میں مسخ کرنے کی کوشش ہورہی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔

اور کچھ ایسی ہی کوششوں میں اب ہندوستان ہے اور پاکستان میں بھی ایک طبقے کی تاریخ محمد بن قاسم کے ہی ہند میں آنے سے شروع ہوتی ہے۔

تو اب حالیہ تنازعے کے پسِ منظر میں ذرا ہم اپنی تاریخ کے آئینے میں جھانکتے ہیں تو کچھ منظر بڑے واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔

اسلام کے دوسرے خلیفہ عمر ؓ جیسے حکمران کا انداز جہانبانی آج کے حکمرانوں اور ملکوں کے لیے باعث مثال کہ عراق کے لیے اپنے جنرل کو روانہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ایک درخت بھی نہیں کٹنا چاہیے۔ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو پناہ دینا اور عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا۔

یہی عمرؓ فاتح بیت المقدس کی حیثیت سے جب یروشلم میں داخل ہوتے ہیں۔ پادری صفر ونیئس (Sophronious) سے مذاکرات، شہریوں کو عافیت کی یقین دہانی اور اُن کی حفاظت کا ذمہ۔ احتیاط کا یہ عالم کہ ظہر کا وقت کلیسائے قمامہ میں آیا۔ پادری نے گرجے میں نماز پڑھنے کا کہا تو فرمایا۔

اگر میں نے یہاں نماز پڑھ لی تو مسلمان میری تقلید کریں گے اور عیسائیوں کو گرجوں سے نکال دیں گے۔ باہر نکلے تو گرجا کی دہلیز پر چادر بچھا دی گئی۔ آپ نے نماز پڑھی مگر غلطی کا احساس ہوا تو اسی وقت فرمان لکھ کر پادری کے حوالے کیا کہ مسلمان کبھی گرجاؤں کی دہلیز پر نماز نہ پڑھیں گے۔

تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ شہر نے نہ خون ریزی دیکھی نہ ظلم و ستم کا کوئی جبر سہانہ کسی مفتوح کی دیس بدری عمل میں آئی نہ کسی مقدس مقام کو جلایا گیا اور نہ کسی پر زبردستی اسلام ٹھونسا گیا۔ اِس شہر کی صدیوں پرانی ظلم و بربریت اور خونی تاریخ میں ایسی روایت حضرت داؤد ؑ (کنگ ڈیوڈ) کے سوا کہیں نہیں تھی۔

ٍٍ دوسری کہانی اس کرد سالار صلاح الدین ایوبی کی ہے جس کے ہاتھوں حطین معرکہ ہوا تو اور وہ فتح یاب ہوا۔ فتح کے بعد جو سلوک کیا گیا اُس کا اعتراف خود عیسائی دُنیا نے کیا۔ عیسائیوں کو امن دیا ور اُن ستر ہزار مسلمانوں کا انتقام نہ لیا جو ایک صدی قبل بیت المقدس میں ذبح کردیے گئے تھے۔ رواق سلیمان اور گرجا میں اُن کے گھوڑے مسلمانوں کے ناپاک خون میں گُھٹنوں گُھٹنوں تک چلتے تھے۔ یہ سب وہ جانتا تھا مگر عفو اور درگزری کو شیوہ بنایا گیا۔

یہودیوں کو بھی واپس یروشلم آنے کی دعوت دی گئی۔ عیسائیوں نے انہیں صلیبی جنگوں کے دوران یروشلم سے نکال دیا تھا۔ اب یہ میری نہیں شہرہ آفاق پروفیسر شیلو موڈی گوٹائن D۔ Gaitein Shelomoکی رائے ہے جو صلاح الدین کے متعلق لکھتا ہے کہ اُس دور کے یہودیوں نے اُسے اپنا نجات دہندہ یعنی نیا سائرس کہہ کر اُس کا خیر مقدم کیا تھا۔

یہ زمانہ تھا لگ بھگ کوئی 705 اور 708 کے درمیان کا جب اُس اُموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے دمشق شام میں ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا سوچا۔ اس کی دلی تمنا اور خواہش تھی کہ اُس تین ہزار سال پرانی عبادت گاہ جو کبھی رومیوں، یونانیوں اور کبھی آرمینیایوں کی رہی تھی پرایک عظیم الشان مسجد بن جائے۔ اب جب عیسائی کمیونٹی سے بات کی تو وہ اِس کے لیے راضی نہ تھی۔ بہت بار کے مذاکرات اور ڈھیر ساری پیشکش کہ خلیفہ، اس کے عوض نہ صرف انہیں چرچ بنا کر دے گا بلکہ وہ دیگر جگہوں پر ان کی مزید عبادت گاہوں کی تعمیر کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ یوں اس کی تعمیر ممکن ہوئی۔ ولید اِسے بہت خوبصورت، بہت منفرد اپنی مثال آپ جیسا شاہکار بنانے کاخواہاں تھا۔ سچی بات ہے اوروہ اس میں کامیاب ہوا۔

سوال یہاں پیداہوتا ہے کہ آخر ولید بن عبدلاملک کو عین اسی جگہ مسجد بنانے کا کیوں خیال آیا۔ کیا یہ کہیں اور نہیں بن سکتی تھی۔ یقینا کہیں پس پردہ ایک عظیم تاریخی ورثے پر اپنے نام کا جھنڈا گاڑنے کی خواہش تھی۔ گواُس کی عظمت سے انکار نہیں کہ وہ بادشاہ وقت تھا۔ زور زبردستی ہوسکتی تھی مگر نہیں کی۔

دوسری مثال جب قرطبہ موروں کے قدموں میں سرنگوں ہوا تو یہاں بنی عبادت گاہ جو کبھی گوتھوں کے معبد کبھی رومیوں کے ٹمپل اورکبھی عیسائیوں کے سینٹ ونسٹ چرچ کی شکل میں موجود تھی۔ بہرحال یہاں یہ کہنا پڑے گا کہ عبدالرحمن اول میں رواداری اور اخلاقی اقدار کی پاسداری تھی۔ اس نے زور زبردستی والی کوئی کوشش نہ کی۔ بلکہ اسے خریدنے کی پیشکش کی تو پہلے انکار ہوا۔ پھر نصف پر آمادگی کا اظہار اور بعدازاں مزید جگہ منہ مانگے داموں پر بیچی اور خریدی گئی۔ قرطبہ کی مکمل فتح ہونے پر خستہ حال گرجوں کی مرمت اور تعمیر نو کے لیے بھی اجازت دی گئی۔ رومیوں کے ٹمپل اور عیسائیوں کے چرچ کو مسلمانوں نے مسجد میں بدل دیا۔ دمشق کی امیہ مسجد کی طرز پراس کی بنیاد رکھی گئی۔

اب ذرا اور آگے بڑھتے ہیں ایا صوفیہ کی طرف۔ قسطنطنیہ کی فتح میرے پیارے نبی کی بشارت تھی جس کی تکمیل سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ہوئی۔

ایا صوفیہ کی جوبازنطینی دور کا آرٹ اور مذہب کا مشترکہ شاہکار تھا۔ جسے سلطان محمد فاتح نے مسجد میں تبدیل کیا۔ اللہ اور اس کے پیغمبر کے نام کے ساتھ چاروں خلفاء کے ناموں کا اضافہ ہوا۔ ماں بیٹے کی تصاویر اور دیگر حالی موالیوں کی شبہیوں کو ڈھانپ دیا گیا۔ کِسی کی بے حرمتی اور کھرچ کھرچائی سے مکمل طور پر اجتناب برتا گیا۔

ایا صوفیہ کو دیکھنے کے دوران میرا خیال ہے مجھے سچائی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میرے اندر اس کے مسجد بننے کے عمل کی پسندیدگی کہیں تھی اور کہیں نہیں تھی۔ بعینہٰ اسی طرح جیسے مجھے مسجد قرطبہ میں گرجا گھر بنانا کبھی اچھا نہیں لگا۔ آخر آپ تاریخ کے ساتھ کھیل تماشے کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں۔ گو اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی فضاؤں و ہواؤں میں اذانوں کے دلکش سحر کی بازگشت مجھے ہانٹ کررہی تھی۔ میرے اندر کی جذباتی وارفتگی میں میری مسلمانیت کا بھی کچھ دخل ضرور تھا۔

اور مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی دونوں مختصر سی ملاقاتوں میں چند سیاحوں کی عیسائی ذہنیت کا بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھا کہ ان کے کیمروں کے فوکس حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اور اُن سے متعلق دیگر ہستیاں اور واقعات ہی تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ سیاحوں میں اُس وقت اتفاقیہ طور پر زیادہ آرتھوڈوکس کھیتڈرل کے ماننے والوں کی ہو۔

چلئے اس بحث کو چھوڑیں۔ اب پانچ سو برس سے مسجد کا چولا پہننے والی ایا صوفیہ کو ترکی کی جدید حکومت نے میوزیم کا درجہ دیتے ہوئے اسے مسجد اور گرجے کے جھنجٹ سے نکال کر اپنی روشن خیالی اور سیکولر پالیسی پر گامزن ہونے کا عندیہ دے دیا۔ یہ اچھا ہی ہے۔ جس کا جی چاہے وہ آئے اور اپنے دل کا رانجھا راضی کرلے۔

میں کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کرتے ہوئے فیصلہ کا اختیار آپ پر چھوڑتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).