ساؤتھ انڈین پکوان پاکستان میں بھی: ’والدہ سے ڈوسا بنانا سیکھا، آج وہی کام آ رہا ہے‘


ڈوسا

سوشل میڈیا پر انڈیا میں ڈھابوں پر بننے والے ڈوسے کی وڈیوز دیکھتے دیکھتے جب میری نظراسلام آباد میں فروخت ہونے والے ڈوسے کی ایک وڈیو پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔

کھانے پینے کی شوقین ہونے کے باوجود میرے علم میں اسلام آباد میں ایسا کوئی ریستوران نہیں تھا جہاں جنوبی انڈیا کے کھانے ملتے ہوں۔

تو بس میں نے ٹھان لی کہ خود بھی ڈوسا کھاؤں گی اور دوسروں کو بھی اس کے بارے میں بتاؤں گی۔

تھوڑی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی8 میں نورز کچن کے نام سے فوڈ سٹال ہے جہاں شام کے اوقات میں ڈوسا اور دیگر ساؤتھ انڈین کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے

’مجھے دیکھیں، مجھے فخر ہے اپنےآپ پر!‘

انڈیا: ’ڈوسا کنگ‘ کی عمر قید کی سزا برقرار

ریستوران کا کھانا فاسٹ فوڈ سے زیادہ نقصان دہ

جب میں نے نورز کچن کی مالک نورین خالد سے رابطہ کیا تو انھوں نے اصرار کیا کہ پہلے ہم خود ان کا ڈوسا کھائیں۔

ڈوسا اور نورز کچن

جب ہم ان کے سٹال پر پہنچے تو نورین خالد اپنے شوہر کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے ہمیں اپنے کچن کا خصوصی مصالحہ ڈوسا پیش کیا۔

پِسی دال اور چاول کے آمیزے سے بنے ڈوسے میں مختلف قسم کے اجزا ہوتے ہیں لیکن روایتی مصالحہ ڈوسا میں آلو بھرے جاتے ہیں اور اسے ناریل، کڑی پتہ اور ٹماٹر کی چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

میں زندگی میں پہلی مرتبہ ڈوسا کھا رہی تھی، اور ساتھ ساتھ نورین سے کچھ بنیادی سوال پوچھتی رہی۔

نورین، ان کی والدہ اور ڈوسا

نورین کی والدہ کا تعلق انڈیا کے شہر چنئی سے تھا اور وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئی تھیں۔

ڈوسا

‘فوڈی’ ہونے کے باوجود میرے علم میں اسلام آباد میں ایسا کوئی ریستوران نہیں تھا جہاں جنوبی انڈیا کے کھانے ملتے ہوں

نورین کہتی ہیں کہ انھوں نے تمام ساؤتھ انڈین پکوان، خاص طور پر ڈوسا، اڈلی، سامبھر اور مختلف قسم کی چٹنیاں، اپنی والدہ ہی سے بنانا سیکھیں، لیکن ڈوسا سیکھنے کی کہانی سب سے دلچسپ ہے۔

نورین نے ہمیں بتایا کہ ’شادی سے پہلے مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لیکن شادی طے ہوئی تو میرے شوہر کی واحد شرط یہ تھی کہ کھانا بنانا آئے نہ آئے، ڈوسا بنانا ضرور آنا چاہیے۔‘

’میں نے ان کے کہنے پر اپنی والدہ سے ڈوسا بنانا سیکھا اور آج وہ ہی میرے کام آ رہا ہے۔‘

اسلام آباد میں نورز کچن کا آغاز

نورین کو اسلام آباد میں نورز کچن چلاتے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں۔ وہ اس سے قبل ایک سکول میں پڑھاتی تھیں۔

انھیں سردیوں کی چھٹیوں میں ’فروزن فوڈ‘ کا کاروبار کرنے کا خیال آیا اور انھوں نے فروزن سموسے، رول اور نگٹس چھوٹے پیمانے پر فروخت کرنا شروع کیے۔

جب ان کے گھر کے بنے سموسے اور رولز کو بہت پسند کیا گیا اور اس کی مانگ بڑھنے لگی تو انھوں نے سکول کی نوکری چھوڑ کر اس کو بطور مستقل کاروبار اپنا لیا۔

ڈوسا

مسز نورین کو اسلام آباد میں نورز کچن چلاتے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں لیکن وہ اس سے قبل ایک سکول میں پڑھاتی تھیں

نورین نے بتایا کہ انھوں نے کاروباری سطح پر ڈوسا بنانے کا آغاز اسلام آباد کے پوش علاقے میں ہر اتوار لگنے والی فارمرز مارکیٹ سے کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہاں آنے والے مختلف ممالک کے سفیروں نے اس کو بہت پسند کیا۔

نورین کے مطابق ’پاکستان میں تعینات اس وقت کے انڈین سفیر کو تو ان کا ڈوسا اتنا پسند آیا کہ وہ انڈیا سے آنے والے ہر شخص کو کہتے تھے کہ اگر کسی نے پاکستان میں اصلی ڈوسا کھانا ہے تو نورز کچن کا کھائے۔‘

فارمرز مارکیٹ میں فوڈ سٹال کی کامیابی کے بعد انھوں نے اپنی رہائش کے قریب پاکیزہ مارکیٹ میں ایک چھوٹی سے دوکان لی جہاں پر وہ شام کو ڈوسا سمیت جنوبی انڈیا کے مختلف کھانے فروخت کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانیوں کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے انڈین اور پاکستانی کھانوں کا امتزاج بھی کیا ہے مثلاً ہمارے ہاں چکن تکہ ڈوسا، چکن پنیر ڈوسا، پیزا ڈوسا یہاں تک کہ نیوٹیلا ڈوسا بھی دستیاب ہے۔‘

ڈوسا

نورز کچن پر ہمیں مسالہ ڈوسا جن تین چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا گیا اس میں ناریل، کڑی پتہ اور ٹماٹر کی چٹنی شامل تھی

ڈوسا ویسے تو انڈیا کی ریاست کرناٹک کی پکوان ہے لیکن اسے انڈیا بھر میں بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ انڈونیشیا، ملیشیا اور سری لنکا میں بھی ایک مقبول ڈش ہے۔

اس کے علاوہ سفید ابلے چاول سے بنی ادلی اور اس کے ساتھ پیش کی جانے والی سامبھل بھی نورز کچن پر دستیاب ہے۔

نورین اپنے پکوانوں میں اپنائیت کیسے بھرتی ہیں؟

نورین نے بتایا کہ دال سے بنے سامبھل میں ڈلنے والی ایک خاص سبزی سوہانجنا کو وہ خود گھر میں اگاتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہاں ملنے والے ہر کھانے کی تیاری میں وہ بذات خود شامل ہوتیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سوہانجنا اور کڑی پتہ میں گھر میں اگاتی ہوں۔ سوہانجنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ اسی لیے سوہانجنا کی چائے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہے۔‘

ڈوسا

یہی نہیں بڑے پیمانے پر ڈوسا کے لیے دال اور چاول پیسنے کے لیے مشین بھی انھوں نے خود تیار کروائی ہے

یہی نہیں بڑے پیمانے پر ڈوسا کے لیے دال اور چاول پیسنے کے لیے مشین بھی انھوں نے خود تیار کروائی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں زیادہ مقدار میں ڈوسے کا آمیزہ بنانے میں بہت دقت ہوتی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کے لیے مشین راولپنڈی سے خود آرڈر پر تیار کروائی۔‘

’اس مشین سے تو اب میری زندگی بہت آسان ہوگئی ہے لیکن میری امی یہ سب خود ہاتھ سے پیستی تھیں۔‘

’ڈوسا بنانا ہنر کا کام‘

نورین بتاتی ہیں کہ جس دن ان کے گھر ڈوسا اور سامبھل بنتا تھا اس دن ایک تہوار کا سا سماں ہوتا تھا۔ ’ہم سب بہن بھائی مل کر اپنی امی کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اسی سے مجھے ڈوسا بنانے کا شوق پیدا ہوا۔‘

ڈوسا

نورین خالد کہتی ہیں کہ وہ بہت چھوٹی تھی جب وہ انڈیا گئی تھیں

نورین خالد کا کہنا ہے کہ ڈوسا بظاہر تو بنانا بہت آسان لگتا ہے لیکن اصل میں یہ ایک ہنر ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر انسان کے پاس ایک ہنر ہوتا جو ایک نہ ایک دن اس کے کام ضرور آتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میری والدہ سے سیکھا ہوا یہ ہنر آج میرے کام آرہا ہے۔‘

نورین خالد کہتی ہیں کہ وہ بہت چھوٹی تھیں جب وہ انڈیا گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے انڈیا میں جو ڈوسا کھایا اس کا ذائقہ بالکل میری امی کے ہاتھ کے ڈوسے جیسا تھا۔ اور اب میری کوشش ہے کہ میں اپنے کسٹمرز کو بھی ویسا ہی ذائقے دار ڈوسا فراہم کروں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp