طویل عمر کا راز: کیا واقعی رحمدلی سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے


رحمدلی

اگر آپ میں رحمدلی ہے تو اس کا آپ کو کیا فائدہ؟ سوائے اس کے کہ آپ دوسروں پر مہربانی کر کے خوش ہوتے رہیں؟ ہو سکتا ہے یہ بات سچ ہو، لیکن ایک تحقیقی مرکز سے منسلک سائنسدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ رحمدلی آپ کے لیے اس سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے اور اس سے آپ کی عمر میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں قائم ’بیداری کائینڈنیس انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر ڈینیئل فیسلر کہتے ہیں کہ یہ مذاق کی بات نہیں بلکہ ’ہم اس حوالے سے سائنسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دائرے میں بیٹھ کر رحمدلی رحمدلی نہیں کھیلتے، بلکہ ہم بات کر رہے ہیں نفسیات کی، بیالوجی کی، اور مثبت معاشرتی رابطوں کی۔‘

امریکہ میں رحمدلی یا اخلاص کے حوالے سے بحث شہ سرخیوں کی زینت حال ہی میں بنی ہے۔

گذشتہ ماہ جب سابق صدر براک اوباما ڈیموکریٹک پارٹی کے بزرگ رہنما اور شہری حقوق کے علمبردار الیجاہ کمنگز کی تدفین کے موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کر رہے تھے تو سابق صدر نے رحمدلی، صلح رحمی کا ذکر بڑے زور و شور سے کیا۔

یہ بھی پڑھیے

آخر ہم لمبی عمر کیوں نہیں جی رہے؟

کیا گیت گانے سے کوکین جیسا مزا آتا ہے؟

مذہب ہمیں ماحول دوست بناتا ہے یا ماحول دشمن؟

سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’ ایک مضبوط شخصیت (کی خصوصیات) میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ شخص رحم دل ہو۔ رحمدلی اور درد مندی کوئی کمزوری کی بات نہیں ہے۔ دوسروں کا خیال رکھنے میں کمزوری کی کوئی بات نہیں۔ آگر آپ کے اندر ایمانداری ہے اور آپ لوگوں سے عزت سے پیش آتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسروں سے کمترہیں اور ان کے مرہون منت ہیں۔‘

براک اوباما کے بعد ایلن ڈیجینرر نے بھی اسی قسم کی بات کی جب انہوں نے کچھ لوگوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کے ساتھ ان کی دوستی کتنی زیادہ ہے۔ ایلن ڈیجینرر کا کہنا تھا کہ ’جب میں کہتی ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے پر مہربان ہونا چاہیے تو میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ان لوگوں کے ساتھ صلح رحمی کریں جو صلح رحمی پر یقین رکھتے ہیں۔ میں کہتی ہوں آپ سب کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئیں۔‘

اس ہفتے عالمی سطح پر ’یومِ رحمدلی‘ منایا جا رہا ہے، اس لیے یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ رحمدلی کا مطلب کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

کچھ ماہرین نے انہی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان ماہرین کے بقول یہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے، بلکہ یہ زندگی موت کا سوال ہے۔

سابق امریکہ صدر اوباما

صلح رحمی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزور ہیں: براک اوباما

ڈینیئل فیسلر نے اپنی تحقیق میں جائزہ لیا کہ دوسرے لوگوں کو رحمدلی سے کام لیتے ہوئے دیکھ کر ہم اپنے اندر یہ جذبہ کیسے بیدار کر سکتے ہیں۔ ان کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو جنھیں دوسروں کی دیکھا دیکھی ’رحمدلی چمڑ‘ جاتی ہے۔

ان کے خیال میں ’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں رحمدلی نہیں پائی جاتی ہے۔ امریکہ کے اندر اور باقی دنیا بھر میں ہم دیکھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر مخلتف سیاسی نظریات یا مختلف مذاہب کی وجہ سے لوگوں میں انفرادی سطح پر بھی تناؤ یا کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

’اس کے باوجود دنیا میں رحمدلی پائی جاتی ہے۔ رحمدلی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات، جذبات اور عقائد کی جھلک آپ کے ان کاموں میں نظر آنی چاہیے جو آپ دوسروں کی خاطر کرتے ہیں، ایسے کام جو آپ دوسروں کے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ اس قسم کے کام خود اپنے آپ میں رحمدلی کی مثال ہوتے ہیں۔ ‘

اس کے برعکس بے رحمی سے مراد ’ایسے عقائد ہیں جو دوسروں کے لیے ناقابل برادشت ہوتے ہیں، اور آپ کے کام میں دوسروں کی بھلائی کی کوئی قدر نہ ہوتی۔

یہ بے رحمی والی بات ان لوگوں کو سمجھ آ سکتی ہے جن کو سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا تجربہ ہو چکا ہے، یعنی جب لوگ سوشل میڈیا پر لٹھ لیکر آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

ڈینیئل فیسلر کے بقول ’دوسروں کے پیچھے لٹھ لیکر پڑ جانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے، کیونکہ لوگ جب اپنا نام خفیہ رکھ سکتے ہیں تو اس بات کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا رویہ جارحانہ ہو جائے اور وہ دوسرے لوگ کے جذبات اور ان کی بھلائی کا خیال نہ کریں۔‘

’بیداری کائینڈنیس انسٹیٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھنے والوں کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں اس کام کے لیے بیداری فاؤنڈیشن کی طرف سے دو کروڑ ڈالر کی مالی امداد مل گئی۔ بیداری فاؤنڈیشن کے روح رواں جینیفر ہیرس اور میتھیو ہیرس ہیں۔

یہ انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ سائنس کی عمارت میں قائم ہے اور اس کا مقصد عام لوگوں اور ایسے رہنماؤں کی مدد کرنا ہے جو دوسروں میں رحمدلی جیسے اوصاف ابھار سکیں۔

مسٹر ہیرس کہتے ہیں کہ اس چیز پر تحقیق کرنے کی ضرورت تھی کہ ’اس جدید دنیا میں رحمدلی کا جذبہ اتنا کمیاب کیوں ہو گیا ہے‘ اور ہم ’سائنس اور روحانیت کے درمیان اس خلیج‘ کو کیسے پُر کر سکتے ہیں۔

انٹیسٹیوٹ میں جن تحقیقی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے ان میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں۔:

  • ماہرین بشریات اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ لوگوں میں رحمدلی کا جذبہ کیسے پھیلتا ہے۔
  • ماہرین عمرانیات تحقیق کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کو رحمدلی کی جانب کیسے راغب کیا جا سکتا ہے جن کا رویہ بے رحمانہ ہوتا ہے۔
  • اور ماہرینِ نفسیات اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ رحمدلی سے آپ کا مُوڈ کیسے اچھا ہو جاتا ہے اور ذہنی دباؤ کیسے کم ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ میں طلباء اور لاس اینجلیس کے علاقے کے ضرورت مند لوگوں کو یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ وہ کیسے ’مائینڈ فُل‘ بن سکتے ہیں یعنی اپنے ذہن میں احساس پیدا کر سکتے ہیں۔

مسٹر فیسلر کہتے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں کہ ’بُرا ذہنی دباؤ، یعنی ایسی صورت حال جب آپ کوشش کے باجود مشکل حالات کا سامنا نہیں کر پاتے، آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اچھا ذہنی دباؤ وہ دباؤ ہوتا ہے جب آپ کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے، لیکن آپ کو اس پر قابو پانے میں اطمینان ملتا ہے، جیسے کسی پہاڑ پر چڑھنا۔‘

’ایسے لوگوں کے درمیان رہنا آپ کے لیے اچھا نہیں ہوتا جن کو آپ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اور اس سے بری صورت حال وہ ہوتی ہے جب یہ لوگ آپ کے خلاف کھلی جارحیت پر اتر آتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس قسم کے لوگوں میں رہنے سے آپ کی زندگی واقعی کم ہو جاتی ہے۔‘

اس کے برعکس اگر آپ کو لوگوں سے صلح رحمی ملتی ہے اور آپ بھی ان سے رحمدلی سے پیش آتے ہیں، تو آپ نفرت والے زیریلے ماحول سے نکل آتے ہیں۔

یہاں تک کہ اگر آپ کسی ریستوران جاتے ہیں اور کافی چائے بنانے والی لڑکی یا لڑکا آپ سے مسکرا کے پوچھتا ہے کہ آپ کیسے ہیں، اس سے بھی آپ کی صحت پر بہتر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’رحمدلی کے بارے میں سوچنا، یہ سوچنا کہ آپ دوسروں کے ساتھ کیسے رحمدلی کر سکتے ہیں، اس سے بھی آپ کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ اس کے بھی صحت مندانہ اثرات ہوتے ہیں اور آپ کو ذہنی سکون ملتا ہے۔۔‘

’فوری پیغام`

انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماہرین کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیلی ہارڈنگ نے بھی رحمدلی کا مطالعہ کیا ہے جسے انہوں نے کتابی شکل میں ’دا ریبٹ افیکٹ‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔

ڈاکٹر ہارڈنگ کہتی ہیں کہ رحمدلی کے جذبے سے ’آپ کے جسم کے دفاعی نظام پر بھی اچھے اثرات ہوتے اور بلڈ پریشر پر بھی۔ اس سے لوگوں کو زیادہ طویل اور بہتر زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک بڑی حیران کن چیز ہے کیونکہ رحمدلی کی وافر مقدار دستیاب ہے اور آپ اسے (کسی دوا کے برعکس) جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں اور اس سے آپ اوور ڈوز کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ یہ چیز مفت میں دستیاب ہے۔‘

رحمدلی اور نرمی

ڈاکٹر ہارڈنگ کے بقول خود پر رحم کرنے کے مقابلے میں دوسروں سے رحمدلی سے پیش آنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

اپنی کتاب کے عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں نے خرگوش والی کہانی کبھی سنہ 70 کے عشرے میں پڑھی تھی۔ اس کہانی میں خرگوشوں کا ایک گروہ دوسرے خرگوشوں کے مقابلے میں زیادہ طویل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ خرگوش زیادہ اچھی زندگی اس لیے گزار رہے تھے کیونکہ ان کا مالک، یعنی وہ جو شخص اس گروہ پر تحقیق کر رہا تھا وہ زیادہ مہربان تھا۔‘

’بطور ڈاکٹر میں یہ نتائج دیکھ کر ششدر رہ گئی تھی۔ مجھے لگا کہ اس کہانی میں ہمارے لیے بھی ایک فوری پیغام موجود ہے۔‘

’رحمدلی چیزوں کو بدل دیتی ہے اور اس سے لوگوں کو پیچیدہ دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘

ڈاکٹر ہارڈنگ بتاتی ہیں کہ ’خود پر رحم کرنے کے مقابلے میں دوسروں سے رحمدلی سے پیش آنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‘

تا ہم خود اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کے ساتھ رحمدلی کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً ’اگر آپ اپنے دفتر، سکول یا گھر میں دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں، ان سے ہمدردی کرتے ہیں تو اس کے بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ طب کی دنیا میں ٹیکنالوجی بہتر ہو رہی ہو، لیکن آپ کبھی بھی انسانی ہمدردی کو مشینوں سے نہیں بدل سکتے ہیں۔ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے درمیان تعلق نہایت اہم ہوتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp