ٹیلنٹ کی کمی یا وسائل کا فقدان: پاکستانی کھلاڑی پروفیشنل سنوکر سے دور کیوں ہیں؟


سنوکر کھلاڑی

پاکستانی پروفیشنل سنوکر سے دور ہیں

پاکستان کے ہر شہر میں سنوکر کلبس اور پارلر موجود ہیں جہاں کئی نوجوان سنوکر کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی کھلاڑی پروفیشنل سنوکر سے دور ہیں۔

پاکستان میں سنوکر کا انتظام پاکستان بلیئرڈز اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کے پاس ہے جو ہر سال قومی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کرتی ہے۔

ایسوسی ایشن نے محدود وسائل کے باوجود نہ صرف کھلاڑیوں کی بیرون ملک بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کو ممکن بنا رکھا ہے بلکہ پاکستان میں ورلڈ اور ایشین چیمپیئن شپ کی میزبانی بھی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان سنوکر کا عالمی چیمپیئن بن گیا

محمد آصف دوسری بار سنوکر کے عالمی چیمپیئن بن گئے

’جہاں مبارکباد کوئی نہیں دیتا وہاں روزگار کون دے گا‘

2019 کا عالمی مقابلہ

پروفیشنل سنوکر کا سب سے پرانا اور معتبر ایونٹ ورلڈ پروفیشنل چیمپیئن شپ ہے جو انگلینڈ کے شہر شیفیلڈ کے کروسیبل تھیٹر میں منعقد ہوتا ہے

امیچر اور پروفیشنل سنوکر کا فرق

بین الاقوامی سطح پر سنوکر کی ایک دنیا وہ ہے جسے پروفیشنل کھیلا جاتا ہے۔

یہ مقابلے ورلڈ پروفیشنل بلیئرڈز اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کے تحت کھیلے جاتے ہیں اور انھی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کی عالمی رینکنگ بھی طے کی جاتی ہے۔

پروفیشنل سنوکر کا سب سے پرانا اور معتبر ایونٹ ورلڈ پروفیشنل چیمپیئن شپ ہے جو انگلینڈ کے شہر شیفیلڈ کے کروسیبل تھیٹر میں منعقد ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سنوکر کے عالمی چیمپیئن بننے والے کھلاڑی کو اس سال پانچ لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی انعامی رقم دی گئی ہے۔

سنوکر کی دوسری دنیا امیچر سنوکر ہے جس کے مقابلے انٹرنیشنل بلیئرڈز اینڈ سنوکر فیڈریشن کے تحت ہوتے ہیں۔ امیچر سنوکر میں بھی ہرسال ورلڈ چیمپین شپ ہوتی ہے ۔

امیچر سنوکر میں پروفیشنل سنوکر کے مقابلے میں پیسہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں عالمی امیچر چیمپیئن بننے والے پاکستانی کھلاڑی محمد آصف کو پہلے انعام کے طور پر صرف پانچ ہزار ڈالرز ملے ہیں۔

پروفیشنل سنوکر میں دنیا کے بہترین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں البتہ امیچر کھلاڑی بھی پروفیشنل بن سکتے ہیں جس کے لیے انھیں ابتدا میں کوالیفائنگ ٹورنامنٹس میں حصہ لینا ہوتا ہے۔

تصویر

حمزہ اکبر پروفیشل سنوکر تک پہنچنے والے واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں

پاکستانی کھلاڑی پروفیشنل سنوکر سے دور کیوں ہیں؟

بین الاقوامی سنوکر میں یہ بات عام ہے کہ کھلاڑیوں نے امیچر سنوکر کھیلنے کے بعد پروفیشنل سنوکر کو اپنایا اور بہت کامیاب رہے۔

ان میں کین ڈورتھی اور اسٹورٹ بنگھیم دو ایسے کھلاڑی ہیں جو امیچر اور پروفیشنل دونوں میں عالمی چیمپیئن رہ چکے ہیں۔

پروفیشنل سنوکر کھیلنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے کھلاڑی کا خود مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے یا پھر اس کے پاس ایک مستحکم اسپانسر ہو۔

پاکستانی کھلاڑی امیچر سطح پر کامیابیوں کے بعد پروفیشنل سنوکر کھیلنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن مالی مشکلات ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں جس کی ایک مثال حمزہ اکبر ہیں۔

حمزہ اکبر پروفیشل سنوکر تک پہنچنے والے واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں۔

انھوں نے سنہ 2015 میں ایشین سنوکر چیمپیئن شپ جیت کر پروفیشنل سنوکر میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا لیکن مالی مشکلات کے سبب ان کے لیے انگلینڈ میں قیام کے اخراجات اور ٹورنامنٹس کی انٹری فیسوں کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔

عالمی چیمپیئن محمد آصف نے سنہ 2012 میں جب پہلی بار ورلڈ امیچر ٹائٹل جیتا تو انھوں نے بھی پروفیشنل سنوکر کھیلنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن مالی وسائل کی کمی آڑے آ گئی۔

محد آصف

عالمی چیمپیئن محمد آصف نے سنہ 2012 میں جب پہلی بار ورلڈ امیچر ٹائٹل جیتا تو انھوں نے بھی پروفیشنل سنوکر کھیلنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن مالی وسائل کی کمی آڑے آ گئی

محمد آصف اس بار بھی پروفیشنل سنوکر کھیلنے کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ پہلے یہ آسانی تھی کہ ورلڈ امیچر چیمپیئن بننے کی صورت میں کھلاڑی پروفیشنل سنوکر کے لیے کوالیفائی کرجاتا تھا لیکن اب یہ طریقہ ختم کردیا گیا ہے اور اب کھلاڑی کو ایک ہزار پاؤنڈ ادا کر کے پروفیشنل سرکٹ میں رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے۔

عالمی اعزازات کے باوجود حکومت کی عدم دلچسپی

سنوکر ان چار کھیلوں میں سے ایک ہے جن میں پاکستان عالمی چیمپیئن بنا ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر اس کھیل اور اس کے کھلاڑیوں کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سنہ 2012 میں ہونے والی ورلڈ چیمپیئن شپ میں دو کھلاڑیوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان بلیئرڈز اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو مخیر حضرات سے مدد لینا پڑی تھی کیونکہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے صرف آٹھ لاکھ روپے دینے سے انکار کردیا تھا۔

جب محمد آصف نے وہ عالمی چیمپیئن شپ جیت لی تو قومی اسپورٹس پالیسی کے تحت ورلڈ چیمپیئن کے لیے مقرر کردہ ایک کروڑ روپے کی رقم بھی انھیں پوری نہیں ملی تھی۔

پاکستان بلیئرڈز اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کے چیئرمین عالمگیر شیخ کا کہنا ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے کہ اتنے زیادہ اعزازات کے باوجود سنوکر کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ایک دن یہ پہیہ رک جائے گا اور میڈلز آنے بند ہو جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں سنوکر کھیلنے والے کھلاڑیوں کی اکثریت متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ۔عالمی چیمپیئن محمد آصف اور چند کھلاڑیوں کو نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک نے ملازمتیں فراہم کی ہیں جن سے ان کی مالی مشکلات میں کمی آئی ہے۔

محمد آصف کو عالمی اعزاز جیتنے پر نیشنل بینک نے پانچ ہزار ڈالر انعام دینے کا بھی اعلان کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر اس کھیل اور اعزازات جیتنے والے کھلاڑیوں کی پذیرائی بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp