اندام نہانی سے متعلق پانچ حقائق جو ہر خاتون کے لیے جاننا ضروری ہیں


وجائنا

سوشل میڈیا پر وجائنا یعنی اندام نہانی کے حوالے سے بہت سی فرضی باتیں مشہور ہیں تاہم اب ایک خاتون نے عورتوں کے اس عضوِ مخصوصہ سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ٹھان لی ہے۔

ڈاکٹر جین گنٹر گائناکالوجسٹ یا ماہر امراضِ نسواں ہیں جو گذشتہ 25 برسوں سے امریکہ اور کینیڈا میں پریکٹس کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کی صحت کے حوالے سے کافی عرصے سے کام کر رہی ہیں اور انھیں ٹوئٹر کی گائناکالوجسٹ بھی کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں انھوں نے ان دعوؤں کی شدید مذمت کی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ اندام نہانی میں قیمتی پتھروں سے بنے انڈے رکھنے سے ’ہارمونل توازن، ماہواری کے نظام کو ضابطہ کار میں لانے اور مثانے کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘ گنٹر نے ثابت کیا انڈے رکھنے کا عمل نہ تو کسی قدیم چینی روایت کا حصہ ہے اور نہ ہی سائنسی طریقہ کار سے اس عمل کی افادیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔

گنٹر کی حالیہ کتاب ’دی وجائنا بائیبل‘ متعدد ممالک میں انتہائی مقبول ہوئی ہے۔ یہ کتاب عملی مشوروں سے بھرپور ہے جو خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کرنے میں ان کی مدد کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔

ذیل میں پانچ ایسے حقائق بیان کیے گئے ہیں جو ڈاکٹر گنٹر کے مطابق ہر اندام نہانی رکھنے والے کو معلوم ہونے چاہییں۔

اندام نہانی اور فرج کے درمیان فرق معلوم ہونا اہم ہے

اندام نہانی خواتین کے جسم کے اندر موجود ہوتی ہے، یہ ایک عضلاتی نالی ہوتی ہے جو بچہ دانی سے منسلک ہوتی ہے۔ دوسری طرف جس حصے کو آپ محسوس کر سکتے ہیں یا جو حصہ آپ کے کپڑوں کو چھوتا ہے اسے فرج کہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں فرج اندام نہانی کا وہ بیرونی حصہ ہے جو جسم پر نظر آیا ہے یعنی شرم گاہ۔

گنٹر کا کہنا ہے کہ آپ کو صحیح اصطلاح کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے تاکہ آپ کسی خاص عضو کے لیے مخصوص ڈھکے چھپے الفاظ بیان نہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب آپ اندام نہانی اور فرج کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے، تو اس سے ایسا تاثر جاتا ہے جیسے یہ کوئی گندی یا شرمناک بات ہے۔‘

اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ فرج کے بیرونی حصہ کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ’پوڈینڈا‘ ہے جو درحقیقت لاطینی لفظ ‘پوڈیٹ’ سے نکلا ہے اور لاطینی زبان میں اس کا مطلب ہے ‘شرمناک’۔

گنٹر کے خیال میں اس طرح کی اصطلاحات استعمال کرنے سے نہ صرف خواتین کو جذباتی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ اس کا اثر ان کی صحت پر بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح کی اصطلاحات استعمال کر کے نہ تو مریض اپنی بیماری کے بارے میں ڈاکٹر کو اچھی طرح سے بتا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا صحیح علاج کیا جا سکتا ہے۔

اندام نہانی خود سے اپنی صفائی کرتی ہے

گنٹر کے مشاہدے کے مطابق گذشتہ دس برسوں میں خواتین کے رویوں میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے اور اب بہت سی خواتین کا ماننا ہے کہ اندام نہانی کی بُو بہتر کرنے کے لیے مصنوعات کا استعمال ضروری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس شمالی امریکہ میں 57 فیصد خواتین نے اپنی اندام نہانی کو صاف کیا ہے اور ان میں سے متعدد خواتین کا کہنا تھا کہ ایسا وہ اپنے جنسی ساتھی کے کہنے پر کرتی ہیں۔

گنٹر کا کہنا ہے کہ اندام نہانی کو اندر سے صاف کرنے کے کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ ’ایک خود بخود صاف ہونے والا تندور ہے۔‘ خاص طور پر وہ صفائی کے لیے خوشبو دار سپرے کے استعمال سے منع کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آپ کی اندام نہانی ہے، پینا کولاڈا (مشروب) نہیں۔ ایسے سپرے آپ کی اندام نہانی کے لیے سگریٹ کی طرح مضر ہیں۔‘

ان کے مطابق صرف سادے پانی کا استعمال بھی اس نازک نظام میں خلل ڈال سکتا ہے جس سے جنسی فعل کے دوران منتقل ہونے والے انفیکشنز کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اس کام کے لیے بھاپ کا استعمال نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس سے جلد کے جلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

اندام نہانی کے باہر فرج کے مقام کو ضرورت کے تحت پانی سے صاف کیا جا سکتا ہے۔

صابن کا استعمال فرج پر موجود باریک سی تیزابی پرت کو ختم کر سکتا ہے، یہ پرت جلد کو پانی کے مضر اثرات سے محفوظ کرنے کا کام کرتی ہے۔

جب خواتین بڑی عمر کو پہنچتی ہے اور ہارمونل تبدیلیوں کے باعث ماہواری کا آنا ختم ہو جاتا ہے تو اندام نہانی پر آنے والی خشکی کو دور کرنے کے لیے ناریل یا زیتون کا تیل استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اندام نہانی کے خلیے ہر 96 گھنٹوں بعد تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہ عمل جلد کے باقی حصوں پر جاری عمل سے نسبتاً خاصا تیز ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بہت جلد ٹھیک ہو جاتی ہے۔

آپ کی اندام نہانی ایک باغ کی طرح ہے

اندام نہانی میں ’اچھے‘ بیکٹیریا کی فوج موجود ہوتی ہے جو اس کو صحت مند رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

گنٹر کا کہنا ہے کہ ’اندام نہانی مختلف قسم کے بیکٹیریا کا ایک باغ ہے جو ایک ساتھ کام کر کے اندام نہانی کے نظام کو صحت مند رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔‘

اچھے بیکٹیریا ایک ایسا مادے کا اخراج کرتے ہیں جو ایک تیزابی ماحول پیدا کرتا ہے، یہ ماحول مضر بیکٹیریا کی روک تھام کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک مخصوص لعاب بھی پیدا ہوتا ہے جو ضروری چکناہٹ برقرار رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اندام نہانی کو اندر سے ایک جراثیم کُش وائپس سے صاف کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ بیکٹیریا کا توازن برقرار رکھنا سب سے اہم ہے۔

اسی طرح گنٹر نے مشورہ دیا کہ فرج کے مقام کو ہیئر ڈرایئر کے ذریعے خشک کرنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ فرج کی بیرونی جلد کا نمدار ہونا بھی ضروری ہے۔

اندام نہانی کے گرد بال کسی وجہ سے ہوتے ہیں

گنٹر کے مشاہدے کے مطابق خواتین میں اندام نہانی کے گرد تمام بالوں کو صاف کرنے کا رجہان بڑھ رہا ہے۔ اس کے ذریعے ان بالوں میں موجود جوؤں کو بے گھر تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کیا جانا یہ اس مقام پر بال گرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

’جب آپ ویکس یا شیو یا کسی اور طریقے سے بال اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ اپنی جلد کو تکلیف میں مبتلا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان زیر ناف بالوں کی صفائی کے باعث ہم اس جگہ پر کٹ، خراشیں اور انفیکشن دیکھتے ہیں۔‘

ان کا مشورہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بالوں کی صفائی کرنے والے جلد پر ویکس لگانے کے لیے پہلے سے استعمال شدہ ڈنڈی دوبارہ استعمال نہ کریں، کیونکہ اس سے بیکٹیریا دوسروں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

اگر آپ شیو کر رہی ہیں تو صاف ریزر استعمال کریں اور اس سے قبل جلد کو مناسب انداز میں اس کام کے لیے تیار کریں۔ ان کا مشورہ ہے کہ ریزر کے ذریعے بال صاف کرنے کے لیے بالوں کے اگنے کی سمت میں صفائی کریں اور ریزر کا صرف اس جگہ استعمال کریں جہاں بال زیادہ اُگے ہوں تاکہ بالوں کا جلد کے نیچے اگنے کا خدشہ کم ہو جائے۔

سب سے بڑھ کہ گنٹر چاہتی ہیں کہ لوگ اس حوالے سے باخبر انتخاب کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اندام نہانی کے گرد بالوں کا کام حساس جلد کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ان بالوں کا جنسی نظام سے متعلق بھی کردار ہو سکتا ہے کیونکہ ہر بال کی جڑ کسی نا کسی اعصاب کے سرے سے جڑی ہوتی ہے اس لیے بالوں کی صفائی کے دوران درد ہوتا ہے۔‘

عمر بڑھنے سے اندام نہانی پر اثر پڑتا ہے

برسوں ماہواری آنے اور بچوں کی پیدائش کے بعد بیضہ دانی انڈے پیدا کرنا بند کر دیتی ہے اور اس کے باعث حیض آنا بند ہو جاتا ہے۔

خواتین میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے والے ہارمونز کی تعداد ڈرامائی سطح تک گِر جاتی ہے اور ایسٹروجن ہارمون کی کم مقدار اندام نہانی اور فرج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

یہ بافتیں یا ٹشوز جو اس سے قبل میوکس کے باعث نم دار رہتے تھے خشک ہو جاتے ہیں۔ اور اس خشکی کی وجہ سے سیکس کے دوران تکلیف ہوتی ہے۔

یہ شاید پریشان کن محسوس ہو لیکن گنٹر کا کہنا ہے کہ خواتین اس حوالے سے ڈاکٹر سے رجوع کر سکتی ہیں۔ اور بازار میں دستیاب لبریکینٹس کی مدد سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے کہ خواتین کے پاس اس حوالے سے معلومات موجود ہوں تاکہ انھیں پریشان نہ ہونا پڑے۔‘

اس حوالے سے ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ سیکس کرنے سے تمام چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں لیکن سیکس کے دوران اندام نہانی کے ٹشوز کو پہنچنے والا نقصان اس میں انفیکشن پیدا کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر جین گنٹر نے یہ مشورے بی بی سی ورلڈ سروس کے ہیلتھ چیک پروگرام میں بات کرتے ہوئے دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp