پپا جانی، اپنے وفاداروں کو نہیں بھولتے


وطن عزیز کی سیاسی فضا پر ان دنوں کشیدگی کے بادل کچھ زیادہ ہی چھائے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز کی دو سابقہ بڑی حکمراں جماعتوں کی قیادت کا ایک عرصے سے جاں توڑ کڑا احتساب جاری ہے۔ جہاں جناب آصف علی زرداری کی صحت کی طرف سے پیپلز پارٙٹی کی اعلی قیادت، سیاسی کارکن اور ووٹر پریشان ہیں، تو وہیں مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما، سیاسی کارکن اور ووٹرز جناب محمد میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل جانے کے بعد بھی ان کی صحت کی طرف سے لا حق خدشات کی وجہ سے غم زدہ اور پریشان ہیں۔

ان گھمبیر سیاسی حالات اور منہگائی میں چند شخصیات ایسی ہیں۔ جن کے دم خم سے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ اور بشاشت قائم ہے۔ درآمد شدہ غیر منتخب مشیر خزانہ اور ایک مشہور گیٹ سے برآمد شدہ غیر منتخب وزیر اعظم کی معاون خصوصی کی صحافیوں سے سبزیوں کی قیمتوں کے حوالے سے کی گئی، حالیہ گفتگو سن کر قومی کرکٹ ٹیم کی بلے بازی سے مایوس عوام بڑھ چڑھ کر چھکے لگا رہی ہے۔ مشیر خزانہ نے کراچی کی سبزی منڈی میں 17 روپے ٹماٹر فروخت ہونے کی پر مسرت لغو خبر جب سے عوام کو سنائی ہے۔ عوام کا ہنسی کا مارے برا حال ہے۔

مشیر خزانہ کی بونگی پر قہقہوں اور لعن طعن کا طوفان ابھی تھما بھی نہ تھا، کہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا، کہ وہ پینڈو ہیں، محکمہ زراعت سے ان کا تعلق ہے اور وہ گروور بھی ہیں۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا، کہ محکمہ زراعت سے تعلق رکھنے والے ایک اور وزیر جو گروور بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے، کہ وہ روزانہ پانچ روپے کلو کی قیمت پر مٹر بیچ رہے ہیں۔ معاون خصوصی نے پانچ روپے کلو مٹر کی قیمت جب سے عوام کو بتائی ہے۔ عوام نے اس کے بعد سے ہر سبزی پھل کے آخر میں ’ٹر‘ کا لاحقہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ تاکہ مشیران حکومت، معاونین خصوصی اور وزراء کی ٹر ٹراہٹ سے کم از کم سبزی پھلوں کے دام مصنوعی طریقے سے گرتے رہیں۔

آزادی مارچ کے آغاز سے قبل نادرا نے ایک مضحکہ خیز نادر شگوفہ جناب حافظ حمد اللہ کی افغان شہریت سے متعلق چھوڑا، تو عوام سمجھ گئے، کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ آزادی مارچ پھر بھی جوش و خروش سے اسلام آباد بنا توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ شدید موسم میں جا پہنچا۔ شرکائے آزادی مارچ شدید موسم میں بھی حوصلہ مند ہیں۔ اور عوام سوشل میڈیا پر شرکائے آزادی مارچ کی دل چسپ و سنگین باتوں اور کھیل کود پر مشتمل ویڈیوز دیکھ کر اپنا دل بہلانے کے ساتھ کھویا ہوا بچپن بھی یاد کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر شرکائے آزادی مارچ کے چہروں پر مزید مسکراہٹ لانے کے لیے معروف مذہبی اینٹر ٹینر جناب منظور مینگل کی بھی آزادی مارچ کے سٹیج پر اینٹری ہوئی اور عوام میں انہوں مزید تعارف حاصل کیا۔ اب عوام ان کے مشہور و معروف درس قرآن کی ویڈیو بھی دیکھ رہی ہے۔

غرض یہ کہ ایسی سنگین صورت حال میں بھی جہاں عوام اپنے حال میں مست ہے۔ وہیں کچھ بد مست سیاسی و مذہبی کارکنوں سے عوام مزید مستیاں کشید کر رہے ہیں۔ مفتی کفایت اللہ نے بھی اس حوالے سے کافی نام کمایا، جب انہوں بے سر و پا انکشاف کیا، کہ وکی لیکس جمائما کا کزن ہے۔ ان کے اس بیان کی ابھی دھول چھٹی بھی نہ تھی، کہ انہوں نے عوام کو پھر بچپن کی یادوں میں لے جا پھینکا۔ اور کہا کہ ہم اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ چونکہ ہمارے بچوں نے ہم کو الوداع کہتے وقت کہا تھا: بھول نہ جانا پھر پپا! استعفا لے کر گھر آنا۔

حقیقت یہ ہے، کہ پپا جانی کبھی کچھ نہیں بھولتے۔ گھر ہمیشہ بہت کچھ لے کر جاتے ہیں۔ اچھی سے اچھی جگہ گھر بناتے ہیں، پلاٹ لیتے ہیں اور زر خیز زمینوں پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ پپا کے دم سے ہی محکمہ زراعت قائم ہے۔ پپا ہر کسی کو اپنا نکا سمجھتے ہیں اور اس وقت تک اپنے نکوں کا خیال کرتے ہیں۔ جب تک وہ ان کا کہا مانے۔ نکا، اگر بڑے ہو کر ان کا کہنا ماننے سے انکاری ہو، تو اس نکے کو گھر و جائیداد اور عہدے سے بے دخل کر دیتے ہیں یا کچھ ایسا بندوبست کرتے ہیں، کہ زمانہ ہی اس کے خلاف ہو جائے۔ پپا جانی کی بوتل میں سے آج تک تو نو رس بر آمد ہوا نہیں ہے۔ دیکھتے ہیں، اس دفعہ پپا جانی کی بوتل میں کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).