سیاسی رہنماؤں کا علاج: کچھ تو حساب کتاب ہونا چاہیے؟


بیماری پر سیاست کرنا اور بیمار کا مذاق اڑانا دونوں غیر انسانی رویے ہیں۔ مریض خود اگر اپنی مرض پر سیاست کر رہا ہو تو بھی غلط یا ان کا سیاسی مخالف اگر بیماری کو سیاست کے لئے استعمال کر رہا ہے تو بھی یہ فعل درست نہیں۔ بیمار خود اپنی مرض کا مذاق اڑائے یا ان کے سیاسی مخالفین مریض کا مذاق اڑائے دونوں غیر مہذب رویے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو عدالت سے نا اہلی کی سزا ہوئی۔ دوبرس بعد عدالت نے طبی بنیادوں پر ان کو ضمانت پر رہا کردیاہ ے، جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اس وقت نیب کی زیر حراست ہیں۔

ان کے بارے میں بھی امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کو بھی طبی بنیادوں پر ضمانت مل جائے گی۔ ان کی ضمانت کا معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لیکن میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بیماری میں ایک بات قدر مشترک ہے۔ دونوں کے خاندان کے افراد اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ علاج کے لئے صرف ضمانت کافی نہیں بلکہ ان کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دی جائے۔ میاں نواز شریف کو ضمانت مل چکی ہے۔ وہ علاج کے لئے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں، اگر آصف علی زرداری کی بھی ضمانت ہو جاتی اور وہ بھی علاج کے لئے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ دونوں کا کچھ حساب کتاب بھی ہو جائے۔

میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیر خزانہ اور وزیر اعلی بھی رہے ہیں۔ بہت زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں دس سال مسلسل ان کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیر اعلی رہے۔ لاہورپنجاب کا دارالحکومت ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان عشروں سے یہاں مقیم ہیں۔ دس سال مسلسل وہ اس پائے تخت پر حکمران بھی رہے لیکن اس کے باوجود وہ اس شہر میں کوئی ایک جدید ہسپتال کیوں نہ بنا سکے کہ جس میں آج ان کے خاندان کو علاج کی سہولتیں میسر ہوتی؟

کیا یہ افسوس ناک صورت حال ہے کہ نہیں کہ پورے ملک کے شفانوں میں کوئی ایک ایسی مشین نہیں جو تین مرتبہ وزیر اعظم کے مسند پر فائز شخصیت کی بیماری کی نوعیت معلوم کر سکے؟ کیا اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ نہیں کہ پورے ملک میں کوئی ایک بھی ڈاکٹر ایسا نہیں جو اس وی وی آئی پی (VVIP) شخصیت کی بیماری کی تشخیص کر سکے؟ اگر میاں نواز شریف علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو کیا یہ اس ملک کے پورے نظام صحت پر سوالیہ نشان، تہمت اور الزام ہے کہ نہیں؟

بے شک آپ میاں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لئے جانے دیں، لیکن ان سے یہ پوچھ گچھ ضرور کریں کہ کیوں وہ اس ملک میں معیاری شفاخانے نہ بنا سکے؟ کیا ان سے پوچھنا نہیں چاہیے کہ عوام کے لئے نہیں، اپنے لئے اس ملک میں معیاری شفاخانے تعمیر کرنے سے کیوں گریز کیا؟ کیا ان کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں وہ ملک کے چھوٹے شہروں کو چھوڑ کر لاہور جیسے بڑے شہر میں شفاخانوں میں مرض کی تشخیص کرنے والی مشینوں کو نصب کرنے میں ناکام رہے؟ کیا ان سے یہ معلوم کرنا اس قوم کا حق نہیں کہ کیوں وہ لاہور جیسے بڑے شہر میں کوئی ایک بھی اس پائے کا طبیب کیوں پیدا نہ کرسکے کہ جو پیچیدہ امراض کی تشخیص کر سکے؟

آصف علی زرداری کا خاندان اور ان کی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے رہنما بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو طبی بنیادوں پر نہ صرف ضمانت دی جائے بلکہ بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دی جائے۔ آصف علی زرداری پانچ سال تک ملک کے بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔ ان پانچ سالوں میں ان کازیادہ ترقیام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہا۔ آج وہ یہاں زیر حراست ہیں۔ میاں نواز شریف کی طرح بے شک ان کو بھی علاج کے لئے بیرون ملک اجازت دیں۔

لیکن یہ ضرور ان سے پوچھ لیجیے کہ وہ پانچ سال میں شہر اقتدار میں ایک بھی معیاری شفانہ کیوں نہ بنا سکے؟ حالانکہ وہ جس دور میں حکمران تھے تو ملک بھرمیں شور تھا کہ ”ایک زرداری سب پر بھاری“۔ گزشتہ گیارہ سالوں سے مسلسل ان کی جماعت سندھ میں حکمران ہے۔ کیا ان گیارہ سالوں کا حساب کتاب ضروری نہیں، کہ کیوں وہ شہر کراچی میں ایسا شفاخانہ تعمیر نہ کرسکے کہ جہاں صرف حکمرانوں کا علاج ہو سکے؟ کیا ان کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں وہ پانچ سالوں میں اسلام آباد میں اقتدار سے وابستہ لوگوں کے لئے معیاری شفاخانہ نہ بنا سکے؟ کیا ان سے پوچھنا ضروری نہیں کہ سند ہ اور اسلام آباد کے چند ایک شفاخانوں میں مرض کی تشخیص کرنے والے طبی آلات کووہ کیوں فراہم نہ کرسکا؟ کیا ان سے سوال کرنا حق نہیں بنتا کہ کیوں وہ پورے ملک میں ایک ایسا معالج پیدا نہ کرسکے کہ جو ان کا علاج کر سکے؟

بے شک بیماری پر سیاست اور بیماری کا مذاق اڑانا غیر مہذب رویہ ہے۔ لیکن جس خرابی اور بیماری کا ذمہ دار خود وہ انسان ہو کہ جس میں وہ مبتلا ہے تو کیا ضروری نہیں کہ ان کو بھی ان کے حصے کی غلطی کا احساس دلایا جائے۔ یہ ضروری اس لئے ہے کہ پاکستان میں اب یہ ایک عام رواج اور فیشن بن چکا ہے کہ جو بھی سابق اعلی عہدے دار پھنس جاتا ہے تو وہ بیماری کا بہانہ بناکر لوگوں اور اداروں کی ہمدردی حا صل کرتا ہے۔ پھر طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست جمع کر واتا ہے۔

جب علاج کے لئے ضمانت مل جاتی ہے توپھر عدالتوں میں تشخیصی رپورٹ پیش کرکے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جس بیماری میں مبتلا ہوں اس کا علاج ملک میں نہیں لہذا بیرون ملک علاج کی اجازت دی جائے۔ جب یہ حربہ کامیاب نہیں ہوتا توپھر تشخیصی رپورٹ کو بنیاد بنا کر جیل سے شفاخانے منتقل ہو جاتاہے، اس لئے ضروری ہے کہ چند ایک کو مثال بنا کر ہمدردی کے اس چور دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے۔ اگر اس چور دروازے کو بند نہیں کیا گیا تو اسی طرح حکمران ملک اور قوم کی دولت کولوٹتے رہیں گے اور جب پکڑے جائیں گے تو پھر طبی بنیادوں پر جیل کی بجائے شفاخانوں میں سکون کی زندگی گزاریں گے یا طبی بنیادوں پر ہمدردی حاصل کرتے ہوئے بیرون ملک فرار ہوتے رہیں گے۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے زیادہ پرویز مشرف اس طبی ہمدردی کا ایک شاہکا ر نمونہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).