کشمیر اور بابری مسجد کے بعد مودی حکومت کا اگلا ہدف کیا انڈیا کا آئلی قانون ہے؟


مودی

کشمیر اور بابری مشجد کے بعد مودی حکومت کے ایجنڈے میں اگلا ہدف کیا ہے اور کیا اب وہ اپنے بڑے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟

انڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دوسرے دور میں دو تاریخیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں ایک پانچ اگست ہے تو دوسری نو نومبر۔

پانچ اگست کو حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئین کی شق 370 کو بھی کالعدم قرار دیا گیا۔

اس کے بعد رواں ماہ نو نومبر کو سپریم کورٹ نے ایک زمانے سے جاری بابری مسجد اور رام مندر تنازعے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ متنازع اراضی ہندو فریق کو دی جانی چاہیے جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین مسجد کے لیے دی جائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

اب سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ مودی حکومت کے ایجنڈے میں نیا ہدف کیا ہے اور کیا اب وہ اپنے بڑے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

اک معمہ، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

’یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش سے ملک میں خلفشار پیدا ہو گا‘

انڈیا میں یکساں سول قانون کا راستہ ہموار

مودی کا اگلا ہدف کیا ہے؟

بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے اگلے ایجنڈے میں سر فہرست یکساں سول کوڈ سے متعلق قانون ہوگا۔

اس کے علاوہ پورے ملک میں این آر سی (نیشنل ریجسٹر آف سٹیزنز) نافذ کرنا اور شہریت کا قانون بنانا بھی بی جے پی حکومت کے مرکزی ایجنڈے میں شامل ہے۔

بی جے پی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی پردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ بی جے پی کے تین بڑے ایجنڈے ایودھیا، آرٹیکل 370 اور یکساں سول کوڈ تھے۔ ان میں سے دو کام تقریباً پورے ہوچکے ہیں اور اب پارٹی یکساں سول کوڈ پر اپنا کام شروع کرے گی۔

مودی

’بی جے پی کے تین بڑے ایجنڈے ایودھیا، آرٹیکل 370 اور یکساں سول کوڈ تھے۔ ان میں سے دو کام تقریباً پورے ہوچکے ہیں اور اب پارٹی یکساں سول کوڈ پر اپنا کام شروع کرے گی‘

لیکن پردیپ سنگھ کا خیال ہے کہ یکساں سول کوڈ سے پہلے حکومت کو این آر سی اور شہریت کے بل پر کام کرنا چاہے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘آنے والے موسم سرما کے پارلیمانی اجلاس میں حکومت این آر سی اور شہریت کا بل پیش کر سکتی ہے کیونکہ حکومت اس معاملے پر پہلے ہی بہت کچھ کر چکی ہے اور پارٹی ان دونوں معاملوں پر بہت سنجیدہ ہے۔

پردیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ مودی سرکار یکساں سول کوڈ کے بارے میں بھی سنجیدہ ہے لیکن اس کے لیے انھیں عوامی رضامندی لینا ہوگی۔

یکساں سول کوڈ کیا ہے؟

یکساں سول کوڈ کا مطلب انڈیا کے تمام شہریوں کے لیے ایک ہی سول یا آئلی قانون ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔

یکساں سول کوڈ میں شادی، طلاق اور جائیداد کی تقسیم جیسے معاملات پر تمام مذاہب کے لیے ایک ہی قانون کا اطلاق ہوگا۔

اس وقت ہندوستانی آئین کے تحت قانون کو بڑے پیمانے پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: دیوانی (سول) اور فوجداری (کرمنل)۔

شادی، جائیداد، جانشینی یعنی کنبے اور خاندان کی جائیداد کی تقسیم کے متعلق قوانین سول قانون کے زمرے میں آتے ہیں۔

مسلمان

یکساں سول کوڈ کا مطلب انڈیا کے تمام شہریوں کے لیے ایک ہی سول یا آئلی قانون ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو

آرٹیکل 370 سے زیادہ مشکل یکساں سول کوڈ؟

بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو نے کچھ ماہ قبل ہی کہا تھا کہ مودی حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

یہی نہیں بلکہ موجودہ لوک سبھا کے پہلے سیشن میں بی جے پی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم صحافی پردیپ سنگھ کا خیال ہے کہ اس پر عمل درآمد اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔

وہ وضاحت کرتے ہیں: ‘اس بل کو بنانے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ شادی اور جائیداد جیسے معاملات میں مختلف مذاہب کے اپنے قوانین ہیں۔ ان تمام قوانین کو یکساں کرنے سے بہت ساری برادریوں کو نقصان ہوسکتا ہے اور کچھ کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سب کو ایک ہی قانون کی پیروی کرنے کے لیے منانا مشکل ہوگا۔’

پردیپ سنگھ کا خیال ہے کہ حکومت کے لیے یکساں سول کوڈ کا نفاذ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے بھی زیادہ مشکل کام ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانا ایک طرح کا انتظامی کام تھا جو حکومت نے اپنے طور پر انجام دیا ہے لیکن اس معاملے سے مختلف مذاہب کے عقائد وابستہ ہیں،لہذا ان کا خاتمہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔’

فوجی

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو رواں سال پانچ اگست کو ختم کر دیا گیا

یکساں سول کوڈ میں قانونی رکاوٹیں؟

آئین میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ آرٹیکل 44 کے تحت ریاست (مرکز اور ریاستوں دونوں) کی ذمہ داری ہے۔

اس معاملے پر سپریم کورٹ کے وکیل ویراگ گپتا نے کہا ‘جب یکساں سول کوڈ کی بات آتی ہے تو اس کے دو پہلو ہوتے ہیں: تمام مذاہب کے مابین ایک ہی قانون اور ان مذاہب کی تمام جماعتوں میں ایک ہی قسم کا قانون۔’

وہ کہتے ہیں: ‘یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے لیے آئین کے رہنما اصول میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنے والے وقت میں ہم یکساں سول کوڈ کی سمت جانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس سمت میں آج تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔’

ویراگ کا کہنا ہے کہ ‘یکساں سول کوڈ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں سے ہی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں میں شادی اور جائیداد کی تقسیم کے مختلف اصول ہیں وہیں ہندوؤں میں مختلف برادریوں کے اندر بھی اختلاف ہے۔‘

ان کے مطابق اس حوالے سے زیادہ تر مسلمانوں یا عیسائیوں کی جانب سے اعتراضات کی بات ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں مختلف قسم کی برادریاں، طبقات اور روایات ہیں۔ لہٰذا سول کوڈ کے نفاذ سے اگر کسی بھی برادری کی رسومات میں کوئی تبدیلی ہوگی تو انھیں اعتراض ہوگا۔

مسلمان

مسلمان وقتا فوقتاً یکساں سول کوڈ کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں

کیا پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جاسکتا ہے؟

بی جے پی حکومت نے شمال مشرقی ریاست آسام میں این آر سی نافذ کیا ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت ملک بھر میں یہ نظام نافذ کرسکتی ہے اور ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے اپنی ریاست میں این آر سی کے نفاذ کی بات کی ہے۔

کیا این آر سی کو پورے ملک میں نافذ کیا جاسکتا ہے؟

اس کے جواب میں پردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ ‘حکومت کو ملکی سطح پر این آر سی نافذ کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے آسام میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اسے نافذ کیا ہے جبکہ پورے ملک میں نافذ کرنے سے قبل اسے شہریت کا قانون لانا ہوگا۔‘

شہریت میں ترمیم کا بل کیا ہے؟

شہریت میں ترمیم کے بل میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والی ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی اقلیتی برادریوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا طریقہ واضح کیا گیا ہے۔

لیکن پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو اس قانون سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس بل میں یہ بات کی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم برادریوں کے افراد ہندوستان میں چھ سال گزار لیتے ہیں تو انھیں آسانی سے شہریت مل جائے گی۔

پردیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے مطابق ہندوؤں کے لیے ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘حکومت کا موقف ہے کہ اگر کسی دوسرے ملک میں بسنے والے ہندوؤں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اور انھیں اپنا ملک کو چھوڑنا پڑتا ہے تو اس حالت میں ان کے لیے واحد ملک ہندوستان ہے، وہ صرف ہندوستان آئیں گے۔ اگر ایسے لوگ ہندوستان کی شہریت چاہتے ہیں اور اس کے لیے درخواست دیتے ہیں تو انھیں ہندوستان کی شہریت دی جانی چاہیے۔‘

پھر حکومت اس معاملے سےمسلمانوں کو علیحدہ کیوں رکھتی ہے؟.

اس کے جواب میں پردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ بی جے پی اور حکومت میں ان کے اتحادیوں کے مطابق مسلمان کبھی بھی ظلم و ستم کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسری وجوہات کی بنا پر ہندوستان آتے ہیں۔

مظاہرین

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں این آر سی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں

سنہ 2024 سے پہلے حتمی ایجنڈا

مودی سرکار اپنے دوسرے دور میں تین طلاق سے متعلق قوانین بنا چکی ہے۔ وہ پہلے پارلیمانی اجلاس میں قومی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے)، اطلاعات تک رسائی (آر ٹی آئی) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام (یو اے پی اے) کے حوالے سے قوانین منظور کروا چکی ہے۔

مودی سرکار اپنے ایجنڈے میں شامل اہم امور کو تیزی سے حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اب یکساں سول کوڈ کا وعدہ پورا کرنا چاہے گی یا اگلے لوک سبھا کے انتخابات میں اپنے ووٹ بینک کو منانے کے لیے وہ اس کو برقرار رکھے گی۔

اس حوالے سے سینیئر صحافی شیکھر اییر کا خیال ہے کہ حکومت کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج معیشت کی سست رفتاری اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی سطح ہے۔

شیکھر اییر کا کہنا ہے کہ ‘آرٹیکل 370 کے خاتمے کو حکومت کی جانب سے اٹھایا جانے والا قدم کہا جاسکتا ہے لیکن ایودھیا کیس سپریم کورٹ نے مکمل کیا ہے۔ لہٰذا حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی خراب حالت کو سدھارنا اور بیروزگاری کی سطح کو درست کرنا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp