کسی کی رسوائی اوراپنی ذات


بعض دفعہ تومجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ انتہائی فارغ ہیں کہ جنہیں سوائے دوسروں کی برائیوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے کوئی اور کام نہیں۔ اگر ہم ایک مصروف آدمی کی دن بھرکی مصروفیات کا جائزہ لیں تو بندہ حیران ہوتا ہے کہ یہ فرد واحد ایک دن کے اندر کتنے ہی کام کرتاہے۔ ایسے فرد کو تو شاید اپنی ذات کے لیے بھی مناسب وقت نہیں ملتا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ”وہیلے مصروف“ لوگ ہیں جنہیں ویسے تو کرنے کے لیے کچھ کام نہیں مگراپنی خاص سرگرمیوں کی وجہ سے خود کو اپنی سوچ کے دائرے میں بہت زیادہ مصروف رکھتے ہیں اورظاہر کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی پسندیدہ مصروفیت دوسروں کی ذات کو ڈسکس کرنا، ان کی ذات سے کیڑے نکالنا اور پھر ساری دنیا کو بتانا کہ ”فلاں بندہ دیکھو کتنا بُرا آدمی ہے؟ اللہ معاف کرے، اسے شرم بھی نہیں آتی“۔ حالانکہ بعض دفعہ وہی عمل اس ”وہیلے مصروف“ میں بدرجہ اتم پایا جاتاہوگا۔ ابھی تازہ واقعہ ہی مثال کے طورپر دیکھ لیں، رابی پیر زادہ کی ویڈیولیکس کے بارے میں ہر بندہ کتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، جیسے اس کی ویڈیوشیئرنگ کوئی ثواب دارین ہے۔

اس غلطی کاآغازخواہ رابی پیر زادہ کی اپنی ذات سے ہی ہوا مگر کسی کا اچھا یا بُرا ہونا، اس انسان اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے درمیان معاملہ ہے. ہم یہاں ڈسکس نہیں کریں گے، نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ وہ اچھی ہے یا بُری، کیوں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں، یہ اس کا ذاتی فعل ہے اور اس فعل کی جوابدہ وہ خود ہے اور اپنے خدا کو جواب دہ ہے، اس میں کسی کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہوناچاہیے کہ خدا کی ذات کتنی مہربان ہے. وہ کتنی رحیم و کریم ہے کہ وہ ایسے انسان کو بھی معاف کردیتی ہے کہ جس نے ساری زندگی کوئی اچھا کام نہ کیا ہو مگر کسی چھوٹے سے عمل کی وجہ سے قدرت کو اس پر رحم آجائے اور قدرت اسے اپنی جنت میں جگہ عطافرمادے۔ اگر ہم خدا کی ذات کو اپنی سوچ اورعلم کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سزا وجزا کا ایسا نظام بنا رکھا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی مگر جب وہ کسی کوبخشنے پر آتاہے تو پھرپل بھرمیں بخش دیتاہے۔

ہم میں سے ہرایک کوان اعمال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن سے کوئی نامناسب مواد کسی دوسرے تک بھی پہنچ جاتاہے اورپھر وہ بھی وہی کام کرتاہے کہ جب تک دس، بارہ گروپس اور سو، ڈیڑھ سو بندے کو فارورڈ نہ کرلے اسے بھی تسلی نہیں ہوتی۔ یہ مجموعی طورپر ہمارے ہی اعمال کانتیجہ ہے کہ معاشرہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا، کبھی ایسی نامناسب چیزوں کو ڈسکس کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا مگر اب ہم دھڑلے سے کرتے ہیں، پھر ویڈیوبناتے ہیں، شیئر کرتے ہیں اور خود کو پاک دامن ظاہرکرتے ہوئے یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ دیکھو وہ بندہ کتنا برا ہے، اس نے یہ کردیا، اس نے وہ کردیا۔

کبھی ہم نے یہ سوچا کہ جب ہم کسی دوسرے کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہیں توپھراسی ہاتھ کی باقی انگلیوں کا رخ ہماری ہی ذات کی طرف ہو جاتاہے، اگر ہم سمجھیں تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ بھئی، پہلے اپنی ذات کو درست کرلے پھر کسی دوسرے کی ذات سے کیڑے نکالنا، پہلے خود تو ٹھیک ہوجا، پھر کسی دوسرے کو ٹھیک کرنے کی بات کرنا۔ اب اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ اپنی ذات کومکمل درست کرنے تک ہم معاشرہ ٹھیک کرنے کی بات نہیں کرسکتے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ہمیں دوسروں کی برائیوں کو مزید مشہورکرکے اس برائی کو بڑھانا بالکل نہیں چاہیے، ممکن ہے جب تک اُس برائی کی خبر ہم تک پہنچی ہو، وہ برائی کرنے والے تائب ہوچکاہو، اورخدا کا نیک بندہ بن چکاہو، اگر ایسا ہوچکاہوگا تو پھر سوچیں کہ ہم اپنے خدا کی بارگاہ میں کس مقام پر شمار ہوں گے۔

لہذا صاحبو! ۔ بات رابی پیر زادہ کی ہو، یا حریم شاہ کی، بات مقتولہ قندیل بلوچ کی ہویا پھرکسی اور خاتون کی. ان کے معاملات کو ان کی ذات اور خدا کے درمیان چھوڑ دیں اور اپنے اندر چھپی ہوئی پیرزادیاں، حریمیں اورقند یلیں درست کرنے کی کوشش کرلیں کیوں کہ زندگی ٘مختصر ہے اور کب آخری سانس کا وقت آجائے گا یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا. اس جہان کی برائیاں سرعام کرنے کی بجائے اگلے جہان کاسوچیں کہ وہاں بخشا وہی جائے گاجس پروہ ذات مہربان ہوگی. اس کا رحم حاصل کرنے کے لیے اس کے بندوں کو مزید رسوا کرنے میں اپناحصہ نہ ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).