مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے درمیان دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر سے جنگ چھڑ سکتی ہے؟


دریائے نیل پر ڈیم

دنیا بھر کے ماہرین یہ پیش گوئی کر چکے ہیں کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ پانی کے مسئلے پر دنیا کے کئی ممالک آپس میں آج بھی اختلافات رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک تنازعہ افریقہ کے مشہور دریائے نیل کے گرد گھومتا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار الیسٹر لیتھیڈ کے مطابق دریائے نیل پر بننے والے ایک ڈیم سے افریقہ میں جنگ چھڑ سکتی ہے اور اسے صرف اسی صورت ٹالا جا سکتا ہے کہ اگر ایتھوپیا، مصر اور سوڈان کے ساتھ معاہدہ کر لے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایتھوپیا دریائے نیل پر دنیا کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ اسے ’گریٹ رینیسانس ڈیم‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چندہ جمع کر کے ڈیم بن سکتا ہے؟

کیا انڈیا اپنا پانی پاکستان آنے سے روک سکتا ہے؟

انڈیا کی ڈیم بنانے والی اماں

’بڑے ڈیموں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے‘

الیسٹر لیتھیڈ کے مطابق دریائے نیل پر ڈیم کے منصوبے کی تعمیر کا تنازعہ صرف مصر، ایتھوپیا اور سوڈان کے درمیان حکومتی معاہدے سے حل ہوسکتا ہے۔

اکتوبر کے اوائل میں اس معاملے پر کشیدگی بڑھی تھی جب مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے کہا تھا کہ ’تینوں ممالک کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔‘

انھوں نے دیگر ممالک سے اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے ثالثی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

اسی مقصد کے لیے تینوں ممالک کے نمائندگان نے بدھ کو واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے تاکہ اس مسئلے پر بات چیت ہوسکے۔

دریائے نیل پر ڈیم

ایتھوپیا کے لیے دریائے نیل پر ڈیم تعمیر کرنا قومی فخر کی علامت بن چکا ہے

تاہم ملاقات سے قبل ایتھوپیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد ثالثی کرانا نہیں بلکہ بات چیت کرنے کا ایک موقع ہے۔

ڈیم کی تعمیر متنازع کیوں؟

ایتھوپیا کے مطابق دریائے نیل پر ڈیم کی تعمیر سے ملک میں معاشی ترقی، غربت کا خاتمہ اور علاقائی سالمیت کو فروغ ملے گا جبکہ اس کی تعمیر سے ہمسایہ ممالک کے لیے پانی کا مسئلہ سنگین نہیں بنے گا۔

دوسری طرف مصر کا اعتراض ہے کہ ڈیم میں پانی بھرنے سے دریائے نیل میں ان کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ اس ڈیم کے بھرنے میں دو سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔

دریائے نیل پر ڈیم

ایتھوپیا کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے مصر کا پانی متاثر نہیں ہوگا

دریائے نیل پر ڈیم تعمیر کرنے کی باتیں کئی برس قبل سے ہو رہی ہے۔ مگر جس وقت ایتھوپیا کی جانب سے اس کی تعمیر شروع کی گئی اس وقت مصر کو عرب سپرنگ کی تحریک کا سامنا تھا اور وہ اس میں پھنسا ہوا تھا۔

اس خطے کے فرعون بادشاہ کہا کرتے تھے کہ ’مصر دریائے نیل کا ایک تحفہ ہے۔‘

ہزاروں برس گزرنے کے باوجود دریائے نیل پر مصر کا سیاسی اثر و رسوخ برقرار ہے۔ اسے برطانوی راج کے دوران بھی تقویت ملی تھی۔ لیکن ایتھوپیا کے عزائم اب سب کچھ تبدیل کر رہے ہیں۔

دریائے نیل پر ڈیم

مصر کا اعتراض ہے کہ ڈیم میں پانی بھرنے سے دریائے نیل میں پانی کم ہو جائے گا

یہ ان چند افریقی ممالک میں سے ہے جنھوں نے براعظم میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آئندہ 30 برسوں میں یہ آبادی دوگنی ہونے کی توقع ہے۔

سیاسی مشکلات اور محدود آزادی کے باوجود ایتھوپیا میں صنعتی پارکس بنائے جا رہے ہیں تاکہ معاشی ترقی ممکن ہو سکے۔ اس سب کے لیے بجلی کی پیداوار ضروری ہو گی۔

دریائے نیل پر بننے والے ڈیم کی تعمیر سنہ 2021 تک مکمل ہونے کی توقع ہے اور یہ افریقہ کا سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن اور دنیا کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہو گا۔

مصر کو خدشہ ہے کہ اس ڈیم سے ایتھوپیا دریائے نیل پر اختیار حاصل کر لے گا کیونکہ یہ ڈیم اونچائی پر واقع ہو گا اور اس سے پانی کے بہاؤ کو قابو کیا جا سکے گا۔

تاہم ایتھوپیا میں پانی و بجلی کے وزیر سلیشی بکیلا کے مطابق ڈیم کا مقصد ’پانی پر اختیار حاصل کرنا نہیں بلکہ اس سے ہمیں توانائی کے شعبے میں ترقی کرنے کا موقع ملے گا۔ ’یہ ان ممالک کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا جو دریا کے بہاؤ کی جانب ہیں۔‘

اور شاید اسی لیے سوڈان ایتھوپیا کا شکر گزار ہے۔

پانی کے بہاؤ پر قابو

یہ ڈیم سرحد سے کچھ کلومیٹر کی دوری پر ہے اور اس کے ہائی وولٹیج ٹاورز کو تعمیر کیا جا چکا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے لیے ان کا استعمال جلد شروع کر دیا جائے گا۔

یہ ڈیم دریا کے بہاؤ پر قابو پانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فی الحال سوڈان میں بالائی اور نچلی سطح پر پانی کا فرق آٹھ میٹر ہے۔ اس کی وجہ سے آبپاشی کے بڑے منصوبوں کو چلانا دشوار ہو جاتا ہے۔

ڈیم کے فعال ہونے کے بعد یہ فرق دو میٹر رہ جائے گا اور پانی کے بہاؤ پر سال بھر کے لیے قابو پایا جا سکے گا۔

دریائے نیل پر ڈیم

مصر نے 1960 کی دہائی میں دریائے نیل پر اسی طرز کا ڈیم تعمیر کیا تھا

نوکریاں اور خود مختاری

آبپاشی کے منصوبوں اور فارمز کی انچارج کارپوریشن اور ڈل گروپ کے مالک داؤود عبد الطيف کہتے ہیں کہ ’سوڈان کے لیے یہ ڈیم بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ کافی عرصے بعد ایسی کوئی اچھی چیز ہوئی ہے۔ میرے خیال سے توانائی اور پانی کا باقاعدہ بہاؤ ایک عظیم نعمت ہے۔‘

وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مصر اس سے پریشان کیوں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2025 تک مصر میں پانی کا مسئلہ سنگین ہوجائے گا۔

’دریائے نیل مصر کے لیے ذریعہ معاش ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں لیکن آپ اس پانی کے ساتھ کچھ بھی کریں تو وہ اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

مصر کے پانی کے لیے کوئی بھی اندیشہ ملکی خودمختاری کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

مصری مبصر راویا توفیق جو جرمنی کے شہر بون میں ایک تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈیلویپمنٹ پالیسی‘ میں کام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’یہ (ڈیم) سب بدل دے گا۔ خطے میں ایک نیا نظام بننے جارہا ہے۔‘

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلی مرتبہ ایتھوپیا ایسی طاقت بن رہا ہے جو دریا کے بہاؤ کے ساتھ واقع ہے اور وہ کسی بھی طرح دریائے نیل کے بہاؤ پر قابو پا لے گا۔ اسی دوران اس کی معاشی صلاحیت بھی اسے موقع دے رہی ہے کہ اپنے ہی وسائل سے ایک ڈیم تعمیر کر سکے۔‘

مصر کے وزیر پانی و وسائل محمد عبدالعطیٰ اس صورتحال سے کافی پریشان ہیں۔

انھوں نے اس منصوبے پر مذاکرات کے آغاز میں کہا تھا کہ ’ہم پر 10 کڑور آبادی کی ذمہ داری ہے۔ اگر مصر تک پہنچنے والے پانی کو دو فیصد پر لایا جائے تو ہم دو لاکھ ایکڑ زمین کھو دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایکڑ سے کم از کم ایک خاندان زندگی گزار پاتا ہے۔ ملک میں ہر خاندان میں اوسطاً پانچ افراد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے (ڈیم سے) 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔‘

ہائیڈرو پاور سٹیشن میں پانی استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے پانی ضائع نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس رفتار سے ایتھوپیا اپنا ڈیم بھرے گا اس دوران مصر کا پانی متاثر ہو سکتا ہے۔

ایتھوپیا چاہے گا کہ ڈیم میں پانی کی مدد سے بجلی پیدا ہونا جلد از جلد شروع ہو سکے۔ لیکن پانی بھرنے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔ اس ڈیم کا حوض لندن شہر سے بھی بڑا ہو گا۔

اور یہ ہی وہ اعتراضات ہیں جن سے مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے۔

اگر ڈیم تین سال میں بھرتا ہے تو اس سے دریا میں پانی کی سطح متاثر ہو گی جبکہ اگر یہ چھ یا سات سال میں بھرتا ہے تو پانی کی سطح پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔

دریائے نیل پر ڈیم

ایتھوپیا نے دریائے نیل پر اپنے ڈیم کی 70 فیصد تعمیر مکمل کر لی ہے

مشکل معاہدہ

فی الحال مصر، ایتھوپیا اور سوڈان کے درمیان مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں مل رہی۔ بات چیت ایک سال سے چل رہی ہے جس میں ڈیم میں پانی بھرنے سے لے کر اس کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس متعلق پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے مابین معاہدے کے بغیر ایتھوپیا کو اپنا ڈیم بھرنے نہیں دیں گے۔ ڈیم پر سوڈان اور مصر کے درمیان اختلافات ہیں کہ جب ڈیم کی تعمیر مکمل ہوجائے گی تو سوڈان اس سے کتنا پانی استعمال کر سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے ایتھوپیا مصر کے ساتھ اس وقت وہ ہی کر رہا ہے جو کبھی مصر نے کیا تھا جب اس نے 1960 کی دہائی میں دریائے نیل پر اسی طرز کا ڈیم تعمیر کیا تھا، جس کا نام اسوان ڈیم ہے۔

ایتھوپیا کے لیے اپنا ڈیم قومی فخر کی علامت بن چکا ہے اور یہاں کے حکام منصوبے پر بین الاقوامی امداد کے بجائے خود کے فنڈز استعمال کر رہے ہیں۔ سرکاری افسران کو اپنی سالانہ تنخواہ میں سے ایک ماہ کے پیسے اس منصوبے کو دینا پڑ رہے ہیں۔ تاہم تمام لوگ اس قدام سے خوش نہیں۔

ڈیم کے پیسے جمع کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی بانڈز بھی فروخت کیے ہیں۔ جبکہ ڈیم کے لیے رقم دینے پر لاٹری کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے۔

یہ ڈیم بہت شاندار ہے۔ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے میں چھ برس لگیں گے اور اس پر تقریباً 5000 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس ڈیم کی تعمیر کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

فی الحال مصر کچھ نہیں کر سکتا اور مذاکرات سے آگے صرف فوجی طاقت کا استعمال ہو سکتا ہے جو کہ ایک سخت اقدام ہو گا۔ اسی لیے سفارتکاری اور باہمی اتفاق سے ہی مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن جب قوم پرستی کے جنون میں طاقت کا موازنہ کیا جاتا ہے تو بات مزید بگڑ جاتی ہے۔

دریائے نیل کے پانی پر ایک ممکنہ جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے۔ اسے مستقبل میں ایک مثال کے طور پر استعمال کیا جائے گا کہ کیسے چند ملکوں نے اس قدرتی وسائل پر پیچیدہ اختلافات کو حل کیا۔

لیکن اس کے حصول کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہو گی تاکہ امریکی ثالثی سے ایتھوپیا، سوڈان اور مصر کے درمیان معاہدہ ممکن بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp