اگر جی پی ایس رک گیا تو دنیا کیا کرے گی؟


سٹیلائٹ سسٹم

یہ تمام سروسز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں

کیا ہو اگر گلوبل پوزیشنِگ سسٹم یعنی جی پی ایس کام کرنا بند کر دے؟

سب سے پہلے تو ہمیں پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سوچنا پڑے گا، اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ ارد گرد کی دنیا پر نظر ڈالنی ہوگی اور شاید یہ ایک اچھی چیز ہو کیونکہ آنکھیں بند کر کے جی پی ایس کا استعمال کرتے وقت جو ہم پہاڑوں اور دریائوں میں گاڑیاں اتار دیتے ہیں، شاید اس کا امکان کم ہو جائے۔

مثال کے طور پر سویڈن کے ایک جوڑے نے اٹلی کے کیپری جزیرے کے نام کے سپیلنگ جی پی ایس میں غلط ٹائپ کیے اور وہ سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد اٹلی کے ہی ایک دوسرے قصبے کارپی پہنچ گئے اور وہاں جا کر لوگوں سے پوچھنے لگے کے بھائی سمندر کہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈرونز کا ڈیڑھ سو سال پرانی ٹیکنالوجی سے کیا تعلق ہے؟

’گوگل لینز‘ کتنے کمال کی چیز ہے؟

انڈیا ہلکی ترین سیٹلائٹ مدار میں بھیج رہا ہے

بندرگاہ

بندرگاہوں پر بھی افراتری مچ جائے گی کیونکہ کنٹینروں کو جہاز سے اتارنے کے لیے کرینز کو جی پی ایس کی ضرورت ہوتی ہے

لیکن ایسا کبھی کبھی ہی ہوتا ہے۔

کیونکہ جن آلات میں ہم جی پی ایس کا استعمال کرتے ہیں وہ ہمیں کھونے سے بچاتے ہیں۔

اگر جی پی ایس ناکام ہو جائے تو سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگا، لوگ راستہ بتانے والے بورڈز کو پڑھنے کے لیے گاڑیوں کی رفتار دھیمی کریں گے، راستہ دکھانے والے نقشے پڑھنے پڑیں گے اور اگر کہیں آپ ریل سے سفر کر رہے ہیں تو اگلی ٹرین کب آئے گی یہ بتانے والے بورڈ بھی نہیں ہونگے۔

جی پی ایس

ایسا لگتا ہے کہ جیسے جی پی ایس سمارٹ فونز کے لیے بنایا گیا ہو

ٹیکسی کے لیے فون کریں گے تو آپ کی بات ایک پریشان حال آپریٹر سے ہوگی جو ڈرائیوروں کا پتہ لگانے کے لیے فون سے ان کے ساتھ رابطے میں ہوگی۔ جبکہ جی پی ایس کے ساتھ آپ صرف اپنے موبائل پر اوبر ایپ کھولیں اور ٹیکسی کہاں ہے اس کی تصویر آپ کے سامنے ہوگی۔

جی پی ایس کے بغیر ایمرجنسی سروسز بے حد متاثر ہوں گی۔ آپریٹرز فون کے سگنلز سے فون کرنے والوں کا پتہ نہیں لگا پائیں گے اور ساتھ ہی پولیس کی کاروں اور ایمبیولینسس کی لوکیشن بھی نہیں جان پائیں گے۔

جدید معیشت کی تصویر

صرف پانچ دن تک جی پی ایس کے بند ہونے پر کاشتکاری، تعمیرات اورماہی گیر سمیت مختلف شعبوں میں ہر روز ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوگا

بندرگاہوں پر بھی افراتری مچ جائے گی کیونکہ کنٹینروں کو جہاز سے اتارنے کے لیے کرینز کو جی پی ایس کی ضرورت ہوتی ہے۔

حکومتِ برطانیہ کی رپورٹ کے مطابق صرف پانچ دن تک جی پی ایس کے بند ہونے پر کاشتکاری، تعمیرات اور ماہی گیر سمیت مختلف شعبوں میں ہر روز ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ اور اگر یہ اس سے زیادہ وقت تک بند رہا تو دوسرے سسٹم کے بارے میں بھی فکر شروع ہو جائے گی۔

اگر جی پی ایس صرف راستہ بتانے والا نظام ہوتا تو شاید ایسا نہ ہوّا ہوتا۔

جی پی ایس ایسی چوبیس سیٹ لائٹس پر مشتمل ہے جن میں انتہائی درستی کے ساتھ ملائی گئی گھڑیاں نصب ہیں۔

ولادیمیر پیوتن

روس کا اپنی جی پی ایس سسٹم ہے

جب آپ کا سمارٹ فون نقشے پر آپ کا پتہ لگانے کے لیے جی پی ایس کا استعمال کرتا ہے تو یہ ان میں سے کچھ سیٹ لائٹس سے سگنل پکڑتا ہے اور اس کے بعد وقت اور سگنل کی بنیاد پر حساب لگاتا ہے کہ اس وقت سگنل یا سیٹلائٹ کہاں تھا۔

اگر ان سیٹلائٹس پر نصب گھڑی منٹ کے ہزارویں سیکنڈ کو بھی مِس کر دیں تو آپ جہاں ہیں خود کو وہاں سے دو سے تین سو کلو میٹر دور پائیں گے۔ اس لیے اگر آپ وقت کے بارے میں بلکل صحیح معلومات چاہتے ہیں تو اس کا جواب جی پی ایس ہےگ

اپنے فون کے بارے میں سوچیں۔ آپ کی کالز دوسری کالز کے ساتھ مواصلاتی وسائل شیئر کرتی ہیں اور اس تکنیک کو ملٹی پلیکسِنگ کہا جاتا ہے۔

کویت جنگ

خلیجی جنگ کے دوران کویت میں جی پی ایس تکنالوجی اتحادی افواج کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوئی تھی

منٹ کے ہزارویں سیکنڈ کی غلطی سے بے شمار مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ مثلا بینکوں کی ادائیگیاں، حصص بازار، بجلی گھر، ڈجیٹل ٹیلی وژن، کمپیوٹِنگ یہ سب الگ الگ لوکیشن لیکن ایک ہی وقت پر متفق ہوتے ہیں۔

اگر کہیں جی پی ایس کام کرنا بند کردے تو بیک ہم لوگ یعنی متبادل انسانی نظام کب تک اور کہاں تک ان تمام چیزوں کو بیک وقت اور کامیابی سے چلا پائے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

اب جی پی ایس کی قیمت لگانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ مصنف گریگ مِلنر کا کہنا ہے کہ جی پی ایس کس طرح ہماری دنیا بدل رہا ہے آپ یہ پوچھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسانوں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن کتنی اہم ہے۔

پہلا جی پی ایس سیٹلائٹ 1978 میں لانچ کیا گیا تھا لیکن یہ ٹیکنالوجی خلیجی جنگ میں کویت میں اتحادی افواج کے لیے مددگار ثابت ہوئی جب اتحادی افواج کا آپریشن ڈیزرٹ سٹورم حقیقی معنوں میں طوفان کی نظر ہونے لگا اور ریت کے طوفان سے پانچ میٹر دور کی چیزیں دکھائی دینی بند ہو گئیں تو جی پی ایس کی مدد سے امریکی فوجیوں کو بارودی سرنگوں کی لوکیشن کا پتہ لگانے میں مدد ملی۔

25 اگست کو لانچ ہونے والا چین کا سیٹلائٹ

چین کا نیویگیشن سسٹم تیزی سے ترقی کر رہا ہے گزشتہ سال ہی اس کے لیے دس سے زائد سیٹلائٹ لانچ کیے گئے۔

دراصل جی پی ایس دنیا کا واحد سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم نہیں ہے۔ روس کے سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کا نام گلوناس ہے جو بہت اچھا نہیں ہے جبکہ چین اور یورپ کا اپنا اپنا نظام ہے جن کے نام بالترتیب بائیڈو اور گلیلیو ہیں۔ ادھر جاپان اور انڈیا بھی اپنا نیوی گیشن سسٹم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ متبادل سیٹلائٹ جی پی ایس سے متعلق ہمارے سمائل کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی مستقبل کی جنگوں میں یہ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

سیٹلائٹ نیوی گیشن کے زمینی متبادل بھی موجود ہیں ان میں سب سے اہم کا نام ایلورن ہے لیکن یہ پوری دنیا کا احاطہ نہیں کرتا۔ کچھ ممالک اپنے خود کے قومی نیوی گیشن نظام کو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایلورن کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کے سگنل بہت طاقتور ہیں کیونکہ جی پی ایس کے سگنل بارہ ہزار میل کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچتے پہنچتے کمزور پڑ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp