دوست ”شریکِ جرم“ ہوتا ہے اسی لیے بھائی سے زیادہ عزیز ہوتا ہے لیکن کیا واقعی؟


رشتوں اور جذبات کی نفسیات

دوستوں سے تعلق

ہمارے اردگرد والدین بہن بھائی اساتذہ رشتے دار شریکِ حیات سب ہوں اس کے باوجود ایک رشتے کی ہمیشہ جگہ رہتی ہے اور وہ ہے مخلص دوست۔ ایسا دوست جو ہماری بات سنتا ہو، جو ہمارے احساسات سمجھتا ہو۔

جس قسم کے معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں یہ رشتہ نسبتاً ہر رشتے سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ غور کیجیے کہ پچھلے جتنے رشتوں پہ بات ہوئی ان کی بنیاد ان کنڈیشنل پازیٹیو ریگارڈ یا غیر مشروط مثبت خلوص پہ ہونی چاہیے۔ دوسرے فریق کی بات سنیے اس کو پہلے ہی قدم پہ غلط نہ ٹھہرایا جائے اس کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

اور یہ خصوصیات ہمیں دوستی میں ملتی ہیں۔ دوست ایک دوسرے کے ایسے راز بھی جانتے ہیں جو کسی تیسرے کو نہیں کہہ سکتے۔ دوستی کے لیے ہم عقیدہ، ہم طبقہ، ہم زبان، ہم ذات ہونا ضروری نہیں کبھی کبھی ہم خیال ہونا بھی ضروری نہیں۔ دوستی میں ہمارے پاس گنجائش ہوتی ہے کہ اگر ہمیں کسی ایک دوست سے کسی ایک قسم کے نظرئیے کی بنیاد پہ انسیت ہے تو کسی اور مشغلے، نظرئیے یا عادت کی بنیاد پہ ایک اور دوست ہوسکتا ہے۔ اور اگر خوش قسمتی سے چند ایک ایسے دوست میسر ہوں جن سے آپ کی عادات نظریات مشاغل سب ملتے ہوں تو کیا ہی کہنے۔ اور ساتھ ہی وہ اور آپ ایک دوسرے کے لیے غیرمشروط خلوص رکھتے ہوں تو نعمت سے کم نہیں۔

ہمارے یہاں جہاں سگے محرم رشتوں میں ہم آپ اور ہمارے رشتہ داروں سمیت ہر بندہ دوست کم اور ناصح زیادہ ہوتا ہے ایسے میں دوستوں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

والدین پریشان ہوتے ہیں کہ اولاد ایک تو ویسے ہی بگڑی ہوئی ہے دوست بھی ایسے ہی جمع کرلیے ہیں جو مل کے وقت برباد کرتے ہیں اور تعمیری کام نہیں کرتے۔ اور یہی نکتہ والدین اور گھر والوں کے سمجھنے کا ہے۔

دوست ہمارے مفت کے مشیر ہوتے ہیں جو وقتِ ضرورت ہماری بات سن کے بنا منفی تنقید اپنے ساتھ کا احساس دلاتے ہیں۔

ورنہ یہ صورت ہوتی ہے کہ

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہے دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جو بات ایک شخص اپنے دوست سے کرسکتا ہے وہ اپنے گھر کے کسی بندے سے کیوں نہیں کرسکتا؟ اور اسی شخص کا دوسرا گھر کا فرد بھی اپنے بہت ذاتی مسائل کسی اور سے کہہ رہا ہوتا ہے لیکن بطور والدین بہن بھائی یا شریکِ حیات ایک دوسرے سے نہیں کہہ رہے ہوتے۔

کیوں کہ دوستوں کے ساتھ ہم ذمہ داری والا کردار سائیڈ پہ رکھ دیتے ہیں اور بے فکری والا کردار اپنا لیتے ہیں۔ مجھے یہ خوف نہیں کہ میرے دوست کے میٹرک میں مارکس اچھے نہیں آئیں گے تو لوگ مجھے آکر طعنے دیں گے، نا مجھے یہ خوف ہے کہ میرے / میری دوست کا کسی سے چکر ہوگا تو میری ناک کٹے گی۔ نہ مجھے اس بات کا ڈر کہ دوست کچھ کما نہیں رہا تو یہ ذمہ داری میرے کندھوں پہ آئے گی۔

یہ ذمہ داری نہ ہونے کا احساس ہمیں بہتر مثبت تعلق بنانے میں بہت مدد دیتا ہے۔ اور یہی نکتہ اگر ہم سمجھ سکیں تو ہم باقی رشتوں کو بھی بوجھ سے بدل کر قلبی سکون کا باعث بنا سکتے ہیں۔

جہاں یہ بات مثبت ہے وہیں منفی بھی ہے۔ یعنی کیوں کہ ہم دوست کی ذمہ داری خود پہ نہیں سمجھتے اس لیے دوستی نبھانے کو بھی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ اور کبھی کبھی ذرا سی بات پہ اس مخلص رشتے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیوں کہ اس رشتے کو نبھانے کے لیے نہ اخلاقی زبردستی ہے نہ قانونی چارہ جوئی، نہ ماں نے مرتے دم قسم دی، نا باپ نے عاق کرنے کی دھمکی۔

یعنی وہ رشتے جن کو زبردستی نبھانا ضروری ہے وہ ہم بوجھ بنا کے بھی نبھاتے ہیں اور جو نعمت کی طرح ملا ہے اسے با آسانی بدل لیتے ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ ہم اس رشتے کی اسی خصوصیت کو سمجھ کے باقی رشتوں کو مزید بہتر بنائیں ہم اس رشتے کو مزید کمزور کر لیتے ہیں۔

جب دوست کو ضرورت ہوتی ہے ہم تب بھی احساسِ ذمہ داری نہیں کرتے۔ ایک دوسرے سے مذاق کرنے میں جو ان دیکھی محبت کا عنصر ہونا چاہیے وہ کب مذاق اڑانے، بلئینگ اور تضحیک میں بدل جاتا ہے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ جہاں دوستوں کے پاس گھریلو ذمہ داریوں سے فرار کے طور پہ جاتے ہیں وہیں اس مضبوط رشتے کی مضبوطی جان نہیں پاتے اور اہم دوست گنوا بھی دیتے ہیں۔

یہ مسائل تب زیادہ بڑھتے ہیں جب ہم اپنی دوستی اور باقی رشتوں کو اپنے اصولوں کی زد میں لے آتے ہیں۔

ایسے موقعوں پہ ضروری ہے کہ ہم اصول بنانے اور ان کی پابندی کرنے کی وجہ کا ادراک کریں۔ اصول زندگی اور رشتوں کے لیے ہوتے ہیں رشتے اور زندگی اصولوں کے لیے نہیں ہوتی۔ جہاں اصول و نظریات بنیادی انسانی تشخص کو ٹھیس پہنچائیں وہاں اصول سے روگردانی بہتر ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima